’’کبھی صحرا کو سر سبز و شاداب، زرخیز اور پھولوں سے ڈھکا ہوا دیکھا ہے؟‘‘ بات سے پہلے کافی کی مہک مخاطب تک پہنچی، تو اُس نے نظریں اُٹھا کر سامنے دیکھا۔ ’’ہاں بھئی، دیکھا ہے۔‘‘ ’’کہاں؟‘‘ ’’خواب میں۔‘‘ قہقہہ بلند ہوا، تو کافی کا مگ ہاتھ میں پکڑے وہ بھی مُسکرا دیا۔ ’’کافی پِلاؤ پہلے مجھے بھی، پھر تمھاری بات کا جواب دیتا ہوں۔‘‘ کامل اور مرتضیٰ دونوں صحافی تھے۔ برسوں کا ساتھ تھا۔ پہلے ایک ہی اخبار میں اکٹھے کام کیا، پھر یکے بعد دیگرے یہ میڈیا ہاوس جوائن کر لیا۔ پچھلے چند سالوں سے وہ دونوں اس میڈیا ہاؤس کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
پرنٹ سے الیکٹرانک میڈیا میں آئے تو کام کا انداز بھی بدلا۔ معاشرتی مسائل اور سیاسی موضوعات پر ٹاک شوز کے لیے اب وہ بھی ریٹنگ اور مسالے کو مدِنظر رکھنے لگے تھے۔ اب وہ ایسی کہانی کی تلاش میں رہتے تھے، جو اُن کے پروگرام کو ریٹنگ کے اعلیٰ درجے پر پہنچا دے، جب کہ بہت سی جگہوں پر اُن کے ہاتھ بندھے ہوتے تھے۔ بہت کچھ چاہ کر بھی وہ کچھ مختلف نہ کرسکتے۔
تھوڑی دیر پہلے کامل ایک مختلف پروگرام کا آئیڈیا لے کر ایم۔ ڈی کے پاس گیا تھا، جس میں وہ پاکستان کے اُن لوگوں کی کہانی بیان کرنا چاہتا تھا، جو وسائل نہ ہونے کے باوجود اپنے مُلک کی بہتری کے لیے کام کررہے تھے۔ مگر ’’یہ پروگرام دیکھے گا کون؟‘‘ کہہ کر اُس کا آئیڈیا مسترد کردیا گیا۔ ابھی وہ اِسی کھولن کا شکار تھا کہ مرتضیٰ نے نیا سوال پوچھ لیا۔
اُس کا انداز دیکھ کرمرتضیٰ نے ہاتھ میں پکڑا کافی کا مگ، جس میں سے ابھی ایک سِپ بھی نہیں لیا گیا تھا، اُس کی طرف بڑھا دیا۔ ’’لے یار! تجھے اِس کی زیادہ ضرورت ہے، مَیں بعد میں پی لوں گا۔‘‘ وہ اُس کے سامنے ہی بیٹھ گیا۔ ’’حسینہ سے ملنے چلے گا؟‘‘ کامل کافی کا آدھا مگ پی کر قدرے پُر سکون ہو چُکا تھا۔ سو، سہولت سے گویا ہوا۔ ’’حسینہ…یہ کون ہے؟‘‘
مرتضیٰ نے ابرو اُچکا کر اُسے دیکھا۔ ’’اگلے ہفتے جا رہا ہوں، مَیں اُس سے ملنے، تم بھی چلنا ساتھ، پھر خود مل لینا۔‘‘ کامل نے کافی کا خالی مگ میز پر رکھا۔ ’’یہ تُو کس حسینہ کے چکر میں پڑ گیا ہے، بھابھی کو معلوم ہے؟‘‘ مرتضیٰ کچھ اور ہی سمجھا۔ ’’ہاں! تمھاری بھابھی نے ہی کہا ہے کہ مَیں اُس سے ملوں۔‘‘ ’’کیا مطلب…؟ بھابھی نے خُود کہا ہے کہ تم حسینہ سے ملو۔‘‘ کامل نےمُسکرا کرکندھےاچکائے۔’’تُو کتنا خوش نصیب ہے یار…‘‘ مرتضیٰ نے مصنوعی آہ بھری۔ ’’بس کر اب، مداری بنا رہتا ہے ہر وقت۔ تیار رہنا پھر ہفتے کو نکلیں گے۔‘‘ ’’جانا کہاں ہے؟‘‘ ’’تھرپارکر۔‘‘
……٭٭……٭٭……
لمبی مسافت طے کر کے وہ دونوں تھرپارکر کے اُس گاؤں پہنچے، جو حسینہ کا مسکن تھا۔ ’’ہمیں حسینہ صاحبہ سے ملنا ہے۔‘‘ کامل نے ایک بزرگ سے راہ نمائی لینا چاہی۔ ’’حسینہ بیٹی سے۔ چلو، مَیں لے چلتا ہوں۔‘‘ بزرگ نے فوراً ہامی بھرتے ہوئے صحرائی لب و لہجے میں کہا۔ ’’اِدھر سب جانتے اُسے، ہم بڑا احترام، عقیدت اور محبّت رکھتے ہیں بٹیا سے، پر کچھ لوگوں کے لہجے اُس کے لیے آگ بھرے بھی ہیں۔‘‘ بزرگ چلتے چلتے اُن کے ساتھ باتیں کرتےجا رہے تھے۔’’بڑی گُنوں والی ہے، پوری دس جماعتیں پاس کی ہیں اُس نے۔ اب اپنے گاؤں کے بچّوں کو پڑھنا لکھنا سکھاتی ہے۔‘‘
یہ بات سُن کر مرتضیٰ کو حسینہ بی بی کی ساری کہانی سمجھ آ گئی کہ وہ کم وسائل میں اپنے گاؤں کے بچّوں کو پڑھا رہی تھی، تو اب چاہتی ہوگی کہ میڈیا پر آکر لائم لائٹ اور مدد مل جائے۔ مرتضیٰ نے کامل کی طرف دیکھا۔ اُس کے چہرے پربھی کم وبیش ایسے ہی تاثرات تھے۔ ’’یار! تُو کیا بھابھی کے کہنے پر اتنی دُور آگیا اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوا، کوئی مسالے دارکہانی ملتی، تو بات بھی تھی۔‘‘
مرتضیٰ کامل کے کان میں گھس کر بولا۔ ’’چلو، دیکھتے ہیں، اُس نے بس یہی کہا تھا کہ جا کر اُس سے ملنا ہے اور ہو سکے تو اُس کے لیے کچھ کرنا ہے۔‘‘ کامل نے اُس کاکندھا تھپکا۔ ’’آپ لوگ ادھر بیٹھو، وہ سامنے حسینہ بیٹی کی جھونپڑی ہے، مَیں بُلاکرلاتا ہوں۔‘‘ بزرگ نے ایک چھپّر کے سائے تلے بچھی چارپائی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’نہیں، نہیں، ہم بھی آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔‘‘ وہ دونوں اب مزید وقت ضائع کرنےکےحق میں نہیں تھے۔ ’’چلو، آجاؤ۔‘‘ بزرگ اُنھیں لیے سامنے جھونپڑی میں داخل ہوگئے۔ دونوں دھوپ سے اندر داخل ہوئے تھے۔
سو، نظروں کو کمرے میں موجود منظرکودیکھنےمیں چند لمحے لگے اور پھر دونوں کی نظریں تیس، چالیس چھوٹے بچّوں اور بچیوں سے ہوتی ہوئی سامنے ایک ٹاٹ پر بیٹھی اُستانی حسینہ پر پڑیں۔ وہ دونوں اُسے دیکھ کر بت ہی بن گئے۔ سامنے انیس بیس سال کی لڑکی بیٹھی بچّوں کو پڑھا رہی تھی۔ وہ بچّوں کو لکھنا سکھا رہی تھی اور اُس کا تختۂ تحریر جھونپڑی کی کچی زمین تھی۔ ایک ہاتھ میں قلم پکڑے وہ اپنے کام میں مگن تھی، کیوں کہ وہ ایک بازو سے محروم تھی۔ ’’حسینہ! یہ تم سے ملنے آئے ہیں۔‘‘ بزرگ نے اسے متوجّہ کیا تو اس نےدونوں کواستفہامیہ نظروں سے دیکھا۔
اُنھوں نے حسینہ کا انٹرویو کیا۔ اُس نے جس طرح میٹرک کیا، وہ ایک الگ کہانی تھی، مگر اب وہ جس طرح اپنے مِشن پر ڈٹی ہوئی تھی، یہ ایک الگ بلکہ قابلِ ستائش کہانی تھی۔ اُنھوں نے اُس کے اسکول کی تصویریں بنائیں اور واپسی کی راہ لی۔ ’’چینل پر نہ سہی، سوشل میڈیا کے ذریعے اس بچّی کے کام کو دوسروں تک پہنچایا جاسکتا ہے اور یہ کام مَیں ضرور کروں گا۔‘‘ مرتضیٰ دل میں پکا ارادہ کرچُکا تھا۔ ’’تم نے کچھ دن پہلے مجھ سے سوال کیا کہ کبھی صحرا کو سر سبز و شاداب، زرخیز اور پھولوں سے ڈھکا ہوادیکھا ہے؟ تو اُس کا جواب ہے، ہاں! حسینہ جیسے لوگ ہیں، اس صحرا کا سبزہ اور زرخیزی۔ صحرا کی تاریک رات میں جل اُٹھنے والا چراغ۔‘‘
مرتضیٰ حسینہ کی ہمّت و حوصلے کو داد دے رہا تھا۔ اور مَیں سوچ رہا ہوں کہ کیا معذور، یہ حسینہ ہے، جو یہاں تنِ تنہا ایک مشن کے تحت کام کررہی ہے۔ تمام رکاوٹوں اور کمیوں کے باوجود معاشرے کی بہتری میں اپنا حصّہ ڈال رہی ہے، اپنے حصّے کا دیا جلا رہی ہے یا ہم معذور ہم لوگ ہیں، جو پورا جسم اور بہت سے وسائل ہونے کے باوجود مُلک کی بہتری کے لیے کچھ بھی کرنے سے ’’معذور‘‘ ہیں۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ’’ڈائجسٹ‘‘
میچوریٹی کا عذاب (عروج احمد، لاہور) جوڑا یا راشن، گواہی ،قناعت و امانت، ماں سے گھر جنت، مزدوری، مستحکم خاندان(صبا احمد، کراچی) جوابی تھپڑ (ثروت اقبال) بے وفائی کے سائے (حسیب نایاب منگی) عیدِ سعید، گر کی بات، قربانی، کایاکلپ (ثمینہ نعمان) موت کی قید، سرکاری قتل، موت کی رفتار، پُھولوں کی داستان (محمّد شعیب شوبی) کفّارہ ،شرفوبیتی(مدثر اعجاز، لاہور) میری ڈائری سے، تبصرہ (مبشّرہ خالد) جدائی کا غم، بےرنگ میکہ (خالدہ علی) استاد کی عظمت ، ٹوٹا گھر، قربانی نہیں قربانیاں (ریطہ فرحت) جنّت کی راہیں (سیّد ذوالفقار حسین نقوی، کراچی)، بکرانامہ، جودل میں اُتر جائے (پرنس افضل شاہین، بہاول نگر)،ننھا مجرم(ذوالفقارعلی بخاری) ایثار کی پیکر (عرشمہ عُمر) ، توکل علی اللہ (عافیہ عرفان) بھارت سے نہیں جیت سکتے (سید محسن علی) ابابیل (عندلیب زہرا) وقت (شاہدہ علوی، گلشن اقبال، کراچی) میری کہانی (صائمہ فرید) بجلی (علیم الدین صدیقی) ایک خواب، ایک کہانی (فاطمہ شکیل) نمک حرام، قربانی اور ہم، چوری کا بکرا، منہگی قربانی (منیبہ مختار اعوان) یااُمیا، چشم تر،یقین سے آگے خیر (ایمن علی منصور، کراچی) چائے کی ایک پیالی (قراۃ العین فاروق، حیدرآباد) چارہ، خوشی (نورین خان، پشاور) حج قبول ہوگیا (مجاہد لغاری، گاؤں قاضی نور محمد لغاری، ضلع ٹنڈو الہیار) پاکستان ایک مقدس امانت، فیصلہ لمحے کا (اسما معظم، کراچی) خوشیوں کا آشیانہ (نصرت مبین) دستک (شہلا خضر) روح الروح (نگہت فرمان) روشنی کی کرن (افروز عنایت) کٹھن راہیں (طلعت نفیس) گُل نار (افسانہ نگار:پروفیسر زاہد، انتخاب:اقبال شاکر) نہ گھر ملا، نہ اماں (حریم شفیق، سواں گارڈن، اسلام آباد) باتیں شاہین آنٹی کی (نام و مقام نہیں لکھا)۔ نصیحت (شاہدہ ناصر، گلشن اقبال، کراچی) خزاں گزیدہ لمحوں کا نوحہ (مصباح عقیل، اسلام آباد) آپا رشیدہ (اسما عاقل) احساس (نیناں اکبر، صادق آباد) سوال (عائشہ ناصر، دہلی کالونی، کراچی) دینے والا گیا (غلام اللہ چوہان، گزدرآباد، کراچی)۔