گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے سالانہ بجٹ پیش کیا، جس کی حسبِ روایت حکومت اور اس کے حامیوں نے تعریف کی، تو اپوزیشن نے بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا۔ اِس ضمن میں حکومت کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ اُس نے معیشت دوبارہ پٹری پر ڈال دی اور مُلک کو دیوالیہ ہونے کے خوف سے نکال کے استحکام کی طرف لے آئی ہے۔
وزیرِ اعظم اِسے’’لانچنگ اسٹیج‘‘کہتے ہیں۔ اِس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے شعبوں میں کام یابیاں ریکارڈ کی گئیں۔ تن خواہ دار طبقے کو ریلیف دیا گیا، لیکن یہ وہ ملازم ہیں، جو سرکاری شعبے میں کام کرتے ہیں، جب کہ نجی شعبے سے وابستہ ملازمین کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
منہگائی میں خاطر خواہ کمی آئی، گو اِس معاملے میں کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ منہگائی میں کمی نہیں ہوئی، بلکہ اس کے بڑھنے کی رفتار کم ہوئی ہے۔بہرحال، گزشتہ سالوں میں مُلک جن حالات سے گزرا، اُس پس منظر میں اِسے بہتری ہی کہا جائے گا۔ افراطِ زر کے صفر ہونے سے معیشت کو بہت سہارا ملا، جب کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ بھی ختم ہوگیا۔ وزیرِ اعظم نے یہ’’خوش خبری‘‘ بھی سُنائی کہ اب دوست ممالک میں جاتے ہیں، تو وہ اُن سے نہیں گھبراتے کہ یہ پھر قرض مانگنے آگئے۔
تاہم، یہ بات ماہرین اور عام لوگوں کو ضرور کھٹکی کہ وزیرِ خزانہ جس شعبے کا ٹیکس بڑھاتے ہیں، وہ منہگی ہوجاتی ہے، جسے وہ آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ ہم ایک ذمّے دار قوم کی طرح آئی ایم ایف معاہدے کی پاس داری کریں، لیکن یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ ہم مالیاتی معاملات میں اِس قدر جکڑ چُکے ہیں کہ آئی ایم ایف کے حکم کے بغیر ہِل بھی نہیں سکتے۔
پھر مشکل فیصلوں کے نام پر عوام کو پیس دینا بھی کوئی اچھی روایت نہیں۔ یہ تاثر اِس دعوے کی نفی کرتا ہے کہ معیشت استحکام کی طرف جا رہی ہے۔ قوم، وزیرِ خزانہ کی کام یابیوں سے خوش ہے، تاہم یہ خوشی عام آدمی کی زندگی سے بھی جَھلکنی چاہیے۔
گزشتہ برس ترقّی کی شرح3.2 فی صد مقرّر کی گئی تھی، جو حاصل نہ کی جاسکی اور2.7 پر قناعت کرنا پڑا۔ اللہ کرے، اگلے مالی سال میں یہ ہدف حاصل ہوجائے، جو بڑھا کر4.2 کر دیا گیا ہے،جب کہ بجٹ کا نصف تو قرضوں کی ادائی میں چلا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب ترقّی نہیں ہوگی، تو ملازمتیں کہاں سے آئیں گی۔
سارا سال جن شعبوں پر زیادہ توجّہ دینے کا ذکر ہوتا ہے، اُنہیں کسی صُورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ سماجی شعبوں، تعلیم اور صحت پر توجّہ کی بہت ضرورت ہے، لیکن ان کے لیے مختص رقوم بہت کم ہیں۔ مالیاتی معاملات کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ گورنینس کا ہے۔ قرضے تو کسی نہ کسی طرح مل ہی جاتے ہیں، منصوبے بھی بن جاتے ہیں، لیکن ناقص گورنینس کے باعث یا تو برسوں مکمل نہیں ہوتے اور اُن کی لاگت بڑھتی رہتی ہے یا پھر مکمل ہوتے ہی ٹوٹ پُھوٹ شروع ہوجاتی ہے۔
کراچی اس کی ایک بڑی مثال ہے کہ میٹرو پولیٹن سٹی کے حالات نہایت تکلیف دہ ہیں۔ پورے مُلک کو روزگار دینے والا شہر خود بُری طرح مجروح ہے۔ کنکریٹ کا ایک جنگل ہے، جس میں لوگ رینگ رہے ہیں۔ ڈھائی کروڑ آبادی میں سے شاید پانچ لاکھ بھی اِن حالات سے خوش نہیں۔ اِن معاملات پر وزیرِ اعظم کو ذاتی طور پر توجّہ دینی چاہیے۔
وزیرِ اعظم کے غیر مُلکی دورے اور دوستوں سے تعلقات میں استحکام دیکھ کر یقیناً قوم خوش ہوتی ہے، مگر محض تقاریر اور بیانات سے ترقّی ہوتی ہے اور نہ ہی پیٹ بَھرتا ہے۔ روزگار کے مواقع کا تو ذکر ہی ختم ہوگیا، رائٹ سائزنگ اور ڈائون سائزنگ کے نام پر ہزاروں افراد بے روزگار کر دیئے گئے، جب کہ کچھ سرکاری محکموں کا یہ حال ہے کہ تین، تین ماہ سے تن خواہیں اور پینشن نہیں ملی۔
وقت آگیا ہے کہ حکومت ترقّی کا واضح نقشہ اور ٹھوس حکمتِ عملی قوم کے سامنے پیش کرے۔بجٹ چاہے کتنا ہی تعریف کے قابل کیوں نہ ہو، لیکن اصل بنیاد وہ ویژن اور سمت ہے، جو حُکم رانوں کو قوم کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔ ہم ایک تکلیف دہ حقیقت کی طرف اشارہ کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آبادی کا چوالیس فی صد حصّہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور یہ کسی مخالف کے نہیں، بلکہ عالمی بینک کے اعداد وشمار ہیں، جو ہمیں دس ارب قرضہ دے رہا ہے۔
اِن حالات میں جب عوام تک یہ خبریں پہنچتی ہیں کہ منتخب نمائندوں کی تن خواہوں میں غیر معمولی اضافہ کردیا گیا، تو وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا پاکستان واقعی غریب مُلک ہے اور یہ جو اربوں روپے کے ٹیکس ہم پر عاید کیے جاتے ہیں، اُن سے یہ بالادست حلقے کیسے چُھوٹ جاتے ہیں، جب کہ یہ ہمیں ہر وقت سادگی کا درس دیتے نہیں تھکتے۔
اگر مشکل حالات ہیں، تو پھر ان لوگوں کے لیے کروڑوں کی تن خواہیں اور مراعات کیوں؟ کیا ذرا بہتر حالات کا انتظار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ آخر عوام کو اُمید کی وہ کرن کب نظر آئے گی، جس سے اُن کی زندگیاں بھی جِلا پائیں گی۔ ابھی تک تو ہر سال کو’’آزمائش کا سال‘‘ قرار دینے کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان کو ایک نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، جس پر تمام اسٹیک ہولڈرز کا طویل المیعاد اتفاق ہو کہ روز، روز پالیسی بدلنا امریکا جیسے ممالک تو برداشت کرسکتے ہیں، لیکن پاکستان جیسے کم زور معیشت کے حامل ممالک کے لیے ایسا کرنا کسی صُورت مناسب نہیں۔ ہم اُن خوش قسمت ممالک میں شامل ہیں، جن کے پڑوس میں ترقّی کے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔
گو کہ بھارت کے ساتھ ہمارے معاملات کسی سے ڈھکے چُھپے نہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ جاپان سے آگے نکل کر عالمی معاشی رینکنگ میں چوتھے نمبر پر آگیا ہے۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہماری اکانومی چار سو ملین ارب ڈالرز کی ہے، جب کہ بھارت میں اس کا حجم چار ٹرلین ڈالرز سے بھی زیادہ ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ جنگ میں پاکستان نے زبردست مہارت کا مظاہرہ کیا۔ فوج اور عوام نے بے مثال یک جہتی کا ثبوت دیا۔ہمیں اِس کام یابی سے ایک نیا اعتماد حاصل ہوا۔
اعتماد، احساسِ کم تری کو ختم کردیتا ہے اور ہم اِس پوزیشن پر آگئے کہ اب پورے اعتماد کے ساتھ دوستوں اور دشمنوں سے بات کرسکیں۔ سو، اب یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ دراصل، ہمارا مقابلہ بھارت یا کسی اور سے نہیں، اپنے آپ سے ہے کہ ہم خُود کو اقوامِ عالم کی صف میں کہاں دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہمارا دوسرا پڑوسی چین ہے، جو قریبی دوست ہے اور بھروسے کا ساتھی بھی۔اس کی اکانومی17 ٹریلین ڈالرز سے بھی زیادہ ہے۔ کیا ہمیں کبھی یہ خیال آتا ہے کہ چینی اشیاء درآمد کرنے اور اُنہیں استعمال کرنے کے علاوہ بھی ہم نے اپنے اِس آہنی دوست سے کچھ سیکھا ہے؟ چین ہمارا سچّا دوست ہے، تو اُس کی یہی خواہش ہوگی کہ ہم بھی اُسی کی طرح ترقّی کریں۔
اگر ہم ایسا نہیں کرتے، تو وہ بھی سوچ میں پڑ جائیں گے کہ کیا یہ کیسا مُلک ہے، جہاں ہم نے سی پیک منصوبہ اور گوادر جیسی پورٹ بنائی۔ چین کی بھارت سے تلخی ہے، جب کہ اُس نے حالیہ جنگ میں بھارت کے مقابلے میں ہمارا بھرپور ساتھ دیا، تاہم اِس کے باوجود اُس کی بھارت سے ایک سو بلین ڈالرز کی باہمی تجارت میں ذرا سی بھی کمی نہیں آئی۔
دوسرے الفاظ میں، اُس نے اپنے عوام کی ترقّی و خوش حالی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ یہی طریقہ اُس نے ہانگ کانگ اور تائیوان وغیرہ میں اختیار کیا۔ جاپان، جنوب مشرقی ایشیا میں امریکا کا سب سے قریبی دوست، جب کہ چین کا سب سے بڑا مقابل ہے، لیکن اس کے باوجود دونوں کی باہمی تجارت خطّے میں سب سے زیادہ ہے۔
وزیرِ اعظم، شہباز شریف بار بار بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کرچُکے ہیں۔بلاول بھٹّو بھی، جنہوں نے امریکا اور یورپ میں پاکستانی سفارتی وفد کی سربراہی کی، یہی کہتے رہے کہ مسائل، مذاکرات ہی سے حل ہوں گے، بلکہ اُنہوں نے یہاں تک کہا کہ صدر ٹرمپ نے جنگ رکوانے میں اہم کردار ادا کیا، اب بھارت پر مذاکرات کے لیے بھی دباؤ ڈالیں۔ پاک، بھارت مذاکرات اور معاہدوں کی داستان اونچ نیچ سے بَھری پڑی ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت جوش کی بجائے، ہوش اور ہتھیاروں کی جگہ سفارت سے کام لینے کی اہلیت رکھتی ہے۔
ہم نے ایک معتبر سروے دیکھا، جس میں پچاس فی صد سے زاید پاکستانیوں نے بھارت سے تجارت کی حمایت کی، جب کہ تاجروں کی اہم تنظیمیں بھی اس کے حق میں ہیں۔ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ یہ بھاری پتھر اُٹھائے کون؟ جذبات اور نفرت کا طوفان مثبت سوچ میں کیسے تبدیل کیا جائے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اِس ضمن میں سیز فائر کروا کے ایک بڑا کام کیا، اب دونوں ممالک کو اُن سے فائدہ اُٹھانے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
ٹرمپ اس سیز فائر کو اپنے لیے ایک بڑا اعزاز سمجھتے ہیں اور اس کا بار ہا ذکر بھی کرچُکے ہیں، تاہم اصل بات یہ ہے کہ اُن کی تجارت کی پیش کش سے کس طرح فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ بالخصوص پاکستان کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ وہ امریکا اور بھارت کے ساتھ کس طرح تجارتی روابط بڑھا سکتا ہے، مگر ابھی تک تو بظاہر اِس سمت میں کوئی سنجیدہ اقدامات نظر نہیں آ رہے۔
خطّے میں کون سے نئے گروپس بن رہے ہیں، کون کس کا ساتھ دے رہا ہے، مشرقِ وسطیٰ میں کیا ہو رہا ہے، ہمیں اِن معاملات پر زیادہ توجّہ دینے کی ضرورت نہیں کہ اِس وقت ہمارا بڑا مسئلہ پاکستانی عوام ہیں، جن میں سے دس کروڑ بدترین غربت کا سامنا کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لیے تارکینِ وطن، یوکرین جنگ اور ایران کے ساتھ اُلجھے ہوئے ہیں، تو کہیں ہماری سُستی اُن کا جوش ٹھنڈا نہ کردے۔ٹرمپ کا سعودی عرب سے شام تک جو استقبال ہوا، اُس سے ہمیں حالات میں ہونے والی تبدیلیوں کا ادراک ہوجانا چاہیے۔
ہم جنگ کی فتح کا جشن منا چُکے، بجٹ بھی آگیا، اب حکومت کو اُس حکمتِ عملی کی طرف آجانا چاہیے، جو پاکستان کی ترقّی کی شہ رگ بنے گی۔ یک جہتی ہمیں جنگ میں بھی چاہیے تھی اور ترقّی کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔ہمیں افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک سے کیا ملے گا کہ ہم بار بار اُس طرف جا رہے ہیں۔
پھر یہ کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جو نویدیں آئیں، جن کا ذکر وزیرِ اعظم بڑے جوش سے کرتے رہے، بجٹ میں اُن کا عکس بھی نظر آنا چاہیے تھا۔ وزیرِ خزانہ تو صرف اوورسیز پاکستانیوں ہی کی جانب سے بھجوائے گئے ڈالرز کا ذکر کرتے رہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ ہماری معیشت مشکل میں ہے اور مشکل فیصلے ناگزیر ہیں، لیکن مشکل فیصلے صرف یہی ہیں کہ مزید ٹیکس لگا دیئے جائیں اور کیا اس میں سفارت کاری کی کوئی اہمیت نہیں؟ ہمیں بند گلی میں نہیں جانا چاہیے۔ اردوان جب پہلی باروزیرِ اعظم بنے، تو اُنہوں نے’’ ہر مُلک سے دوستی، دشمنی کسی سے بھی نہیں‘‘ کی مؤثر پالیسی اپنا کر اپنے مُلک کو تیز رفتار ترقّی سے ہم کنار کیا۔کیا اُن کے خارجہ مسائل نہ تھے؟ اُنہوں نے کئی دہائیوں سے جاری کُردوں کا معاملہ، اُنہیں اپنا ساتھی بنا کر حل کرلیا۔
اِس طرح کے اقدامات کے لیے اردوان جیسا عملی لیڈر چاہیے کہ محض تقاریر سے کچھ نہ ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں بھی مستقل دشمنی نہ رکھنے کی پالیسی پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ اِس معاملے میں امریکا، چین، روس اور عرب ممالک بھی ہمارا ساتھ دیں گے۔ جب چین ہمارے افغانستان کے ساتھ سہہ فریقی مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کروا رہا ہے، تو بھارت سے تنازعات بھی حل کروا سکتا ہے۔
چین ہمارے لیے اچھے رہنما اصول، تعاون اور ثالثی فراہم کرسکتا ہے کہ اُس کی لیڈر شپ تو ہمیشہ بھارت سے بہتر تعلقات پر زور دیتی رہی ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہم نے حالیہ جنگ کے بعد یورپ کی طرف بہت کم توجّہ دی، حالاں کہ برطانیہ کے وزیرِ خارجہ نے جنگ کے دوران خُود یہاں آکر اہم کردار ادا کیا۔ہم ابھی تک وہاں کے لیے پی آئی اے کی سروس بحال نہیں کر سکے۔ سال بَھر سے صرف خوش خبریاں ہی سُن رہے ہیں۔
اِسی طرح جنوب مشرقی ایشیا بھی ہماری توجّہ کا متقاضی ہے، جہاں سب سے بڑا مسلم مُلک انڈونیشیا اور ترقّی یافتہ ملائیشیا موجود ہیں۔ پھر ہانگ کانگ، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا اور جاپان بھی اُس خطّے کے اہم کھلاڑی ہیں۔نواز شریف کہتے رہے ہیں کہ’’پاکستان کو ایشین ٹائیگر بناؤں گا‘‘ تو یقیناً مسلم لیگ نون اُن کا وعدہ نہیں بھولی ہوگی۔