حالیہ پاک، بھارت جنگ میں پاکستان نے نہ صرف زبردست کام یابی حاصل کی، بلکہ قوم نے اُس یک جہتی کا ثبوت دیا، جس کی گزشتہ کئی سالوں سے شدّت سے کمی محسوس کی جارہی تھی۔ یہ زبان زدِ عام تھا کہ پاکستان میں سیاسی و سماجی طور پر خاصی تقسیم ہے اور قوم بہت مایوس ہو چُکی ہے۔ نوجوان ہزاروں کی تعداد میں جائز، ناجائز طریقوں سے بیرونِ مُلک جا رہے ہیں۔
ادھر، اسائلم لینے والے یوٹیوبرز روز قوم کو بتا رہے تھے کہ مُلک اب گیا کہ کل گیا۔ پاکستان نے نہ صرف فوجی طور پر بھارت کے تمام حملے ناکام بنائے بلکہ اپنے طے کردہ اہداف پر کاری ضرب لگا کر برتری بھی منوا لی۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں، خاص طور پر اُس قوم کے لیے، جسے ایک پارٹی کے وابستگان مئی سے پہلے مایوسی کی دلدل میں دھکیلنے کے لیے اندرونِ مُلک شورش اور بیرونِ مُلک سرمایہ خرچ کر رہے تھے۔
بہرحال، اِس فتح نے سب کو دھول چٹوا دی۔یہاں ہم ایک اور کام یابی کو بھول جاتے ہیں، جس میں فوج کے سربراہ، فیلڈ مارشل عاصم منیر کا شان دار کردار رہا۔وہ یہ کہ آج ہم معاشی طور پر کم زور ضرور ہیں، لیکن عالمی ادارے اِس امر کا اعتراف کر رہے ہیں کہ مشکل دَور نکل چُکا اور اب مُلک استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
پاکستان دیوالیہ نہیں ہوا، آئی ایم ایف کے دو پروگرامز حاصل کرنے میں کام یاب رہا اور امریکا، یورپ سے جی ایس پی پلس وغیرہ جیسے معاملات بھی جاری ہیں۔ امریکی صدر نے، جو خود بھی تاجر ہیں اور دنیا کو صرف منافعے کی نگاہ سے جانچتے ہیں، تجارت کی راہیں کھول دی ہیں۔ اب یہ ہمارے عوام، تاجر اور حُکم رانوں پر منحصر ہے کہ وہ اِس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں یا دوسروں کے تنازعات میں ٹانگ اَڑا کر موقع کھو دیتے ہیں۔
واضح رہے، یہ وہی صدر ٹرمپ ہیں، جو کچھ عرصہ پہلے تک پی ٹی آئی کی آخری آس تھے۔ البتہ اِن سب کام یابیوں کے باوجود، پاکستانی حُکم رانوں اور عوام کو یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ اُن کے لیے’’پاکستان فرسٹ‘‘ ہے، باقی سب باتیں بعد کی ہیں۔ ہم یہاں جدید چین کے معمار، ڈینگ ژیاو پنگ کے وہ مشہور جملے یاد دِلاتے چلیں، جو اُنہوں نے چین کی ترقّی کی بنیاد رکھتے وقت کہے تھے۔
اُنہوں نے دسمبر1979ء میں چین کی آئندہ پچاس سالہ پالیسی واضح کرتے ہوئے اپنی قوم سے کہا۔ ’’آج کے بعد چین کی تمام پالیسیز اس کی معاشی ترقّی کی پالیسی کے تابع ہوں گی۔‘‘چینی قوم بہت جھٹکے کھا چُکی تھی، اِس لیے اُسے فوراً یہ بات سمجھ آگئی۔ دوسرے الفاظ میں، اُنہوں نے صاف الفاظ میں قوم کو ہدایت دی کہ اگر دنیا میں مقام پیدا کرنا ہے، تو پہلے معاشی ترقّی کرو، پھر اسکور سیٹل کرتے رہنا۔ چینی قوم نے اپنے مدبّر رہنما کی بات گرہ میں باندھ لی اور اُس پر عمل بھی کر دِکھایا۔لانگ مارچ چھوڑ کر فیکٹریز میں لانگ آورز لگانے لگے۔
پاک،بھارت جنگ میں پوری دنیا نے چین کی فوجی برتری کی ایک جھلک دیکھ لی ہے، جب کہ اِسے’’ دنیا کی معاشی فیکٹری‘‘ تو پہلے ہی تسلیم کیا جا چُکا ہے۔ یہ سب اس قوم کی محنت کا نتیجہ ہے، جس نے کسی شخصیت کا بھوت سر پر سوار کرنے کی بجائے عمل کو فوقیت دی۔ ہمارے اہلِ دانش باتیں اور مثالیں تو بہت دیتے ہیں، لیکن کبھی یہ نہیں بتاتے کہ ہمارا اصل مسئلہ عمل کا ہے۔
اگر چین کے لوگ ہمارے ساتھ آزاد ہوکر آج عالمی سُپر پاور بننے جارہے ہیں، تو ہم یہ مقام کیوں حاصل نہیں کرسکتے۔ہمارے نوجوانوں کو یہی پٹّی پڑھائی گئی کہ بڑھ چڑھ کر سوالات اُٹھاؤ کہ یہی کام یابی کا گُر ہے، مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ سوال ضرور کرو، لیکن عقل کے ساتھ ۔ اور پھر عمل کر کے بھی دِکھاؤ۔آج کا نوجوان کل کا بزرگ ہے، لہٰذا اُسے یہ بتانا ہوگا کہ بلاوجہ سوالات اُٹھانے سے خلجان بڑھتا ہے، ہاں شاید یوٹیوب کے ڈالرز ضرور آجاتے ہوں اور یہ بھی ہم نے اپنے دشمن مُلک، بھارت کی نقل میں سیکھا، مگر جب وہ آئی ٹی سیکٹر میں دنیا پر چھا گیا، تو پھر ہمیں ہوش آیا۔خدارا! کبھی خود بھی سوچ لیا کریں، اللہ نے سب کو عقل دی ہے اور بار بار غورو فکر کی دعوت بھی دی گئی ہے۔
ایک مشکل یہ بھی ہے کہ پاکستانی قوم کو ماضی زندہ میں رہنے کا جنون ہے۔ایک بڑے فلسفی کا کہنا ہے کہ’’جو قومیں حال میں کچھ نہیں کر پاتیں، وہ ماضی کے سہانے خوابوں ہی میں گم رہتی ہیں۔‘‘ کوئی بھی میگزین، اخبار یا کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، بار بار ایک ہی قسم کے ماضی کے قصّے اور واقعات دہرائے جاتے ہیں اور اُن پر تعریف کے ڈونگرے بھی برسائے جاتے ہیں۔ تاریخ دان، فکشن رائٹر یا تخلیق کار ہونا بلاشبہ ایک عظیم رتبہ ہے، لیکن کہیں مستقبل کا بھی تجزیہ کیا جانا چاہیے کہ آخر ہم نے جانا کہاں ہے اور کیسے؟ کبھی ملائیشیا کے ماڈل، تو کبھی چین اور تُرکیہ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
یہ بھی بتا دیا جائے کہ پانچ، پندرہ یا پچیس، پچاس سال بعد ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ایک سابق وزیرِ اعظم تو قوم کو مشورہ دیتے رہے کہ ہماری فلاح اِسی میں ہے کہ ایک دوست مُلک کے بادشاہوں کے ڈرامے دیکھ کر حوصلہ پکڑیں۔بلاشبہ، ہماری تاریخ درخشندہ ہے، ہمارے آباء سُپر پاور رہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کیا ہیں؟ ویسے یاد رہے، اِن ہیروز میں سے شاید ہی کسی کا تعلق ہمارے خطّے سے رہا ہو، مگر ہم ہیروز اور لیجنڈز کے تلاش میں مارے مارے پِھرتے ہیں۔دنیا میں کون سی قوم ہے، جس کے پاس اِتنا وقت ہے کہ وہ ہم سے یہ تاریخی قصّے سُنتی رہے۔
ماضی کے واقعات سے سبق ضرور سیکھیں، لیکن ہمہ وقت ماضی ہی میں جینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ اگر نوجوان بحرِ روم کی لہروں میں اچھا مستقبل تلاش کر سکتے ہیں، تو وہ اپنے مُلک میں ایسی ہی محنت کر کے کیوں قوم کا نام بلند نہیں کرتے۔’’تارکینِ وطن‘‘ کی اصطلاح اب مغرب میں نفرت کی علامت بنتی جارہی ہے۔ ہمیں غور وفکر، تدبّر اور عقل سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھنا ہے نہ کہ ماضی کی بھول بھلیّوں ہی میں بھٹکتے رہیں۔
کہتے ہیں کہ جب انسان بوڑھا ہو جاتا ہے، تو ماضی کے بہترین اور خوش گوار لمحات یاد کرتا رہتا ہے، ٹھیک ہے، کوئی حرج نہیں، لیکن اُسے اپنے تجربات نئی نسل تک اِس طور سے منتقل کرنے چاہئیں، جس سے وہ اچھے، بُرے کی تمیز کرسکے۔
جیسے انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں، اِسی طرح قومیں بھی غلطیاں کر جاتی ہیں۔ ان کی شکست میں کم زوریاں شامل ہوتی ہیں اور اغیار کی سازشیں بھی کہ آگے بڑھنے والی اقوام، باقیوں کے خلاف ہر طرح کے حربے استعمال کرتی ہیں، آپ اُنہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ برسلز میں طے کردہ انسانی حقوق کے اصولوں پر چلو، ورنہ آگے نہیں جاسکتے۔ طاقت ہے تو روک لیں، ورنہ بے بسی سے دیکھتے رہیں۔ طاقت، اقتصادی اور فوجی دونوں شعبوں میں برتری کا نام ہے۔
یہ ممکن نہیں کہ کوئی قوم ماضی اور حال میں کسی ایک ہی اصول پر ترقّی کرے۔ارتقاء، قدرت کا قانون ہے، جس سے قوموں کو گزرنا پڑتا ہے، یعنی کل کچھ اور آج کچھ۔ عقل مند وہی ہے، جو آج کی ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے حکمتِ عملی طے کرے۔ ابنِ خلدون سے لے کر اقبال تک کو پڑھ لیں، اُنہوں نے مسلم قوم کو جہاں عظیم الشّان ماضی سے روشناس کروایا، وہیں اس کی فاش غطیاں بغیر لاگ لپیٹ کے کھول دیں، اِسی لیے یہ عظیم رہنما قرار پائے۔
نیز، اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ آگے بڑھنے کا راستہ موجودہ زمانے کے حالات کے مطابق کیا ہوگا۔آپ کی اخلاقی اقدار کیا ہیں، شاید ہی کسی کو اس سے کوئی غرض ہو، لیکن ترقّی کے اصول تو وہی ہوتے ہیں، جو زمانے میں رائج ہیں۔ کیا ہماری اور چین کی اقدار یک ساں ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر ہم ’’آہنی برادر‘‘ کیسے بنے۔ یہی وہ نکتہ ہے، جسے اِس وقت سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔دراصل، علم کی تلاش اور اُس کی عملی شکل ہی ترقّی کی راہ ہے۔ کیا مسلمانوں نے بغداد، اسپین اور دوسری مملکتوں میں اِسے عروج پر نہیں پہنچایا۔ کیا اُنہوں نے اسپین کو یورپ کے لیے مثال نہیں بنایا۔
ابنِ سینا کی’’القانون‘‘ یورپ کی یونی ورسٹیز میں میڈیسن کی بائبل مان کر صدیوں تک پڑھائی گئی۔ آج کی دنیا ٹیکنالوجی اور سائنس کی ہے، ہمارے ہاں بھی اس بات کا خاصا شور ہے، لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا۔ بدقسمتی سے خود ساختہ دانش وَروں کی کھیپ ہے، جو کبھی ایک طرف لڑھک جاتی ہے، کبھی دوسری طرف۔ اِس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔
یہ لوگ تاریخ و نظریات کو پارٹی اور شخصیات کے مطابق ڈھالتے رہتے ہیں۔ہمارے حکم ران ٹیکنالوجی کا ذکر تو بہت کرتے ہیں، لیکن شاید اُنہیں پتا نہیں کہ قومیں عارضی اقدامات سے نہیں، ویژن سے بنتی ہیں۔ یہاں کوئی نہیں بتاتا کہ آخر قوم کی منزل کیا ہے اور مقاصد کے حصول کے لیے لانگ ٹرم یا شارٹ ٹرم حکمتِ عملی کیا ہونی چاہیے۔
حد تو یہ ہے کہ قوم کو کوئی ایسا اقتصادیات کا ماہر اور سائنس دان بھی میسّر نہیں، جو سیاست سے بالاتر ہوکر رہنمائی کرسکے۔ بس ہر بات میں آئی ایم ایف کا ہوّا دِکھا دیتے ہیں۔ حُکم ران سمجھتے ہیں کہ چند ٹیکنیکل کورسز کروا کر ٹیکنالوجی کی دنیا میں جھنڈے گاڑ دیں گے، جب کہ اگر دنیا کی حالیہ ایک سو سالہ ترقّی دیکھیں، تو وہ کچھ اور ہی داستان بیان کرتی ہے۔
امریکا کیسے سُپر پاور بنا، سوویت یونین کیسے وجود میں آئی اور زوال سے کیوں دوچار ہوئی، چین کی ترقّی کا راز کیا ہے، جاپان ایٹم بم کی بربادی کے بعد صرف روتا نہیں رہا، بلکہ قوم نے سخت محنت کی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے امریکا کے برابر آ کھڑا ہوا۔
جرمنی نے شکست کھائی، لیکن آج یورپ میں سب سے دولت مند اور ٹیکنالوجی کے میدان میں سب سے آگے ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے چھوٹے چھوٹے مُلک سازشوں کا رونا نہیں روتے رہے اور نہ ہی اُن کے نوجوان مایوس ہو کر اِدھر اُدھر بھاگتے پِھرے، بلکہ اُنہوں نے محنت کی اور اپنے خطّے کو دنیا کے لیے مثال بنا دیا۔ ویت نام چھے دہائیوں تک آزادی کی جدوجہد کرتا رہا، امریکا سے نظریاتی فرق رکھتا ہے، لیکن اُس کا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔فرانس نے جرمنی کے ساتھ سو سال تک جنگ لڑی، مگر آج دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھ رہے ہیں۔
کیا یہ سب جادو سے ہوا، انہیں یہ عقل کیسے آئی کہ جو جانی دشمن تھے، وہ گہرے دوست اور کاروباری شراکت دار بن گئے؟ یہ کوئی ڈھکے چُھپے راز نہیں، جن سے پردہ اُٹھانا ضروری ہو۔ یہ ساری اقوام ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھیں۔ماضی اب اُن کی کتابوں اور میوزیم میں ہے، جس سے وہ محض سبق اور عبرت حاصل کرتے ہیں۔
پاکستانی قوم اپنے تاریخ دانوں کا ذکر تو بہت کرتی ہے، لیکن وہ جو کچھ بتا گئے، اُس پر عمل پہ آمادہ نہیں۔ مسلمان گزشتہ سات سو سال سے زوال پذیر ہیں۔ تُرکی میں ساڑھے تین سو سال عثمانی خلافت رہی، کیا اِس دوران وہاں سائنس کے میدان میں کوئی کارنامہ سرانجام دیا گیا، جب کہ یورپ، جس کا وہ خود حصّہ تھا اور ہے، سائنس کے روشن باب لکھ رہا تھا۔
اِسی طرح برّ ِصغیر میں مغل سلطنت کو دنیا کی سب سے دولت مند حکومت کہا جاتا تھا، مگر وہ صرف باغات اور تاج محل ہی بناتی رہی، جب کہ اُسی زمانے میں یورپ اور امریکا میں سائنس کا انقلاب آرہا تھا، جس نے نسلوں کی آب یاری کی۔
وہ تو بھلا ہو کہ سر سیّد احمد خان جیسے محسن کا، جو اِس قوم میں پیدا ہوگیا، وگرنہ جانے ہم آج کہاں ہوتے۔ ہمارے اہلِ دانش اور تاریخ دان بظاہر بادشاہت سے نفرت کرتے ہیں، لیکن پھر بھی اُنہی کی داستانیں سُنانے میں مگن رہتے ہیں۔ آج کا پاکستان جن علاقوں پر مشتمل ہے، اُس کی تاریخ بھی دیکھ لیں۔یہاں کے جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں نے کیا کارنامے سرانجام دئیے۔کیا یہی ہمارے ہیروز ہیں، جنہیں پاکستانی نوجوان کلٹ بنا کر اپنے سروں پر بِٹھاتے ہیں۔
نوجوان جو کسی بھی قوم کی اصل دولت ہوتے ہیں، وہ اپنا مستقبل امریکا، برطانیہ، یورپ یا عرب ممالک کی چھوٹی چھوٹی ملازمتوں میں تلاش کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ چند کھلاڑیوں، کوہ پیماؤں اور فن کاروں کو لیجنڈ بنانے والی قوم کو مایوسی کے سِوا مل بھی کیا سکتا ہے۔ کوئی تو ہیرو پیدا کیا ہوتا، کہیں تو علم کا راج ہوتا۔ یونی ورسٹیز میں جاکر دیکھ لیں، جو صرف اسناد جاری کرنے کی فیکٹریز بن کر رہ گئی ہیں۔
کبھی کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی! شہری مسائل سے متعلق ڈاکٹریٹ تو کر لی، اب یہ تو بتائیں، کراچی میں پانی کا مسئلہ کیسے حل ہوگا، بجلی کی لوڈشیڈنگ سے کیسے نجات ملے گی یا چین سے سولر پینل ہی درآمد کرنے کے گُر بتاتے رہیں گے۔ ٹرانسپورٹ نظام میں کیسے بہتری لائی جاسکتی ہے۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ وہ قومیں مِٹ گئیں، جن کی سوچ و فکر کے سوتے خشک ہوگئے۔ لہٰذا، ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم محض ماضی کے قصّے، کہانیوں ہی میں مگن رہیں گے یا جدید تقاضوں کے پیشِ نظر کوئی قابلِ عمل حکمتِ عملی تشکیل دے کر آگے بڑھنے کا سامان بھی کریں گے، کیوں کہ وقت تو بہرحال تیزی سے گزرتا ہی چلا جا رہا ہے۔