• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں سیاحت کو معاشی ترقی کی ایک مضبوط بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔ قدرتی مناظر، تاریخی ورثہ، ثقافتی تنوع اور روایتی مہمان نوازی وہ عناصر ہیں جو دنیا بھر کے سیاحوں کو کسی ملک کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ہماری سرزمین پاکستان اللّٰہ تعالیٰ کی عطا کردہ اِن تمام نعمتوں سے مالامال ہے۔ یہاں برف پوش پہاڑوں سے لے کر صحرا کی وسعتیں، نیلگوں جھیلوں سے لے کر سرسبز و شاداب وادیاں، صوفی بزرگوں کے مزاروں سے لے کر بدھ مت کے قدیم آثار، سب موجود ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اربوں ڈالر کی یہ ممکنہ سیاحت کی صنعت آج بھی ہماری ترجیح کیوں نہیں ہے؟ہماری سیاحت کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔ پاکستان میں بیشتر سیاحتی مقامات تک رسائی مشکل، سہولیات ناکافی اور معلومات کا فقدان ہے۔سڑکوں کی مخدوش حالت یا انکا بالکل ہی غیر موجود ہونا، غیر معیاری ہوٹل، گائیڈ سروسز غیر تربیت یافتہ، اور طبی سہولیات کا فقدان، ایسے عوامل ہیں جو مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کے تجربے کو منفی بنا دیتے ہیں۔

دوسرا بڑا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر ملک کا منفی تاثر ہے۔ حالیہ برسوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، لیکن ہمیں اس مثبت تبدیلی کو دنیا کے سامنے مؤثر انداز میں پیش کرنے کیلئے مربوط حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔ذرائع ابلاغ کو اس معاملے میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ سیاحت کے فروغ کیلئے سب سے پہلے سڑکوں اور رسائی کے ذرائع میں بہتری کی اشد ضرورت ہے۔ شمالی علاقہ جات جیسے ہنزہ، سوات، گلگت، اسکردو، چترال اور آزاد کشمیر کے سیاحتی مقامات تک رسائی بہتر بنانے کیلئے پائیدار سڑکیں، سرنگیں، اور بائی پاسز کی تعمیر ضروری ہے۔ اگر سیاح آسانی سے منزل تک پہنچ سکیں تو ان کا تجربہ خوشگوار ہو گا اور وہ دوبارہ آنے کے خواہش مند بھی ہوں گے۔دوسری بڑی ضرورت معیاری رہائش کی سہولیات ہیں۔ ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز کا معیار بین الاقوامی سطح کے مطابق بنایا جائے۔ نجی شعبے کو سہولیات دے کر ہوٹلنگ انڈسٹری میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ سیاحوں کو مناسب نرخوں پر معیاری رہائش میسر آ سکے۔اس کے ساتھ ساتھ معلوماتی نظام کا قیام بھی ناگزیر ہے۔


ہر سیاحتی مقام پر ٹورازم انفارمیشن سینٹرز، نقشے، بورڈز، ایپلیکیشنز اور ویب سائٹس کے ذریعے مکمل معلومات مہیا کی جائیں۔ مقامی گائیڈز کو تربیت دے کر انکے ذریعے سیاحوں کو علاقے کی تاریخ، ثقافت اور رسوم و رواج سے متعارف کروایا جائے۔ ہر بڑے سیاحتی مقام پر بنیادی صحت مرکز، ایمبولینس، ریسکیو ٹیم، اور ایمرجنسی ہیلپ لائن کا نظام یقینی بنایا جائے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے میں فوری مدد میسر ہو۔ سیاحت کے فروغ کے ساتھ ساتھ ماحول کا تحفظ بھی لازم ہے۔ ٹورازم پالیسی میں گرین سیاحت کو فروغ دینا چاہیے۔ غیر ضروری تعمیرات، کچرے کی صفائی، جنگلات کے تحفظ اور پلاسٹک کے استعمال میں کمی جیسے اقدامات کو یقینی بنایا جائے تاکہ فطری خوبصورتی قائم رہے۔

پاکستان میں مذہبی سیاحت کے بھی بے پناہ مواقع موجود ہیں، جنہیں بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو جی کا جنم استھان ننکانہ صاحب، اور ان کا آخری قیام کرتارپور جیسے مقدس مقامات ہمارے ملک میں موجود ہیں، جہاں ہر سال ہزاروں یاتری حاضری دیتے ہیں۔ اگر حکومت ان مقامات پر سہولیات کو مزید بہتر بنائے، سفری اجازت ناموں کا عمل آسان کرے اور یاتریوں کیلئے مخصوص رہائشی پیکیجز اور سروسز مہیا کرے تو سکھ مذہب کے کروڑوں پیروکاروںکیلئےپاکستان ایک مقدس زیارت گاہ بن سکتا ہے۔اسی طرح بدھ مت کے ماننے والوں کیلئے بھی پاکستان ایک روحانی وطن کی حیثیت رکھتا ہے۔ گندھارا تہذیب کے آثار، ٹیکسلا، سوات، شاہ جی کی ڈھیری اور تختِ بھائی جیسے مقامات بدھ مت کے تاریخی اور روحانی مراکز سمجھے جاتے ہیں۔ نیپال، سری لنکا، کوریا، چین، جاپان اور تھائی لینڈ جیسے ممالک سے بدھ سیاح ان مقامات کی زیارت کیلئے آنا چاہتے ہیں، لیکن انفراسٹرکچر، معلومات، اور عالمی تشہیر کی کمی اس راہ میں رکاوٹ ہے۔ اگر ان آثارِ قدیمہ کو محفوظ اور فعال مذہبی و تاریخی سیاحتی مقامات میں تبدیل کیا جائے، تو یہ پاکستان کی سیاحت میں انقلاب لا سکتے ہیں۔


شمالی علاقہ جات میں ہنزہ، نگر، اسکردو، شندور، گوجال اور گلیات میں سیاحت کا بے پناہ پوٹینشل ہے۔ یہاں جدید ریزورٹس، کیمپ سائٹس، کیبل کارز اور ایڈونچر ٹورازم جیسی سرگرمیوں کی گنجائش موجود ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جو دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں بشرطیکہ وہاں تک رسائی آسان ، بہتر ین کمیونیکیشن اور سہولیات معیاری ہوں۔اسی طرح موہنجو دڑو، مکلی کا قبرستان، بھنبھور، اور ہڑپہ جیسے مقامات عالمی سیاحوں کیلئے دلچسپی کا سامان رکھتے ہیں۔ ان مقامات کی تزئین و آرائش، سیکورٹی، اور گائیڈڈ ٹورز کے ذریعے ان کو مؤثر انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔صوفی سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جس پر کم توجہ دی گئی ہے حالانکہ داتا دربار، بھٹائی سرکار، لال شہباز قلندر، رحمان بابا جیسے روحانی مقامات غیر ملکی زائرین کیلئے بہت پرکشش ہو سکتے ہیں۔ گوادر، کنڈ ملیر، اور کراچی کے ساحلی مقامات کو ترقی دے کر بیچ ٹورازم کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ چولستان اور تھر کے صحرا میں جیپ ریلی، کلچرل فیسٹیول اور صحرائی ریزورٹس سیاحوںکیلئے دلچسپ تجربہ بن سکتے ہیں۔ان تمام اقدامات کی کامیابی کیلئے حکومت اور نجی شعبے کا متحرک کردار ناگزیر ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پالیسی سازی، سیکورٹی، کمیونیکیشن اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کو یقینی بنائے، جبکہ نجی شعبہ ہوٹلنگ، ریسٹورنٹس، گائیڈ سروسز اور تفریحی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کرے۔ دونوں شعبوں کے درمیان شراکت داری کے تحت منصوبے ترتیب دیے جائیں تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور مقامی معیشت مضبوط ہو۔پاکستان اگر سیاحت کے شعبے پر سنجیدگی سے توجہ دے، تو نہ صرف اربوں ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہو سکتا ہے بلکہ ملک کا مثبت تشخص بھی عالمی سطح پر اجاگر کیا جا سکتا ہے۔

( صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین