پاکستان کے بیشتر علاقوں میں نظر آنے والی ہیٹ ویو کی موجودہ کیفیت جہاں متاثرہ مقامات پر احتیاطی تدابیر کی متقاضی ہے وہاں ان اقدامات کی ضرورت بڑھ گئی ہے جن سے صورتحال کے منفی اثرات کم کرنے میں مدد ملے۔ اقوام متحدہ کی کئی عشروں سے جاری رپورٹیںگلوبل وارمنگ کے خطرے سے آگاہ کرتی رہی ہیں جو حیاتیات کے لئے چیلنج بن کر سامنے آچکی ہے۔ زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت نہ صرف ہماری نقد آور کہلانے والی فصلوں، اجناس کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے بلکہ جنگل کی آگ ، قحط سالی، بارش، سیلاب، گلیشیروں کے پگھلائو سمیت کئی صورتوں میں حملہ آور ہوکر ہمیں اس تساہل کی سزا دینے پر تلا نظر آتا ہےجو ماحولیاتی کیفیت کو معتدل رکھنے کے حوالے سے تاحال روا رکھا گیا۔ 13جون تک معمول سے 7ڈگری زیادہ سطح پر برقرار رہنے والی موجودہ گرم لہر سے نمٹنے کیلئے کئی شہروں میں جگہ جگہ شامیانوں، ٹھنڈے پانی، ضروری طبی امداد کے انتظامات برمحل ہیں۔ مگر گرمی کی اس لہر کو وقتی کیفیت سمجھنے کی بجائے ماحولیاتی تبدیلی کا خطرناک اشارہ سمجھ کر اپنی منصوبہ بندیوں کا اہم حصہ نہ بنانا ایسی کوتاہی ہوگی جسکی سزا 2022ء کے افسوسناک واقعات کے بعد بھی کسی نقصان کی صورت میں سامنے آسکتی ہے۔ بلاشبہ ماحولیاتی تبدیلی کی موجودہ صورتحال میں کاربن کا زیادہ استعمال کرنے والے بڑے ممالک کاحصہ بڑا ہے۔ مگر متاثرہ ملک کی حیثیت سے ہماری کاوشیں ناکافی معلوم ہوتی ہیں۔ درختوں کی بے دریغ کٹائی، آبادیوں کے بے ہنگم پھیلائو، زراعت اور پارکوں کے لئے درکار جگہوں کے سکڑائو، زیرزمین پانی کے بڑے پیمانے پر نکالے جانے نے خطرات بڑھا دیئے ہیں۔ کراچی کے علاقے ملیر اور لانڈھی 2014ء سے 2020ء کے دوران 15.7سینٹی میٹر دھنس چکے ہیں۔ وطن عزیز کے مفاد میں ہمیں ہر پہلو پر نظر رکھنا اور موثر تدابیر بروئے کارلانا ہوں گی۔