• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

باپ، زندگی بھر کا وہ اثاثہ ،سرمایہ ہے، جس کا کوئی نعم البدل نہیں ،یہ وہ عظیم ہستی ہے، جو اپنی اولاد کی خوشیوں، راحتوں کے لیے اپنے سب دکھ، درد پسِ پشت ڈال دیتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کا ہر باپ اپنی اولاد کو خود سے زیادہ کام یاب دیکھنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب بچّوں کے باپ سلامت رکھے۔ ہمارے پیارے ابّوجی، مشتاق حسن انتہائی صابر و شاکر اور سخت محنتی انسان تھے۔ وہ معروف انگریزی اخبار کے سرکولیشن ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ منیجرکے عہدے پر فائز تھے۔ 

ہمیشہ رزقِ حلال کمایا اور مخلوقِ خدا کی بے لوث خدمت کی۔ اپنے بچّوں کی بہترین تربیت کے ساتھ اُنہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیااور یہ اُن کی بہترین تعلیم و تربیت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم سب بہن، بھائی کام یاب، خوش حال زندگیاں گزار رہے ہیں۔ اُنھوں نے ہم چھے بھائیوں اور تین بہنوں کے دل میں عِلم حاصل کرنے کا شوق و جذبہ جگایا۔ بچپن میں ہمیں قرآنِ پاک کی تعلیم دلوانے کے لیے گود میں اُٹھا کر مدرسے لے جاتے۔ 

کچھ بڑے ہوئے تو نماز کے لیے ہاتھ پکڑ کر مسجدلے جانے لگے۔ ابّو جی کی اَن تھک محنت اور کوششوں کی وجہ سے آج ہم سب بہن، بھائی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ہمارے ابّو جی، عید، بقرعید، رمضان المبارک اور عید میلاد النبی سمیت تمام اسلامی تہوار کا انتہائی ذوق و شوق سے اہتمام و انصرام کرتے۔

ہر سال عیدالاضحی سے تقریباً دو تین ہفتے قبل قربانی کے لیے بکرے لے آتے اور اُن کی خُوب خاطر کرتے، ہمیں بھی اچھی طرح دیکھ بھال اور خدمت کی تلقین کرتے۔ آفس سے آنے کے بعد سب سے پہلے قربانی کے جانوروں کے پاس جاتے، اُنھیں پانی پلاتے، چارہ کِھلاتے اور دیر تک اُن کی خدمت میں لگے رہتے۔ شام کو ابّو کے ساتھ ہم اُنھیں گھمانے لے کر جاتے۔ 

ابّو جی گھر کی تمام ذمّے داریاں پوری کرنے کے ساتھ محلّے، پڑوس کے لوگوں کے مختلف کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے۔ وہ مسجد کمیٹی کے رکن ہونے کے ناتے رمضان المبارک اور عیدالفطر پر صدقہ، زکوٰۃ اور فطرانہ، جب کہ عیدالاضحی پر کھالیں وغیرہ جمع کرتے۔ مختصر یہ کہ آفس کے بعد ابّو جی کا باقی وقت اسی طرح کے فلاحی و رفاہی کاموں میں گزرتا۔ وہ صرف ہمارے ابّو ہی نہیں، محلّے بھر کے ’’بابوجی‘‘ بھی تھے۔

ابوّ جی ہم سب بھائی بہنوں سے بے تحاشا محبّت کرتے، اُن کے خلوص، پیار و محبّت کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ہمارے چہرے پر ذرا سی پریشانی کے آثار دیکھ کر تڑپ جایا کرتے۔ اُن کی بے پایاں محبّت و شفقت کے سائے میں جیتے ہوئے ہمیں کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ کبھی ہمیں داغِ مفارقت بھی دے جائیں گے۔ جمعہ یکم جنوری 1990، کوابّو جی نے داعئ اجل کو لبیک کہا۔ مجھے یاد ہے، جمعے کو آفس سے آنے کے بعد چائے پی کر عصر کی نماز کے لیے مسجد جارہے تھے کہ اچانک طبیعت خراب ہوگئی۔ 

اسپتال لے جانے کے لیے ایمبولینس میں لٹایا تو سانسیں اکھڑنے لگیں۔ اس حالت میں بھی کلمہ شہادت، یٰسین شریف اور سورئہ رحمٰن کا ورد کرتے رہے۔ پھر یک دَم کچھ لمحے رُکے اور میری طرف دیکھ کر گلوگیر آواز میں کہا۔ ’’بیٹا! تمہاری امّی نے ہمیشہ گھریلو زندگی گزاری ہے، گھر سے باہر کی دنیا نہیں دیکھی، انہیں کبھی اکیلا مت چھوڑنا، ہر طرح سے اُن کا بے حد خیال رکھنا۔‘‘ اور کہہ کر دوبارہ یاسین شریف پڑھنے لگے۔

ہم ابّو جی کو لے کر اسپتال پہنچے، تو عصر کی اذان کی صدائیں گونج رہی تھیں اور ہمارے پیارے، جان سے زیادہ عزیز ابو جان اللہ کے حضور پیش ہونے کے لیے رختِ سفر باندھ رہے تھے۔ ان کے انتقال پر آس پڑوس، محلّے کے سب ہی افراد غم زدہ تھے۔ ہر شخص کی زبان پر یہی تھا کہ ’’آج جناح کمپاؤنڈ یتیم ہوگیا۔‘‘ 

اُن کے انتقال کو اتنا عرصہ بیت جانے کے باوجود اُن کا تعمیر کردہ مکان، اُن کی کتابیں اور استعمال کی دیگر اشیاء آج تک ہم نے ویسے ہی سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں۔ اللہ پاک، میرے والدین کے درجات بلند فرماکر اُنھیں جنّت الفردوس میں آقائے دو جہاں حضور اکرم ﷺ کا پڑوس عطا فرمائے، آمین، یارب العالمین۔ (صبور مشتاق حسن، رمضان گارڈن، کراچی)