• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسان بھی عجیب مخلوق ہے ایک طرف ایک انسانی زندگی بچانے کے لئے وہ طرح طرح کے جتن کرتا ہے دعائوں ، جادو ٹونے اور خیر خیرات سے لیکر نت نئے طبی تجربات اور ادویات پر لاکھوں کروڑوں خرچ کر دیتا ہے۔ زندگی کو خوبصورت بنانے اور موت کو شکست دینے کے لئے نت نئے طریقے سوچتا رہتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایسے ایسے خوفناک ہتھیار بنانے سے بھی باز نہیں آتا جو آنِ واحد میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار اور ہنستی بستی بستیوں کو اجاڑ سکتے ہیں۔ ایک طرف اس کی انسانیت اور رحمدلی ملک و مذہب کی تقسیم سے بے نیاز ہر جانبدار کے لئے اپنی بانہیں پھیلائے رہتی ہے اور دوسری طرف ملک رنگ و نسل، مذہب، فرقے اور بہت سی دیگر چھوٹی چھوٹی تقسیموں کی وجہ سے وہ درندوں سے زیادہ خوفناک ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدیوں کی تمدّنی اور علمی ترقی نے زمانۂ جاہلیت کی بہت سی رسموں، نظریوں اور تصّورات کو یکسرتبدیل کردیا ہے اب ہمیں عورتوں کو زندہ دفن کردینے یا کھوپڑیوں کے مینار بنا دینے والے وحشیانہ مظاہرتو نہیں ملتے لیکن ابھی بھی اسلحہ ، فوج اور جنگیں وہ نشانیاں ہیں جو نہ صرف مہذّب دنیا کے لئے باعث ِ شرم ہیں بلکہ آج کل کے ایٹمی اور دیگر مہلک ہتھیار بنی نوعِ انسان کے وجود پر لٹکتی ہوئی تلوار بھی ہیں۔ جس کا مظاہرہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرنے والے ایٹم بموں کے ذریعے ہو چکا ہے۔ جہاں پل بھر میں لاکھوں انسان ہلاک ہوگئے اور بچنے والوں کی آئندہ نسلیں بھی طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوگئیں۔ دونوں شہر نہ صرف کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے بلکہ ان کی زمین بھی آئندہ کئی عشروں تک بنجر اور بانجھ ہوگئی۔ یہ تباہی ان ایٹم بموں کی ہے جو آج کل کے ایٹمی ہتھیاروں کے مقابلے میں بالکل کھلونے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ آج کل کے ایٹمی ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی کا تصّور کرنا بھی محال ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں حصّہ لینے والے واحد زندہ فوجی ہیری پیچ Harry Patchکا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ جنگ ایک منظّم قتل و غارت گری کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔
آج سے کچھ سال پہلے غربت، جہالت اور بیماریوں میں جکڑے ہوئے برصغیر کے دو ممالک ہندوستان اور پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کرکے وہ ’’کارنامے‘‘ سرانجام دیئے جن کی بڑی دھوم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تین سرکردہ شخصیات ذوالفقار علی بھٹو ، نواز شریف اور ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ’’نشانِ عبرت‘‘ بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی بلکہ ایک کو تو اپنے علاوہ اپنے پورے خاندان کی جانوں کی قربانی بھی دینی پڑی ۔
قطع نظر اس سے کہ ایٹمی ہتھیار انسانوں کی اجتماعی ہلاکت کا نشان ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہتھیار حقیقی معنوں میں کسی ملک کی سلامتی کے ضامن بن سکتے ہیں؟ جیسا کہ پاک و ہند کے سیاستدان اور انتہا پسند دعویٰ کرتے ہیں ۔ تاریخ اس دعوے کو غلط ثابت کرتی ہے ۔ اگر ایٹمی ہتھیار کسی ملک کی بقا کے ضامن ہوتے تو دنیا کی ایک سپر طاقت سوویت یونین کبھی ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوتی۔ جو ایک وقت میں 33%جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بھی تھا جو ایک ریکارڈ ہے لیکن جب مختلف وجوہ کی بنا پر ترقی کی یہ شرح کم ہوتے ہوتے 2%فیصد تک آگئی اور عوام کا معیارِ زندگی گرنا شروع ہوگیا تو سوویت یونین اپنے تمام ترایٹمی ہتھیاروں کے باوجود ریت کی دیوار ثابت ہوا اور اس کے ایٹمی ہتھیار اس کے کسی کام نہ آسکے لہٰذا کسی قوم کا استحکام ہتھیاروں سے زیادہ اس کی مضبوط معیشت اور عوام کی امورِ حکومت میں زیادہ سے زیادہ شرکت کے ساتھ منسلک ہے برصغیر کے ڈیڑھ ارب عوام میں سے غالب اکثریت عسرت کی زندگی گزار رہی ہیں۔ روٹی،کپڑا ، مکان، گیس، پانی، بجلی اور علاج سے محروم یہ لوگ جب اپنے اپنے ملکوں میں نت نئے میزائلوں کے کامیاب تجربوں کی خبریں سنتے ہیں جن پر ان کی حکومتوں نے اربوں روپے صرف کئے ہوتے ہیں تو انہیں کوئی خوشی حاصل نہیں ہوتی۔ انسانوں کی سب سے بڑی دشمن غربت اور جہالت ہے اور یہ ہلاکت خیز ہتھیار ان اپنے ہی عوام کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہتھیاروں کی دوڑ نے ایک اور خوفناک کام یہ کیا ہے کہ ہمارے معاشروں میں تشدّد اور جرائم کا کلچر پیدا کردیا ہے۔ کاش اس خطے کے سیاستدان ، دانشور جنگ اور ہتھیاروں کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کریں تاکہ ہتھیاروں کی دوڑ پر خرچ ہونے والا خطیر سرمایہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکے۔ امن کے حوالے سے اپنی ایک نظم پیش کررہا ہوں
اے جنگ باز انسانو
نفرتوں کو آتش میں
جلنے والے دیوانو!
توپیں بہری گونگی ہیں
گولیوں کے سینے میں
ماں کا دل نہیں ہوتا
بم، میزائل اندھے ہیں
کس کا سینہ زد پہ ہے
خنجروں کی نوکوں پر
کچھ لکھا نہیں ہوتا
اس ہوس کی جنگ میں
زندگی تو روتی ہے
موت اس میں ’’ فاتح‘‘ ہے
ہار سب کو ہوتی ہے
تازہ ترین