کیا واقعی یورپی سفید چمڑی کے خلیوں میں انسانی ہم دردی کی لہریں دوڑنے لگی ہیں؟ کیا واقعی برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور یورپی یونین کو پتا چل گیا ہے کہ غزہ میں ہزاروں معصوم بچّے بھوک سے تڑپ تڑپ کر بِلک، سسک اور مر رہے ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے غذائی ناکہ بندی کے سبب عورتیں، بوڑھے اور بیمار سِسک سِسک کر جانیں دے رہے ہیں۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اہلِ یورپ کی انسانیت میں ہلکی ہلکی سرسراہٹ ہوئی ہے۔
چاروں طرف سے محصور غزہ میں خوراک کی بندش پر احتجاج کی آوازیں سُنائی دینے لگی ہیں، جب کہ اسرائیل کے خلاف کچھ ہلکی پُھلکی کارروائیوں پر بھی غور ہونے لگا ہے۔ مذمّت اور نفرت کی آوازیں آنے لگی ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کے خلاف عالمی برادری کا ردِّ عمل وہی صُورت اختیار کر لے گا، جیسا مقامی آبادی کو نسلی بنیادوں پر جبر و فسطائیت کا نشانہ بنائے رکھنے والی جنوبی افریقا کی گوری چمڑی والی حکومت کے خلاف دنیا نے اختیار کیا تھا۔
شاید یورپ میں انسانیت جاگ جائے،لیکن اصل معاملہ امریکا کا ہے، جہاں ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہیں، جن کا داماد انتہائی متعصّب یہودی ہے۔ٹرمپ کا تعلق ایوینجلیکل(Evangelical) عیسائی فرقے سے ہے۔ یہ پروٹیسٹنٹ عقیدے میں پیدا ہونے والی کئی شاخوں میں سے ایک ہے، لیکن جدید دَور میں اس کے عقائد پر یہودی اثرات غالب ہیں۔ عقیدے کے طور پر مانیں یا نہ مانیں،ان میں یہ سوچ بہرحال موجود ہے کہ اصل مسیحا کا نزول تب ہو گا، جب دنیا میں بکھرے یہودی ارضِ موعود، یعنی فلسطین میں دوبارہ آباد ہو جائیں گے اور ہیکلِ سلیمانی اصل شکل میں تعمیر ہو جائے گا۔
فلسطینیوں کو اُن کے وطن سے نکالنا اور یہودیوں کو بسانا ٹرمپ اور نیتن یاہو کی مذہبی سوچ ہے۔ یروشلم، فلسطین کا مرکزی شہر اور صدیوں سے اس کا دارالحکومت ہے۔ حدیثِ مبارکہؐ میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے مسجدِ اقصیٰ، کعبۃُ اللہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد تعمیر کی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے معراج کے زمینی سفر کی پہلی منزل مسجدِ اقصیٰ ہی تھی۔ یوں مسلمانوں کے نزدیک یہ مسجد الحرام اور مسجدِ نبویؐ کے بعد تیسری مقدّس ترین عبادت گاہ ہے۔
مسلمان خواہ کتنے ہی گئے گزرے کیوں نہ ہوں، وہ مسجدِ اقصیٰ کی شہادت یا توہین پر خاموش نہیں رہ سکتے۔خیر، بات ہو رہی تھی کہ فلسطینیوں کو نکالے بغیر یہودی اِس سرزمین پر قابض نہیں ہو سکتے۔ فلسطینیوں کا عزم و استقلال ناپنا ہو، تو صرف یہ دیکھ لیں کہ فلسطین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے،’’غزہ‘‘ کی جنگ تیسرے سال میں داخل ہونے کو ہے۔ اسرائیل کو اپنی وحشیانہ جنگی ٹیکنالوجی اور امریکا کی بے پناہ مدد کے باوجود اپنے قیام سے لے کر آج تک، اِتنی طویل جنگ اور ایسے جرّی اور شیردل مجاہدوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔
دوسری بار صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ نے جن منصوبوں کا اظہار کیا، اُن میں ایک یہ ہے کہ غزہ کے جو لوگ موت کے منہ میں جانے سے بچ گئے ہیں، اُنہیں جبراً اردن، مصر اور کچھ دوسرے ممالک منتقل کردیا جائے اور تباہ حال غزہ کا ملبہ صاف کر کے اِس چھوٹے سے ٹکڑے کو اسرائیلی، امریکی اور یورپی عیش پرستوں کی جنّت بنا دیا جائے۔ عالمی تعمیراتی اور تجارتی کمپنیز کے دفاتر، ڈیلیکس ہوٹل اور پُرتعیّش قیام گاہیں قائم کر کے اسے عالمی سرمایہ داروں کا عشرت کدہ بنا دیا جائے۔
منصوبے کے مطابق، اس مجوّزہ جدید غزہ میں ایک نئے مشرقِ وسطیٰ کی تشکیل کی جائے۔ ایک نئی تہذیب کو جنم دیا جائے، جس میں لبنانی اور مصری حسیناؤں کی جلوہ کاریاں ہوں اور عرب امراء، روساء کے عیش و عشرت کا ہر سامان میسّر ہو۔ لیکن اِس مکروہ منصوبے پر عمل میں بہت بڑی رکاوٹ تو یہ ہے کہ اردن کا بادشاہ، عبداللہ اور مصر کا آمر، عبدالفتاح السیسی اپنے عوام کے اندر کھولتے غیض و غضب کو اچھی طرح محسوس کرتے ہیں۔ وہ غزہ کی اُجڑی آبادی کو اپنے ہاں آباد کرنے پر آمادہ نہیں۔
ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ غزہ کے مجاہدین اور مظلومین خود بھی اپنا وطن چھوڑ کر کہیں اور آباد ہونے کو تیار نہیں۔نیز، صدر ٹرمپ کی سمجھ میں بھی یہ بات آ گئی ہے کہ مجاہدینِ غزہ اگرچہ تعداد میں مٹّھی بَھر ہیں، لیکن اسرائیل انتہائی مہلک ہتھیاروں سے مسلسل وحشیانہ بم باری کے باوجود ابھی تک اُن کا خاتمہ کر سکا اور نہ ہی اپنی جدید ترین اور انتہائی طاقت وَر فوج، سُراغ رساں ذرائع کے باوجود یرغمالیوں کو تلاش اور آزاد کروا سکا۔
جو یرغمالی اِس وقت تک چھوڑے گئے ہیں، وہ حماس سے مذاکرات کے ذریعے ہی آزاد ہوئے ہیں۔ حماس کی سرنگوں اور غاروں میں کتنے مجاہد ابھی پورے عزم و استقلال کے ساتھ موجود ہیں،کسی کو معلوم نہیں،لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ سمجھنا کہ بس اب اسرائیل اپنی فتح کے پرچم لہرانے لگے گا، وہ منزل ابھی بہت دُور ہے۔
اِس صدی کے ابتدائی عرصے میں امریکی صدر، جارج ڈبلیو بُش کی وزیرِ خارجہ، کونڈو لیزا رائس نے خلیجی اور دیگر عرب ممالک میں جمہوریت کے فروغ کا عزم ظاہر کیا تھا۔ ٹرمپ اسی پارٹی کے منتخب صدر ہیں، لیکن تین خلیجی ممالک کے دَورے میں اُنہوں نے جمہوریت کا درس دیا اور نہ ہی وہاں جمہوری آزادیوں اور انسانی حقوق کی پامالی پر کوئی بات کی۔ وہ بلیک میلنگ کے ذریعے تجارتی سودے کرنے کے ماہر ہیں۔ فرانس کے اخبار Le Mondeنے ٹرمپ کے دَورے کوdeal-centricکا نام دیا۔
اُنہوں نے اپنے پہلے دَورِ صدارت کا آغاز بھی سعودی عرب کے دَورے سے کیا تھا اور اِس بار بھی سب سے پہلے سعودی عرب ہی گئے۔کویت،عراق جنگ کے عرصے،یعنی 2003ء سے امریکی افواج کا خلیجی ہیڈ کوارٹر، قطر کے شہر العُدَید میں قائم ہے، جہاں صدر ٹرمپ کو امریکی فوجیوں سے خطاب کرنا تھا۔اِس طرح قطر کا دورہ ضروری تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے جن تین خلیجی ریاستوں کا دَورہ کیا،وہاں اُنھیں تاریخی پروٹوکول سے نوازا گیا اور بلین ڈالرز کے معاہدے کیے گئے۔
سمیّہ غنوشی، برطانیہ میں مقیم تیونسن نژاد دانش وَر اور قلم کار ہیں۔تیونسی پارلیمنٹ کے اسپیکر، ممتاز سیاست دان اور عالمی اسلامی تحریکوں کے ایک رہنما، شیخ راشد الغنوشی کی صاحب زادی ہیں۔ تیونس اور مشرقِ وسطیٰ کے حالات پر برطانیہ کے اخبارات اور ویب سائٹس پر اِن کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے دَورے کے بعد اُن کا ایک مضمون ’’Middle East Eye‘‘ میں شائع ہوا، جس میں لکھتی ہیں کہ’’عین اُس وقت جب اسرائیل، غزہ میں بچّوں کو انتہائی بے دردی سے مارنے میں مصروف ہے، ریاض سے ابوظبی تک ایک مقابلہ جاری ہے کہ ٹرمپ کی خوش نُودی میں کون دوسرے سے بڑھ کر خرچ کرتا ہے۔ٹرمپ کا ریاض، ابوظبی اور دوحا کا دَورہ ڈپلومیسی نہیں، بلکہ ایک تھیٹر بن گیا ہے۔
کون نہیں جانتا کہ غزہ کے معصوموں کے بے دردی سے بے تحاشا قتل میں صدر ٹرمپ کی شاباش شامل ہے، لیکن اس نسل کُشی کی داد اُسے سُرخ قالینوں پر استقبال کے ذریعے دی گئی ہے۔‘‘سمیّہ غنوشی نے لکھا کہ’’یہ مُلک سمجھتے ہیں کہ اُن کی بقا ٹرمپ کی خوش نُودی میں ہے۔‘‘ ٹرمپ نے 2017ء کے دورے میں سعودی عرب سے ایک سو دس بلین کے اسلحے کا سودا کیا تھا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اِس بار اُنہوں نے جس سرمایہ کاری کی خواہش یا مطالبہ کیا، وہ سعودی عرب کی کُل خام پیداوار (GDP)کے برابر، یعنی ایک کھرب ڈالر کا ہے۔
بی سی سی اور یورو نیوز کے مطابق، متحدہ عرب امارات نے دو سو ملین کے سودے کیے، جب کہ ایک دس سالہ منصوبہ پیش کیا گیا، جس کے مطابق ایک اعشاریہ، چار کھرب کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ریاض، ابوظبی اور دوحا میں کسی حُکم ران نے صدر ٹرمپ سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ غزہ میں نسل کُشی رکوائیں۔ غزہ کے معاملے میں چین اور تُرکیہ کو تو چھوڑیں، کئی یورپی اور غیر یورپی ممالک، فرانس، کینیڈا، میکسیکو بھی ڈٹ کر کھڑے ہیں اور اسرائیل کی کُھل کر مذمّت کر رہے ہیں،لیکن مسلم ممالک جُھکتے چلے جا رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ اُن کے جُھکنے سے لُطف اندوز بھی ہو رہے ہیں اور جُھکنے کے ہر عمل پر مزید مطالبات بھی کر رہے ہیں۔یہ اطاعت اور باج گزاری ایک خوف کا نتیجہ ہے۔کسی نئی’’عرب بہار‘‘ کا خوف،لیکن’’عرب بہار‘‘جیسا ظاہرہ (Phenomenon) بتا کر نہیں پُھوٹتا۔2011ء میں کسی عرب حُکم ران کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کوئی عوامی تحریک برپا ہوسکتی ہے اور نہ ہی امریکا اور یورپ کی انتہائی باخبر خفیہ ایجنسیز کو ایسی کوئی خبر تھی۔
تیونس میں ایک غریب مزدور پر قصبے کی بلدیہ کی ایک خاتون اہل کار کے توہین آمیز رویّے پر اُس مزدور، بوعزیزی کی خود سوزی کے المیے سے ایک تحریک نے جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تیونس، مصر اور دیگر کئی عرب ممالک میں عوامی احتجاج کا طوفان برپا ہو گیا۔ آمریت کے پرانے پیڑ ایک ایک کر کے زمیں بوس ہونے لگے۔ تیونس کے بدعنوان اور بے رحم، حکم ران علی زین العابدین نے بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ لی۔حُسنی مبارک مستعفی ہوکر فوج کی تحویل میں چلا گیا۔
یمن کے صدر علی عبداللہ صالح نے بھی بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ لی۔شام کے فاشسٹ بشارالاسد نے ایران اور روس کی مدد سے اپنا اقتدار بچا لیا، مگر پورا شام اُجاڑ دیا۔ یہ تحریک انسانی حقوق، عزّت اور آزادی کی جو خوش بُو لے کر آئی تھی، اُس نے امریکا کو پریشان کر دیا۔ امریکا کو فوراً فکر لاحق ہو گئی کہ عرب خطّے سے اس کے ہاتھ بندھے حُکم رانوں کا خاتمہ ہو جائے گا، چناں چہ اُس نے یک لخت پالیسی بدل لی۔
اب سارا مشرقِ وسطیٰ آمریّتوں کا گڑھ ہے۔وہ تیونس جہاں سے’’عرب بہار‘‘ کے جھونکے آئے تھے، جمہوریت کی پٹری پر چڑھ کر اب پھر سِول آمریت کی لپیٹ میں ہے۔ سمیّہ غنوشی کے والد، راشد الغنوشی اُس’’عرب بہار‘‘کے بعد طویل جلاوطنی کاٹ کر وطن لَوٹے اور مُلک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرنے لگے۔ جمہوریت کی بحالی کے بعد جو آزادانہ انتخابات ہوئے، اُس میں اُن کی پارٹی’’النّہضہ‘‘نے89 نشستیں حاصل کیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مصر جیسے حالات پیدا کیے گئے اور مصر کے منتخب صدر، محمّد مرسی(مرحوم) کی طرح اب راشد الغنوشی پھر جیل میں ہیں۔
ان کی پارٹی پر بیرونِ مُلک سے فنڈ حاصل کرنے کا الزام لگا کر اُنہیں جیل میں ڈالا گیا ہے۔ سمیّہ غنوشی خدشہ ظاہر کر رہی ہیں کہ کوئی شاطرانہ بہانہ تراش کر اُن کے والد کو سزائے موت دے دی جائے گی۔ مشرقِ وسطیٰ میں ابھی ’’ محمّد مرسیوں‘‘ اور’’راشد الغنوشیوں‘‘ کی صبح طلوع ہونے میں شاید یہ صدی بھی گزر جائے۔ احترامِ انسانیت، بنیادی انسانی حقوق اور آزادیٔ رائے تو اب امریکا میں بھی قصّۂ پارینہ بنتے جا رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایک نئی طرز کی آمریت کو فروغ دے رہے ہیں۔ہارورڈ جیسی عظیم یونی ورسٹی سمیت کئی بڑی جامعات کی آزادی چھین لی گئی ہے۔ خلیجی حُکم ران دس، دس سال کے معاہدے کر کے اپنے اقتدار کی ضمانت پکی کر رہے ہیں۔ غزہ آخری دَموں پر ہے اور ان میں سے کسی مُلک نے صدر ٹرمپ سے انتہائی سفّاکی سے مارے جانے والے غزہ کے بچّوں کی حفاظت کے لیے کوئی اپیل کی اور نہ ہی اسرائیل کے خلاف کوئی حرفِ شکایت زبان پر لائے۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)