• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹرمپ کے سخت بیان پر پیوٹن کی نرم پالیسی، یوکرین جنگ نئی کروٹ لے رہی ہے
ٹرمپ کے سخت بیان پر پیوٹن کی نرم پالیسی، یوکرین جنگ نئی کروٹ لے رہی ہے 

امریکی صدر، ڈونلڈ ٹڑمپ نے اُس وقت دنیا کو حیرت میں ڈال دیا، جب اُنہوں نے کہا’’پیوٹن بالکل پاگل ہو گئے ہیں۔‘‘ اُنہوں نے یہ جملے روسی صدر سے متعلق اُس وقت اپنے ایکس(ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر لکھے، جب روس کی طرف سے یوکرین کے دارالحکومت، کیو پر ایک بڑا میزائل حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں13افراد ہلاک اور متعدّد زخمی ہوئے۔

ویسے دیکھا جائے، تو یہ حملہ روسی صدر کی کوئی نئی فوجی پیش رفت نہیں تھی،کیوں کہ گزشتہ چالیس ماہ سے جاری اِس جنگ میں ایسے میزائل اور ڈرون حملوں میں دونوں اطراف کے ساٹھ ہزار شہری اور فوجی ہلاک ہوچُکے ہیں، جب کہ یوکرین کے کئی شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ تو صدر پیوٹن کی تعریف کرتے چلے آئے ہیں، پھر اُن کی رائے میں راتوں رات یہ تبدیلی کیسے واقع ہوگئی کہ پیوٹن سے سخت نالاں نظر آ رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں یہ اعتراف بھی کیا کہ’’ اُن کے پیوٹن کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے ہیں، مگر اب اُن کے ساتھ کچھ نیا ہوا ہے، وہ مکمل طور پر پاگل ہوگئے ہیں (اصل انگریزی الفاظ یہ تھے: He has gone absolutely crazy )مَیں نے ہمیشہ کہا کہ وہ پورے یوکرین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، نہ کہ صرف کسی ایک حصّے پر۔ اور شاید یہ درست بھی ثابت ہورہا ہے، لیکن اگر وہ ایسا کرتے ہیں، تو یہ روس کے زوال کا باعث ہوگا۔‘‘

اِس بیان میں صدر پیوٹن سے متعلق اُن کے الفاظ اِتنے اہم نہیں، جتنے آخری الفاظ ہیں، جو گویا روس کے لیے واضح دھمکی ہے کہ وہ باز آجائے، وگرنہ تباہی کے لیے تیار رہے۔ لفظ’’زوال‘‘ جان بوجھ کر استعمال کیا گیا، کیوں کہ سرد جنگ کے دَوران امریکی کارروائیوں کے نتیجے میں سوویت یونین زوال سے دوچار ہوئی اور روس تک سمٹ کر رہ گئی۔

اِس بیان میں ایک اور پیغام بھی پنہاں ہے۔ ٹرمپ اپنے یورپی اتحادیوں اور یوکرین پر الزام عاید کرتے رہے ہیں کہ وہ روس سے جنگ بندی نہیں چاہتے۔شاید وہ سمجھتے تھے کہ ان کے اچھے الفاظ کے جادو میں آکر پیوٹن سیز فائر کر لیں گے اور ان کی چوبیس گھنٹے میں جنگ بند کروانے کی بات پوری ہوجائے گی، لیکن اب لگتا ہے، وہ اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ روس پر مزید پابندیاں عاید کی جا رہی ہیں۔

دوسری طرف، صدر پیوٹن کا ردّ ِعمل اِس قدر ہلکا تھا کہ دنیا حیرت زدہ رہ گئی، کیوں کہ پیوٹن کا عمومی تاثر ایک’’مردِ آہن‘‘ کے طور پر ہے اور دنیا اُنھیں اب تک ایک’’ آہنی حُکم ران‘‘ ہی کے طور پر دیکھتی رہی ہے۔روس کا اِس حقارت آمیز بیان اور خوف ناک دھمکی پر ردّ ِعمل یہ تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کا یوکرین جنگ کی بندش کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات میں اہم کردار پر شُکریہ ادا کیا۔ 

پیوٹن کی طرف سے روس نے کہا’’یہ بہت ہی اہم لمحات ہیں اور جو بھی اس میں شامل ہیں، وہ سب بُری طرح جذبات سے مغلوب ہیں۔‘‘ یہ ردّ ِعمل غیر معمولی نرم ہے، یعنی خاموشی سے، سَر جُھکا کر سب کچھ پی گئے۔ لگتا ہے، پیوٹن کسی بھی حال میں صدر ٹرمپ اور امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہتے، خواہ وہ بیانات میں اُن کی کیسی ہی درگت بناتے رہیں۔ یاد رہے، یہ وہ صدر پیوٹن ہیں، جو ایک آمر، بشار الاسد کو تخت پر برقرار رکھنے کے لیے دن رات شامی مسلم آبادی پر اپنے جدید لڑاکا طیاروں سے بم باری کرواتے تھے۔

اس شامی خانہ جنگی میں اسد کو جتوانے والوں نے ساڑھے پانچ لاکھ مسلمان شہریوں کو قتل، ایک کروڑ افراد کو بے گھر کیا اور اس سفّاکیت پر اُنہیں ذرا سا بھی افسوس نہیں ہوا۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی طاقتیں اور عالمی سیاست کتنی بے حس ہے، کوئی مظلوموں کی مدد کو آتا ہے اور نہ ہی ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی جاتی ہے۔ غزہ کی مثال سامنے ہے، دنیا بے بس مسلمان خواتین، بچّوں اور بزرگوں پر مظالم کا تماشا دیکھ رہی ہے۔

روس بھی، جس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج اور سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں،چین اور یورپ کے طاقت وَر ممالک بھی، بس بیانات کی حد تک اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کاؤنسل ہی میں خُوب گرجتے برستے ہیں، لیکن کوئی ظالم کا ہاتھ پکڑنے کو تیار نہیں۔ شاید یہ کم زور اقوام کے لیے ایک بڑا سبق ہے کہ وہ ہوش میں آجائیں، ایسے حالات پیدا کریں، جن سے اُن کے عوام جنگ اور بھوک کی اذیّت سے بچ سکیں، وگرنہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور عدالتوں سے کچھ نہیں ہونے والا۔ہم نے بھی سقوطِ ڈھاکا میں یہ تماشا دیکھا تھا۔جب سب فنا ہوجائے گا، پھر دو آنسو بہا کر بحالی کے وعدے کیے جائیں گے، مگر پھر کیا فائدہ۔

بہرکیف، ٹرمپ کے بیان پر روسی ردّ ِعمل میں یہ بھی کہا گیا کہ’’یوکرین مسلسل روس پر حملے کر رہا تھا، جس پر جوابی کارروائی کی گئی اور صدر پیوٹن، روس کی سیکیوریٹی کے لیے جو مناسب سمجھتے ہیں، کرتے ہیں۔‘‘ جب روس اور صدر پیوٹن کی طرف سے ایسے جوابات آئیں گے، تو پھر اُن سے یہ توقّع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ غزہ کے بے بس شہریوں کے لیے کچھ کریں گے، جب کہ اسرائیل اُس کا قریبی دوست اور اسٹریٹیجک پارٹنر بھی ہے۔

واضح رہے، بھارت کا فضائی دفاعی نظام روس اور اسرائیل کی مشترکہ کاوش ہے۔ صدر ٹرمپ نے اُس ڈرون حملے کے بعد یہ بیان جاری کیا تھا، جس میں روس نے355 ڈرونز کے ذریعے یوکرین کو نشانہ بنایا تھا اور یہ اس جنگ میں اب تک کا سب سے بڑا حملہ تھا۔

روس اور یوکرین کے درمیان اب تک مذاکرات کے تین ادوار ہوچُکے ہیں۔ پہلا سعودی عرب، دوسرا بحرین اور تیسرا تُرکیہ میں۔ تیسرا مذاکراتی دَور اُس وقت ہوا، جب صدر ٹرمپ کا مشرقِ وسطیٰ کا دَورہ اختتامی مرحلے میں تھا۔اِس موقعے پر اُنہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ’’اگر پیوٹن مذاکرات میں شریک ہوں گے، تو وہ بھی وہاں موجود ہوں گے۔‘‘لیکن پیوٹن آخری وقت میں انکاری ہوگئے۔

اِس ضمن میں ترکیہ نے غیر معمولی کوشش کی، جس سے دنیا کو اُمید ہوئی کہ کم ازکم چند ماہ کے لیے تو خون ریزی رُک ہی جائے گی، لیکن بات چیت صرف چند قیدیوں کے تبادلے ہی تک محدود رہی۔ وہ بھی اِس لیے کہ کہیں امریکا مزید پابندیاں نہ عاید کردے۔ روسی معیشت کا اِس وقت بڑا سہارا اُس کی اسلحہ ساز فیکٹریز ہیں۔ یورپ نے اس سے تمام اہم درآمدات بند کی ہوئی ہیں، جب کہ وہ تیل بھی 35فی صد کم قیمت پر چین اور بھارت کو فروخت کر رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا صدر پیوٹن نے امریکی صدر کے سخت بیان کے جواب میں واقعی بزدلی دِکھائی یا پھر یہ اُن کی ڈپلومیسی کا حصّہ ہے۔ ہمیں تو دونوں باتیں ہی درست لگتی ہیں۔ اِس امر میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ روس، امریکا سے براہِ راست ٹکرائو نہیں چاہتا، کیوں کہ اگر ایسا ہوا، تو یہ جنگ پھر سے یورپ اور امریکا کو قریب کردے گی۔ روس، نیٹو کی فوجی طاقت کو سرد جنگ کے دَوران آزما چُکا ہے۔ 

اسے معلوم ہے کہ امریکی اور یورپی ٹیکنالوجی اس کی وار مشین سے بہت بہتر ہے، اِسی لیے وہ جنگ کو صرف یوکرین تک محدود رکھنا چاہتا ہے، کیوں کہ اُس کے مطابق، یوکرین پہلے بھی اُس کا حصّہ تھا اور اب بھی وہاں کے شمالی علاقے میں روسی بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اِسی بنیاد پر روس، کریمیا پر بھی قبضہ کرچُکا ہے اور امریکا سمیت پوری دنیا اس قبضے پر خاموش رہی۔

صدر پیوٹن اپنی آنکھوں سے سوویت یونین کو ٹوٹتے دیکھ چُکے ہیں کہ اُس وقت وہ خفیہ ادارے، کے جی بی کے ایک نوجوان افسر تھے۔ وہ جذباتی اذیّت ابھی تک اُن کے دل میں بسی ہوئی ہے، اِسی لیے وہ کہتے ہیں کہ’’روس نہیں، تو دنیا بھی نہیں۔‘‘ لیکن صدر پیوٹن عالمی ڈپلومیسی کے بھی منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کہاں وار کرنا ہے اور کہاں رُک جانا ہے۔

اُنہوں نے اس کا حالیہ مظاہرہ اُس وقت کیا، جب احمد الشرع نے برق رفتاری سے دمشق پر قبضہ کرلیا۔ پیوٹن جانتے تھے کہ اُن کے اتحادی، بشار الاسد کے اقتدار کا سورج غروب ہوچُکا ہے، اِسی لیے اُنہوں نے اسد کو سیاسی پناہ دینے کے علاوہ کوئی قدم نہیں اُٹھایا، یہاں تک کہ مشرقِ وسطیٰ کا واحد روسی فوجی اڈّا بھی بغیر کوئی گولی چلائے خالی کردیا۔

صدر پیوٹن خوا مخواہ کی بہادری کے نام پر روس کے عوام اور مُلکی معیشت کو تباہی سے دوچار کرنے پر تیار نہیں۔ اِسی لیے اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے الفاظ کو بہت نرمی سے ٹال دیا اور اُن کی تعریف و توصیف جاری رکھی کہ وہ ٹرمپ کی اِس کم زوری سے واقف ہیں اور اس سے فائدہ بھی اُٹھانا چاہتے ہیں۔ صدر پیوٹن اِس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اُن کی اوّلین ذمّے داری روس کی حفاظت ہے، نہ کہ کسی تنازعے کی خاطر سب کچھ داؤ پر لگا دینا۔ اُن کے لیے روسی زبان بولنے والے یوکرینی، یورپ کو مسلسل پریشان رکھنے کا ایک مُہرہ ہیں۔

دنیا کی سب سے بڑی فوج اور ایٹمی ہتھیار رکھنے کے باوجود اُنہیں اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور ترقّی عزیز ہے، جس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں، یہاں تک کہ پسپائی کے لیے بھی۔ صدر پیوٹن جانتے ہیں کہ اُنہیں چار سال تک صدر ٹرمپ سے معاملات طے کرنے ہوں گے۔ امریکی عوام پیوٹن کو ہٹا سکتے ہیں اور نہ روس کے باسی ٹرمپ کو اقتدار سے الگ کرنے کی پوزیشن میں ہیں، اِسی لیے پیوٹن مذاکرات کے دروازے کُھلے رکھنا چاہتے ہیں۔

ہمارے مُلک کی طرح نہیں کہ کہ اگر مخالف مُلک سے مذاکرات کی بات کی جائے، تو فوراً اپنے وزیرِ اعظم پر غدّاری کے الزامات عاید کرتے ہوئے احتجاجی تحریک شروع کردی جائے۔ یہ ایک اصول ہے کہ اگر جنگ شروع ہوئی ہے، تو پھر بات چیت کے لیے بھی تیار رہیں، کیوں کہ جنگوں کا اختتام عموماً میز ہی پر ہوتا ہے۔

جب یہ فیصلہ ہوا کہ سوویت یونین کے حصّے بخرے کر دیئے جائیں، تو امریکا کے ساتھ روس کے اُس وقت کے صدر بیٹھے اور ہر معاملے پر بات ہوئی۔ کم ہی لوگوں کو پتا ہوگا کہ سوویت یونین کے بکھرنے پر اُس کے ایٹمی سائنس دانوں کی تن خواہ کا مسئلہ بہت اہم ہوگیا تھا کہ روس کے پاس دینے کو پیسے نہیں تھے، تو ان سائنس دانوں کو ایک شہر تک محدود کر دیا گیا اور اُن کی تن خواہ امریکا ادا کرتا رہا تاکہ کہیں کوئی گروہ یا مُلک اُنہیں لالچ دے کر ایٹمی راز نہ چُرا لے اور ایٹم بم بنا لے۔ یہ سب کچھ روس اور امریکا کے رہنماؤں کی باہمی رضامندی سے ہوا، جس پر کسی بھی مُلک سے غدّاری کے نعرے نہیں لگے۔

ٹرمپ، پیوٹن اور صدر شی جن پنگ تینوں آج کے بہت بڑے نیشنلسٹ لیڈر ہیں۔یہ تمام اپنے اپنے مُلک کو سب سے آگے دیکھنا چاہتے ہیں اور بڑی حد تک عالمی لیڈر شپ بھی ان ہی کے پاس ہے۔ دوسری عالمی جنگ نے دنیا کو بہت کچھ سِکھا دیا۔ صدر پیوٹن کی ٹھنڈی ڈپلومیسی اور ٹرمپ کے بار بار بدلتے فیصلے اِسی سبق کا حصّہ ہے۔ ہاں کبھی کبھار شخصیات کا اپنا بھی عکس نظر آ جاتا ہے۔ چین ہمارا سب سے عزیز دوست ہے، لیکن دوسری عالمی جنگ سے پہلے یہ جاپان کے قبضے میں تھا۔ جب امریکا نے ایٹم بم پھینکا اور جاپان نے سرینڈر کیا، تب چین کو آزادی نصیب ہوئی۔آزادی کے بعد اس کے بڑے، چھوٹے ممالک سے کئی طرح کے تنازعات سامنے آئے۔

جیسے ہانگ کانگ، تائیوان، تبّت، بھارت کی ہمالائی سرحد اور سنکیانگ کے مسائل، لیکن اس نے کسی تنازعے پر جنگ نہیں کی، جب کہ اس کی طاقت اور وار ٹیکنالوجی ہم نے حال ہی میں دیکھی ہے۔ہانگ کانگ، برطانیہ سے آزاد ہونے کے بعد چین کی جُھولی میں آگرا، تبّت کے ساتھ بھی معاملات ٹھیک ہوگئے، ہمالائی سرحد پر بھارت سے جھڑپیں ہوتی ہیں، لیکن دونوں ممالک کی باہمی تجارت بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ چین کے ہر فورم پر بھارت موجود ہے، چاہے شنگھائی فورم ہو یا برکس۔تائیوان، چین کا حصّہ ہے، لیکن اس نے کبھی بھی بزورِ طاقت اُسے ساتھ ملانے کی کوشش نہیں کی۔

تائیوان اور مین لینڈ چائنا کے درمیان تمام تر تلخی کے باوجود بڑے پیمانے پر تجارت ہوتی ہے۔چین اور روس بیس سال تک ایک دوسرے کے دشمن رہنے کے باوجود، ایک ہی نظریے کے کمیونسٹ مُلک تھے۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ کی معاشی پالیسی کے بعد دونوں میں دوبارہ دوستی شروع ہوئی اور آج دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔

دوسرے الفاظ میں، تنازعات اور دوستی، دشمنی اور ترقّی ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ یہ بات روس، امریکا، چین اور جاپان جیسے ترقّی یافتہ ممالک، اُن کی لیڈر شپ، سیاسی جماعتیں اور عوام تو سمجھتے ہیں، لیکن معاشی طور پر کم زور ممالک سمجھنے کو تیار نہیں۔

اُن کے رہنما اِدھر اُدھر لڑھکتے رہتے ہیں۔ سوکھی لکڑی کی طرح ہو جاتے ہیں اور قوم کو بھی ایسا ہی کر دیتے ہیں،جو ٹوٹ تو سکتی ہے، مگر لچک نہیں دِکھاتی۔ اِن ممالک کے عوام جان دینے، لینے ہی پر تُلے رہتے ہیں۔ یاد رکھیں، عقل مند اقوام ہری بَھری، لچک دار شاخوں کی طرح ہوتی ہیں، جو اپنے عوام کی خاطر جُھک بھی جاتی ہیں اور پھر بلند بھی ہوجاتی ہیں۔ یہی کچھ صدر پیوٹن نے بھی کیا، اب اِسے کوئی بے عزّتی قرار دیتا ہے، تو یہ اُس کی عالمی امور کے ضمن میں کم فہمی ہی ہوگی۔