پہلگام واقعے کا بھانڈا پھوٹتے ہی نریندرمودی جی کا سیاسی زوال شروع ہوگیا۔ جی حضور!سرنڈر، نریندر ، سرنڈر۔ آج بھارتی اپوزیشن کا مقبول ترین سیاسی نعرہ بن چکا ہے۔ پہلگام واقعے نے پاکستان کیلئے نئی دنیا کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، سچ کو آنچ نہیں، ایک نہ ایک دن دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہو ہی جاتا ہے۔ آخر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ مودی اب چُھری تلے آئے ہیں۔ اپنے تیسرے دور اقتدار میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے جھوٹے بیانئے پر رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔ قدرت کے فیصلوں کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔ آج وہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے سفارتی مشنز، پارلیمانی وفود کو دنیا کے بڑے لیڈرز، سربراہان مملکت اور بھارت کا سب سے بڑا سٹرٹیجک اتحادی امریکہ خود مودی کے گھناؤنے کردار پر انگلیاں اٹھا رہا ہے۔ دنیا اب سرنڈر جی کو ایک ”خودکش “ کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ اللہ دیاں اللہ ای جانے کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ مبصرین کہتے ہیں کہ زخم خوردہ شخص کسی بھی وقت کوئی ایسی حماقت کر سکتا ہے جس سے پوری دنیا کا امن و سکون تہہ و بالا ہو جائے۔ ہوشیار رہنے کی بِنتی کی جاتی ہے کہ اس مکار و چالاک شخص پر کسی صورت اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا شخص جو بھارتی مسلمانوں، کشمیریوں، اقلیتوں کی لاشوں پر ہندو توا کی بنیاد پر اپنا سیاسی مندر تعمیر کرنے کی خواہش رکھتا ہے، یہ سومنات اب گرنے ہی والا ہے۔ کانگریسی رہنماراہول گاندھی کی قیادت میں بھارت کی اپوزیشن جما عتیں، سیاسی و سماجی تنظیمیں، دفاعی تجزیہ نگار، جی حضور! سرنڈر ، نریندر، سرنڈرکے نعرے پرمودی کا بینڈ بجا رہے ہیں۔ نتائج یہ نکل رہے ہیں کہ بھارتی سفارتی وفود جو اپنی شکست کا غم مٹانے بیرون ملک گئے ہیں اب’’ تھوڑی سی جو پی لی ہے‘‘ گنگناتےہوئے موج مستی کرتے دنیا بھر میں بھارتی عوا م کی مزید رسوائی کا سبب بن رہے ہیں۔ وہ جہاں جاتے ہیں انہیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں، سکھ کمیونٹی حتیٰ کہ بھارتیوں کے غم و غصے ، شدیداحتجاج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر ان کا راستہ روک لیا جاتا ہے، نریندر جی کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہیں جس سے انکی بدنامی کو مزید چار چاند لگ جاتے ہیں۔ سفارتی ذرائع اس تماشے کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اکثر ممالک کے حکام نے بھارتی وفود سے ملاقات سے معذرت کرلی ہے جو کوئی ان سے ملتا ہے سب سے پہلے مسئلہ کشمیر بارے پوچھتا ہے کہ کب اور کیسے حل ہوگا؟ سفارت کار ان سے سوال پوچھتے ہیں کہ پاکستان کا پانی کس قاعدے قانون کے تحت بند کیا گیا ہے، قابل تحسین ہیں، صدر مملکت آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار جنکی مشاورت سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پارلیمانی وفد اقوام متحدہ و امریکہ بھجوایا گیا۔ اس وفد نے بہترین سفارت کاری کے اصولوں کے تحت کھلے الفاظ میں بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کا موقف سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی، مسئلہ فلسطین و کشمیر میں مماثلت، دنیا کا امن ان دو بڑے عالمی مسائل سے مشروط کرکے بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کو واشگاف الفاظ میں بے نقاب کرتے ہوئے مودی کونیتن یاہو کی سستی کاپی قرار دیا ہے۔ پارلیمانی وفد نے اپنے ٹھوس موقف کا ڈٹ کر دفاع کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے مستقل مندوبین کو بھارتی جارحیت کے نتیجے میں مستقبل کے ممکنہ نقصانات بارے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کو دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اپنانے، پہلگام جیسے واقعات کی مشترکہ تحقیقات کیلئے ایک مشترکہ فورم کی تشکیل، دونوں ایٹمی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں آئی ایس آئی، را کے درمیان رابطہ کاری کی آؤٹ آف باکس سرپرائزپیش کش کرکے نریندر عرف سرنڈر جی کو مزید حیران و پریشان کر دیا ہے،گیند اب انکی کورٹ میں ہے وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں؟ یہ بُرے کواس کے گھر تک پہنچانے کی بہترین سفارت کاری کی اعلیٰ ترین مثال ہے، یہ تجویز پیش کرکے پاکستان نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ”ذمے داری کے ساتھ امن“ کو فروغ دینے کی ایک دیانت دارانہ کوشش کی ہے۔ بڑے بزرگوں کا قول ہے کہ انسان کامیابی(فتح) کی چوٹی تو سر کرلیتا ہے اصل کامیابی چوٹی پرآخری دم تک کھڑے رہنا ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے بھارت کو جنگ میں شکست دینے کے بعد جو سفارتی اقدامات کیے ہیں مذاکرات و امن کی جو مخلصانہ پیشکشیں کی جارہی ہیں یقیناً یہ وہ اعتماد ہے جو پوری قوم کو سرنڈر جی کی حماقتوں کے نتیجے میں فتح کی صورت ملا ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ہماری سفارتی تنہائی تیزی سے ختم ہوئی ہے۔ دنیا اب ہمارے موقف کو تسلیم کرتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاک چین بے مثال دوستی کے نتیجے میں خطے کی سیاست میں کچھ خدشات کے باوجود مثبت اور خوش گوار تبدیلیاں محسوس کی جارہی ہیں۔ افغان عبوری انتظامیہ کیساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہتری کے آثار پیدا ہو ئے ہیں۔ گیم چینجر سی پیک منصوبے کی افغانستان تک توسیع، وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ٹرین سروس شروع کرنے کا منصوبہ ترقی کی ایسی کرنیں ہیں جس کی روشنی سے ہر طرف خوش حالی کے واضح امکانات سے سرنڈر جی!رام نام ست ہے جپتے رہ جائیں گے۔