• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عثمانی خلافت کے زیرِ نگیں، فرانسیسی حاکمیت کے زیرِ تسلّط رہا، تو 50 برس ’’ الاسد خاندان‘‘ کی سفّاکانہ آمریت بھی برداشت کی۔
عثمانی خلافت کے زیرِ نگیں، فرانسیسی حاکمیت کے زیرِ تسلّط رہا، تو 50 برس ’’ الاسد خاندان‘‘ کی سفّاکانہ آمریت بھی برداشت کی۔

امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیجی ریاستوں کا بڑے جاہ و جلال، کرّوفر کے ساتھ دَورہ کیا۔ ٹرمپ، متلوّن مزاج اور تضادات کا مجموعہ ہیں۔ اچانک ایسے اعلانات اور اقدامات کر دیتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ سعودی ولی عہد، محمّد بن سلمان کے اہتمام و ترغیب پر صدر ٹرمپ نے شام کے صدر احمد الشرع سے بھی ملاقات کی۔

ٹرمپ حکم اور ترغیب دینے کے ماہر ہیں۔ اُنہوں نے خلیجی تعاون کاؤنسل کے اجلاس سے قبل عراق میں امریکی افواج سے لڑنے والے سابق ’’جہادی‘‘ سے ملاقات کر کے دنیا کو حیران کر دیا، جسے امریکا نے دہشت گرد قرار دے کر، سَر کی دس ملین ڈالر قیمت مقرّر کر رکھی تھی۔ اُنہوں نے الشرع کے سَر کی اعلان شدہ قیمت ختم کی اور کہا کہ’’الشرع ایک پُرکشش نوجوان ہیں۔ اِس نوجوان کا ماضی بڑا سخت اور مضبوط تھا۔‘‘

شام، متوازن موسم اور خوش گوار آب و ہوا کی ایک قدیم سرزمین ہے، جس پر قبضے کے لیے تاریخ کے ہر دَور میں بڑی قوّتوں میں جنگیں ہوتی رہیں۔ ظہورِ اسلام کے وقت ایرانی اور بازنطینی رومی سلطنت کے درمیان جنگ جاری تھی، جس میں پہلے ایران غالب آیا اور پھر یہ مُلک رومیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ مسلمانوں نے رومیوں سے جنگ کر کے شام فتح کیا تھا۔

صحیح بخاری کی حدیثِ مبارکہؐ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ایک بار دُعا فرمائی تھی۔’’اے اللہ! ہمارے شام کو برکت عطا فرما۔ اے اللہ! ہمارے یمن کو برکت عطا فرما۔‘‘ واضح رہے، نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیّبہ میں شام ابھی فتح نہیں ہوا تھا۔ حضرت عُمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں شام مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔

اُموی اور عباسی خلافتیں زوال کا شکار ہو کر ختم ہوئیں، تو مملوک سلاطین نے شام اور مصر کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ عثمانی خلافت کی بنیاد سلطان سلیم اوّل نے رکھی تھی اور اِسی سلطان نے قسطنطنیہ فتح کر کے رومی سلطنت کو انجام تک پہنچایا تھا۔ 

سلطان سلیم اوّل بلقان کی ریاستیں فتح کرنے کے بعد جنوب کی طرف متوجّہ ہوئے اور 1516ء میں مملوک سلاطین سے شام چھین کر اپنے زیرِ نگین کر لیا۔تب سے لے کر جنگِ عظیم اوّل تک، یہ عثمانی سلطنت کا حصّہ رہا۔ جنگِ عظیم اوّل میں تُرکی کو شکست ہوئی تھی، تو برطانیہ اور فرانس جیسے بڑے اتحادی مُلک، تُرک خلافت کے مقبوضات آپس میں تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ 

خلافتِ عثمانیہ سے غدّاری کی قیمت کے طور پر عربوں سے بڑے وعدے کیے گئے تھے۔ اُردن کے موجودہ شاہ عبداللہ ثانی کے پَردادا، شریفِ مکّہ، حسین بن علی نے برطانیہ کے جال میں آکرغدّاری کی تھی۔ برطانیہ اور فرانس میں تمام امور پر مکمل اتفاق نہیں تھا۔ 

فرانس کو’’اعلانِ بالفور‘‘ پر بھی اعتراض تھا۔ شروع میں پورے مشرقِ وسطیٰ کو برطانیہ اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا تھا، جب کہ فرانس کی اصل دل چسپی شمالی افریقا کے ممالک تیونس، الجزائر اور مراکش وغیرہ میں تھی، لیکن برطانیہ کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ اِتنے وسیع خطّے پر کنٹرول نہیں رکھ سکے گا۔ 

کئی ماہ کی رسمی کانفرنسز اور بحث مباحثے کے بعد آخر اِن میں مشرقِ وسطیٰ کی تقسیم پراتفاق ہوگیا۔ یہ دونوں یورپی طاقتیں نہ اِس علاقے کے جغرافیے سے پوری طرح واقف تھیں اور نہ ہی اُنہیں یہاں کے نسلی، لسانی، ثقافتی اور اعتقادی تنوّع کا پوری طرح علم تھا۔

اٹلی کے ساحلی شہر، سام ریمو میں برطانیہ کے نمائندے، مارک سائکس(Mark Sykes) اور فرانس کے نمائندے، اسکائی پیکوٹ (Sykes Picot) کے درمیان ایک رسمی کانفرنس ہوئی، جس میں شرم ناک’’اسکائی پیکوٹ‘‘ فارمولا طے پایا۔ مبصّرین کی رائے میں برطانیہ اور فرانس نے خلافتِ عثمانیہ کے مشرقِ وسطیٰ کو بارہ انچ فُٹے اور پینسل سے لکیریں کھینچ کر آپس میں بانٹا تھا۔

سان ریمو کانفرنس میں طے کیا گیا کہ شام اور لبنان، فرانس کے حصّے میں آئیں گے، جب کہ عراق اور فلسطین، برطانیہ کے قبضے میں جائیں گے۔ واضح رہے کہ جنگ سے پہلے عرب نیشنل ازم کا صُور پھونک کر عربوں کو تُرک خلافت سے بے وفائی پر تیار کیا گیا اور اس خیانت اور بے وفائی کے بدلے میں عربوں کو بڑے حَسین خواب دِکھائے گئے۔ اردن کے موجودہ شاہ عبداللہ ثانی کے پَردادا، شریفِ مکّہ، حسین بن علی بھی اِس سودے بازی کے ایک بڑے فریق تھے۔ 

اُن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ عثمانی خلافت سے غدّاری کر کے اتحادی فوجوں کا ساتھ دیں، تو جنگ کے بعد اقتدار میں بڑا حصّہ دیا جائے گا۔ بڑی طاقتیں، امریکا ہو یا یورپی ممالک، مکّاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں اور عربوں سے کیے گئے وعدے توڑنے کے لیے بھی اُنہوں نے بڑی مکّاری کا مظاہرہ کیا۔ 

اُس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم، ڈیود لائیڈ جارج، فرانسیسی حکومت کے سابق سربراہ الیگزینڈر ملرینڈ، اٹلی کے وزیرِ اعظم فرانسسکونٹٹی اور جاپانی سفیر کشیرو ماتسوئی نے عربوں سے عہد شکنی کے لیے متفّقہ طور پر یہ عذر تراشا کہ مشرقِ وسطیٰ کا خطّہ ابھی مکمل آزادی کے تقاضے پورے کرنے کا اہل نہیں۔

یوں فلسطین اور شام، جہاں بیسیوں صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، ابنِ تیمیہؒ، ابن قیمؒ جیسے ائمہ، سیرت نگار اور اہلِ عِلم مدفون تھے، عیسائی قوّتوں کے قبضے میں چلے گئے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق شام، جو عثمانی خلافت کے تحت فلسطین اور لبنان سمیت ایک وسیع مُلک شمار ہوتا تھا، لیگ آف نیشنز نے اُس پر فرانسیسی قبضے کی توثیق کی، تو اُس نے نسلی، لسانی، مذہبی فرقہ واریت کی بنیادوں پر اس میں کئی نیم خود مختار ریاستیں قائم کردیں۔ انصاریہ پہاڑی علاقے میں علوی فرقے کی انتظامیہ تشکیل دی گئی۔ دروز اکثریت کے پہاڑی سلسلے میں دروزوں کی حکومت قائم کی گئی، جب کہ لبنان کو 1920ہی میں الگ ریاست کی حیثیت دے دی گئی تھی۔

لِوا الاسکندریہ(Sanjak of Alwxandretta) یعنی اسکندرون اور انطاقیہ پر مشتمل ایک اور ایسی ہی ریاست بنائی گئی۔ شرقِ اردن، لبنان اور فلسطین کے نکل جانے سے شام پہلے ہی سکڑ کر ایک محدود علاقہ رہ گیا تھا۔ فرانس نے عسکری مزاج کے کُردوں کو بڑی ہوشیاری سے تُرکی کے خلاف لڑنے کے لیے اپنی فوج کے طور پر استعمال کیا۔

جس طرح برطانیہ نے برّعظیم پاک و ہند کے وسائل کا بے پناہ استحصال کرنے کے باوجود ریل کی پٹری بچھانے، سڑکیں بنانے اور نہری نظام قائم کرنے جیسے کچھ بہت اہم ترقیاتی کام کیے تھے، اِسی طرح فرانس نے بھی کچھ کام کیے، لیکن اصل معاملہ آزادی کا تھا۔ شام کے عوام کو فرانس کی غلامی منظور نہیں تھی۔

چناں چہ 1925ء میں سب سے پہلے دروز علاقے میں فرانس کے خلاف بغاوت کی لہر اُٹھی، جس میں جلد ہی علوی، سُنّی، شیعہ اور دیگر عناصر بھی شامل ہو گئے۔ فرانس نے بغاوت کی اِس لہر کو بظاہر طاقت سے کُچل دیا، لیکن اس سے عرب قومیت کے تصوّر کو تقویت ملی، جس کے بیج عثمانی خلافت کے دَوران بوئے گئے تھے۔ درمیان میں فرانس نے ایک نیم خود مختار منتخب انتظامیہ بھی تشکیل دی، لیکن اس کا کوئی اقدام بھی اہلِ شام کو مطمئن کرسکا اور نہ ہی آزادی کی تحریک کو دَبا سکا۔

آخر17اپریل1946 ء کو فرانس نے اپنی فوج وہاں سے نکال لی اور یوں اہلِ شام کو فرانسیسی انتداب سے نجات مل گئی۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ اِس دوران امریکا اور روس کے درمیان سرد جنگ میں عرب ممالک کے اندر اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کے لیے سخت کش مکش شروع ہو چُکی تھی۔ شام میں1947ء میں روسی نظریات کی حامل عرب سوشلسٹ’’بعث پارٹی‘‘ وجود میں آگئی تھی، جس کا بانی ایک عیسائی، مائیکل افلاق تھا، جب کہ شریک بانیوں میں صلاح الدّین بیطار، زکی السوزی اور اکرم الحورانی شامل تھے۔

اس پارٹی کے اثرات فوج میں پھیل چُکے تھے۔ بعث پارٹی نے فوج میں ایک انقلابی کمیٹی بنا دی۔ مائیکل افلاق بذاتِ خود انقلاب کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، چناں چہ پے در پے فوجی بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 1949ء سے 1970ء تک کے بیس برسوں میں تقریباً14 چھوٹی اور چھے بڑی بغاوتیں رُونما ہوئیں۔1963ء میں عبدالکریم قاسم کے خلاف جو بغاوت ہوئی، اُس نے جمہوریت کو بیخ و بُن سے اکھاڑ کر وحشیانہ جبر اور خوف و دہشت پھیلا دی۔

اِس بغاوت نے شام میں سیاسی کلچر کا مکمل خاتمہ کر دیا اور انسانی حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کا ماحول بالکل ختم ہو گیا۔ سیاسی حکومت کے خاتمے کے بعد فوج کے اندر ایک گروپ، دوسرے گروپ کے خلاف بغاوت کرتا تھا۔ 1970ء میں نورالدّین الاتاسی شام کا صدر تھا۔ حافظ الاسد نے اُسی سے اقتدار چھینا اور اپنی آمریت قائم کی۔ حافظ الاسد نے کوئی پردہ رکھے بغیر مُلک میں علوی اقتدار قائم کیا۔ فوج اور سِول اداروں سے سُنّی افسران اور اہل کار چُن چُن کر الگ کر دئیے گئے یا اُنہیں مار دیا گیا اور ہر ادارے میں علوی مسلک کے افراد بھرتی کیے گئے۔ 

اس کے خلاف جو عوامی شورشیں برپا ہوئیں،اُن میں سب سے بڑی شورش فروری1982 ء میں شام کے چوتھے بڑے شہر حماۃ(Huma) کے اندر برپا ہوئی۔عرب ممالک میں طاغوت صفت شخصی حکومتیں ہوں یا فوجی آمریتیں، سب کی نظر میں اخوان المسلمین کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی۔ شامی آمر نے بھی اِس شورش کا ذمّے دار اِسی تنظیم کو ٹھہرایا۔ حافظ الاسد نے اپنے بھائی، رفعت الاسد کو شورش کچلنے پر مامور کیا۔ 

فوج، علوی ملیشیا، دفاعی کمیٹیوں اور پیراملٹری فورس، سب کو بروئے کار لایا گیا۔ یہ ایک انتہائی دہشت ناک آپریشن تھا، جسے دنیا کے آزاد میڈیا نے قتلِ عام (massacre) قرار دیا۔ غزہ میں ڈھائی سال میں ساٹھ، ستّر ہزار افراد شہید ہوئے، لیکن حافظ الاسد کے نظام میں صرف دس مہینے کے اندر چالیس ہزار سے ساٹھ ہزار انسانوں کی ہلاکت ہوئی، جب کہ ہزاروں افراد لاپتا کر دیئے گئے۔ یہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں ریاستی طاقت کا سب سے وحشیانہ استعمال تھا۔

حافظ الاسد کی غاصبانہ حکومت نہیں، بلکہ شام میں علوی بادشاہت قائم کی گئی تھی۔ تیس سال تک وہ بڑے قہارانہ انداز میں قوم پر مسلّط رہا۔ اسرائیل سے شرم ناک شکست کھائی اور گولان کی اسٹریٹیجک نوعیت کی حامل پہاڑی چوٹیاں اسرائیل کے قبضے میں چلی گئیں۔ وہ فلسطین آزاد کروا سکا اور نہ ہی گولان کی پہاڑی چوٹیاں اسرائیل کے قبضے سے چُھڑوا سکا۔ اس کی ساری طاقت عوام کو کچلنے ہی کے لیے وقف رہی۔ آخر، دس جون2000 ء کوموت کی گرفت میں آیا، تو بادشاہوں ہی کی طرح اپنے بیٹے، بشارالاسد کو جانشین بنا گیا۔

بیٹا ظلم و تعدی میں باپ سے بھی بڑھ کر ثابت ہوا۔ خاص طور پر 2011ء کی’’عرب بہار‘‘ کے نتیجے میں بڑی بڑی آمریتیں تنکے کی طرح بہہ گئیں، لیکن بشارالاسد کی حکومت کو ایران اور روس نے مل کر بچا لیا۔ اس نے اپنے بیس سالہ اقتدار کے آخری 14 سال کے عرصے میں اپنے عوام پر بے پناہ مظالم توڑے۔ شام کی انسانی حقوق کی تنظیم کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق، بشارالاسد کے فسطائی عہد کے 14برسوں میں دو لاکھ، دو ہزار افراد لقمۂ اجل بنے۔

تئیس ہزار سے زیادہ معصوم بچّوں کو یہ آمریت نگل گئی۔ ہزار ہا عورتیں ہلاک ہوئیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو کر ابھی تک دنیا میں دَر دَر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ شام کے موجودہ صدر احمد الشرع اپنے پس منظر کے لحاظ سے دہشت گرد تھے یا کچھ اور تھے۔ نیز، مستقبل میں وہ کیا ثابت ہوتے ہیں، فی الحال تو اُن کا شام کے عوام پر بہت بڑا احسان یہ ہے کہ اُنہوں نے شام کو الاسد خاندان کی پچاس سالہ وحشت ناک آمریت سے نجات دِلا دی۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)