• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1960 ءکی دہائی یاد آرہی ہے قاہرہ، طرابلس، دمشق کی شاہراہوں پر عرب نوجوان بڑی بڑی ریلیوں میں نعرے بلند کر رہے ہیں۔ ’’ناصر یاسر یا حبیب۔ فتح فتح تل ابیب‘‘ آج چھ دہائیوں بعد تل ابیب سرنگوں ہو رہا ہے۔ وہ جو خود کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے۔ آج ان کا غرور خاک میں مل رہا ہے۔ دو اڑھائی سال سے 56اسلامی ملکوں کے ہوتے ہوئے اسرائیل غزہ پر جس طرح آگ برسا کر 60ہزار سے زیادہ شہری ہلاک کر چکا ہے۔ آج انسانی حقوق اور سویلین ہلاکتوں پر شور مچانے والے خاموش رہے ہیں جیسے غزہ اور رفع میں مرنے والے انسان نہیں تھے۔56اسلامی ملکوں میں ایٹمی طاقت پاکستان بھی شامل ہے انتہائی دولت مند سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت قطر، مصر وغیرہ بھی۔ کوئی بھی نیتن یاہو کے ہاتھ نہیں روک سکا۔ صرف ایران تھا جہاں سے مذمت اور مزاحمت کی صدا بلند ہوتی رہی۔ ایران پر بین الاقوامی پابندیاں 1979 سے چلی آ رہی ہیں جنوری 1981ءمیں امریکی یرغمالیوں کی رہائی کے بعد ہٹائی گئی پابندیاں پھر 1987ءمیں عائد کردی گئیں۔1995ءمیں ان میں توسیع کی گئی۔ پھر تیسری بار 2006ءمیں یہ کہہ کر پابندیاں سخت کی گئیں کہ ایران یورینیم کی افزودگی بند کرے۔ ان پابندیوں کے باوجود ایران کی قیادت اور عوام نے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ سب سے بڑی طاقت یا امام خمینی کے الفاظ میں ’’شیطان بزرگ امریکہ کی مخالفت کر کے بھی زندگی وقار کے ساتھ گزاری جا سکتی ہے۔‘‘ ہمیں بھی اس دوران تہران جانے کا اتفاق ہوا ہم نے اس قوم کو انتہائی اعتماد سے آگے بڑھتے دیکھا کسی قرضے کے بغیر معیشت کو مستحکم ہوتے دیکھا اور جب ایران غزہ پر آہن و آتش کی بارش کی مذمت کر رہا تھا تو یہ جملہ کسی تجزیہ کار نے کہا اور بہت سراہا بھی گیا کہ 56بہنوں کا تنہا بھائی۔ اب جب جون 2025ءکے تپتے دنوں میں ایران نے اسرائیلی جارحیت کا کھل کر جواب دیا ہے میزائلوں سے تل ابیب، حائفہ میں اہم عمارتیں زمیں بوس ہو رہی ہیں۔ او آئی سی حرکت میں نہیں آئی ہے۔ مسلم وزرائے خارجہ مسلم وزرائے دفاع کا کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ سربراہی اجلاس کی بات نہیں ہو رہی ہے۔ عالم کفر اسرائیل کی حمایت میں متحد ہے مگر پریشان بھی ہے۔ یہی تو وقت ہے کہ عالم اسلام کو کوئی اجتماعی فیصلہ کرنا چاہئے۔ اسرائیل اتنا کمزور کبھی نہیں پڑا تھا....پ اکستان میں 1985ءبلکہ 1977ءسے ہی تدبر بصیرت حکمت حرف و دانش معاشرے سے بے دخل کیے جا رہے ہیں ریاست بظاہر کمرشل ہو رہی ہے لیکن دیکھا جائے تو کمزور ہو رہی ہے جس معیشت کے نام پر تہذیب تمدن اقدار اور روایات کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ وہ کسی طرح بھی مستحکم نہیں ہو رہی ہے۔ 1985ءمیں ڈالر 15روپے کا تھا اب 300روپے کے قریب ہے اس سے ہی معیشت کی پستی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان دو لخت ہونے کے بعد جب ایک متفقہ آئین منظور کروایا تو اس میں ایسے اداروں کی بنیاد بھی رکھی تھی جو تخلیق، تالیف، تصنیف اور تہذیب کے فروغ کیلئے قائم کیے گئے قائد اعظم کی ہدایات اور اقبال کے افکار کی تشریح کیلئے اکادمیاں قائم کی گئیںاب جب پاکستان پر واشنگٹن کے پین سلوانیا ایونیو 19 سٹریٹ میں قائم انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ کی یلغار جاری ہے اور پاکستان کو 78سال بعد جینے کے آداب سکھائے جا رہے ہیں۔ اس وقت اسی دباؤ میں ریاست پاکستان نے 31اکتوبر 2025کی حتمی تاریخ مقرر کی ہے کہ میراث اور تمدن کی وزارت کی بقا اور اس کے تحت اداروں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے اور ان غیر منفعت بخش وحدتوں کو لپیٹا جائے۔ اس قتلِ عمد کا نام ight sizing rرکھا جا رہا ہے۔ rightists کا دور ہے رائٹس یعنی حقوق محدود کیے جا رہے ہیں۔ کھل کر جینے کا حق صرف چند سو خاندانوں کو دیا جا رہا ہے۔ اردو کے ماہر لسانیات نقاد جناب روف پاریکھ نے آواز بلند کی ہے اور ہم سب کی توجہ دلائی ہے۔ وزارتِ میراث و تمدن کا چار ورقی پی ڈی ایف بھی ارسال کیا ہے۔ جسے دیکھ کرایسا لگ رہا ہے کہ کسی کو کچھ لاوارث لاشیں ملی ہیں انہیں 31اکتوبر 2025ءتک ٹھکانے لگانا ہے پہلے ان سے متعلقہ تھانے کی حدود کا تعین ہو جائے پھر دیکھا جائےگا کہ ان کی تجہیز و تکفین پر کتنا خرچ آئے گا۔ رائٹ سائزنگ ہی اصل نکتہ ہے کہ یہ ادارے منفعت بخش ہیں یا نہیں۔ منفعت صرف رقم کے تناظر میں تہذیب اور تمدن کے سیاق وسباق میں نہیں۔ اب دور صرف رقم بڑھانے کا ہے۔ آثار قدیمہ اور عجائب گھروں کے محکمے کیلئے کسی تیسرے فریق کو سامنے لانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ فروغ قومی زبان کیلئے کسی وفاقی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی تحویل میں دینے کی تجویز ہے۔ حالانکہ یہ ادارہ اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ جب اردو کو قومی سرکاری زبان کا درجہ ملنا ہے تو اردو ہر لحاظ سے ایک ایسی مکمل زبان ہو جس میں ساری جدید معاشی قانونی تکنیکی اصطلاحات کا اردو متبادل طے کر لیا گیا ہو۔ ایک قاتلانہ جملہ بہت ہی آسانی سے کہہ دیا گیا ہے Wind up if no interest پھر اردو سائنس بورڈ، اردو لغت بورڈ، ایوان اقبال کمپلیکس: لوک ورثہ، قائد اعظم اکیڈمی،اقبال اکیڈمی، نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ ارٹس، 'پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس، پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز، قائد اعظم مزار مینجمنٹ بورڈ اور خود اس وزارت میراث و تمدن کی قسمت کا فیصلہ بھی 31اکتوبر تک کرنا ہے۔ حاصل کلام یہ کہ پاکستان کو میراث کی ضرورت ہے نہ تمدن کی صرف سرمایہ اور شمشیر درکار ہیں قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان حاصل کیا گیا اسلئے انکی اکیڈمی اب بیکار ہے، اسی طرح اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا خواب کو حقیقت میں بدل نہیں سکے اس لیے یہ اکیڈمی بھی بند کر دی جائے کالجوں سے فلسفے کی اسامیاں ویسے ہی ختم کی جا رہی ہیں۔ جن اداروں سے کچھ روکڑے کی آمدنی ہو صرف انہیں برقرار رکھا جائے اور وہاں کلیدی عہدوں پر اپنے منظور نظر افراد کو سربراہی دی جائے۔ دانش، شاعری، ادب تصوف، تاریخ، آثار قدیمہ کی بساط لپیٹ دی جائے آپ اگر اب بھی خاموش ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ بھی اپنی میراث اور تمدن کے حق میں نہیں ہیں۔

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

تازہ ترین