• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رسول اللہ ؐ نے انہیں ’’الراکب المہاجر‘‘ کا لقب عطا فرمایا
رسول اللہ ؐ نے انہیں ’’الراکب المہاجر‘‘ کا لقب عطا فرمایا 

میدانِ کار زار میں گھمسان کی جنگ جاری تھی کہ تلواروں کی جھنکار کے درمیان اچانک ایک بھیانک چیخ بلند ہوئی۔ لوگوں نے دیکھا کہ کفّارِ قریش کے سُورما سردار، ابوجہل کا زخمی جسم بدر کی ریت میں تڑپ رہا ہے اور قریب ہی دو نو عُمر مجاہدیں موجود ہیں، جن کی برہنہ شمشیریں دشمنِ اسلام ابوجہل کے ناپاک خون سے تر ہیں۔ 

ابوجہل کے جنگ جُو بیٹے عکرمہ نے جب باپ کا لاشہ بدر کی خاک پر لوٹ پوٹ ہوتے دیکھا، تو جوشِ انتقام میں وہ اُن نوخیز مجاہدوں پر پیچھے سے حملہ آور ہوا، جس سے ایک نوعُمر مجاہد، معاذبن محمودؓ کا بازو کٹ کر لٹک گیا، جسے انھوں نے دوسرے ہاتھ اور پاؤں کی مدد سے زور سے جھٹکا دے کر جسم سے الگ کردیا۔ (الّرحیق المختوم،صفحہ301)۔

باپ کی عبرت ناک موت کے بعد بیٹے کی باری تھی، لیکن خوں خوار باپ کا جنگ جُو بیٹا، اپنے باپ اور قریش کے سپہ سالار ِاعلیٰ کی خاک آلود لاش بدر کے ریگستان میں بے یارو مددگار چھوڑ کر ایسا بھاگا کہ پھر مڑ کر نہ دیکھا۔

عکرمہ کی اسلام دشمنی: غزوئہ بدر کی شکست اور ابوجہل سمیت مکّہ کے نام وَر سرداروں کا قتل وہ بھیانک خواب تھا کہ جس نے کفار قریش کی راتوں کی نیندیں اور دن کا چین سکون و برباد کردیا تھا۔ عکرمہ اپنے باپ کی طرح مسلمانوں کا دشمن تو پہلے ہی سے تھا، لیکن باپ کے یوں سرِعام قتل نے اس کی اسلام دشمنی کو بامِ عروج پر پہنچادیا۔ 

انتقام کی آگ اسے ایک پَل چین نہ لینے دیتی، چناں چہ دیگر مقتولین کے ورثاء کے ساتھ مل کر وہ ایک اورجنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔ اہلِ مکّہ کے لیے معرکۂ بدر میں عبرت ناک شکست، ہزیمت، صناوید و اشرافِ قریش کا قتل اور پورے عرب میں ذلّت و رسوائی ناقابلِ برداشت تھی۔ چناں چہ اگلے ہی برس شوال 3ہجری کو انہوں نے مدینہ پر چڑھائی کردی۔

کوہِ اُحد کے دامن میں لڑی جانے والی اس جنگ میں جبلِ رماۃ پر تعینات مجاہدین کی ایک غلطی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا، جس کی وجہ سے عکرمہ بن ابوجہل اور خالد بن ولید نے مجاہدین کو کافی نقصان پہنچایا۔ غزوئہ خندق کے موقعے پر عکرمہ بن ابوجہل، ضرار بن خطاب اور عمرو بن عبدود نے ایک تنگ مقام سے خندق پار کرلی، لیکن حضرت علیؓ چند صحابہؓ کے ساتھ اُن کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ چناں چہ مکّے کا مشہور پہلوان عمرو بن عبدود مارا گیا۔ عکرمہ اور ضرار بدحواس ہوکر بھاگ نکلے۔ 

عکرمہ نے بھاگتے ہوئے اپنا نیزہ بھی چھوڑ دیا۔ فتح مکّہ کے موقعے پر قریش نے کسی بھی قسم کی مزاحمت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن عکرمہ اسلام دشمنی میں اس قدر آگے بڑھ چکا تھا کہ اُس نے اس فیصلے کے برخلاف چند نوجوانوں کے ساتھ مزاحمت کی اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے ہاتھوں شکست کھا کر بہ مشکل جان بچاکر بھاگا۔

یمن کی جانب فرار: فتحِ مکّہ کے موقعے پر آنحضرت ﷺ نے عام معافی کا اعلان فرمایا، لیکن چند بدنصیب ایسے بھی تھے کہ جن کا نام لے کر آپؐ نے حکم صادر فرمایا کہ اگر یہ بیت اللہ کے پردوں میں بھی چُھپے ہوں، تو اُنھیں قتل کردیا جائے۔ اُن میں عکرمہ بن ابوجہل کا نام بھی تھا۔ 

عکرمہ کے لیےاب مکّہ میں کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ وہ مکّہ کہ جہاں اُس کے باپ کا راج تھا، جہاں وہ خود بھی شہزادوں کی طرح پُرتعیش زندگی گزارتا رہا تھا، اُس کی کایا پلٹ چکی تھی۔ اب مکّہ اور یہاں کے لوگ اس کے لیے اجنبی تھے۔ مکّے میں اسے اپنی جان کا خطرہ لاحق تھا، لہٰذا وہ خوف کے عالم میں رات کے وقت چُھپتا چُھپاتا مکّے سے نکل کر یمن کی جانب روانہ ہوا۔ یمن کے علاوہ اسے کہیں اور جائے پناہ کی امید بھی نہ تھی۔

امّ ِحکیم آنحضرتؐ کی خدمت میں: فتحِ مکّہ کے بعد عکرمہ بن ابوجہل کی بیوی اُمّ ِحکیم بنت ِحارث بن ہشام (عکرمہ کی چچا زاد) چند خواتین کے ساتھ آنحضرتؐ کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوئیں۔ اُس موقعے پر اُمّ ِحکیم نے عرض کیا ’’یارسول اللہﷺ! میرا شوہر عکرمہ قتل کیے جانے کے خوف سے یمن کی جانب بھاگ گیا ہے۔ آپ اُسے پناہ عطا فرما دیجیے۔ میں اسے راہِ راست پر لانےکی پوری کوشش کروں گی۔‘‘ اُمّ ِحکیم کے درد بَھرے الفاظ سُن کر اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ’’جاؤ، آج سے اُسے بھی پناہ دی جاتی ہے، اُسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔‘‘ 

اُمّ ِحکیم نے رسول اللہ ﷺ کا شکریہ ادا کیا اور اپنے ایک رومی غلام کو ساتھ لے کر عکرمہ کی تلاش میں نکل پڑیں۔ سفر کے دوران غلام کی نیّت خراب ہوئی۔ امّ ِحکیم نے اسے باتوں میں لگائے رکھا، یہاں تک کہ اُن کا گزر عرب کی ایک بستی سے ہوا۔ وہاں پہنچتے ہی امّ ِحکیم نے مدد چاہی، چناں چہ بستی والوں نے اس غلام کو باندھ کر اپنے پاس بٹھا لیا، جس کے بعد اُمّ ِحکیم آگے کی جانب اکیلی ہی روانہ ہوگئیں۔ (حیاۃ الصحابہ 193/1)۔

کشتی طوفان میں گِھر گئی: عکرمہ، یمن کی طرف فرار ہوئے، لیکن بیچ سمندر میں کشتی ایک طوفان میں گھرگئی۔ کشتی میں سوار سب لوگوں نے ’’لاالہٰ الّا اللہ‘‘ کا ورد شروع کردیا۔ کشتی بان نے کہا کہ ’’یہاں اللہ کے علاوہ دوسرے معبود کام نہیں آتے۔‘‘ کشتی طوفانی لہروں سے ٹکرا کر ہچکولے کھا رہی تھی۔

عکرمہ نے سخت خوف زدہ ہوتے ہوئے سوچا کہ ’’اللہ سے بچ کر ہی تو مَیں مکّے سے بھاگا تھا، لیکن اب مَیں عہد کرتا ہوں کہ اگر میری جان بچ گئی، تو محمد عربیؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلوں گا۔‘‘ اللہ کے نام کی برکت سے کچھ ہی دیر میں طوفان تھم گیا اور کشتی ساحل سے جالگی۔ عکرمہ نے کشتی سے باہر دیکھا کہ اہلیہ اُن کی منتظر ہیں۔ امّ ِحکیم نے انہیں اطمینان دلایا کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے تمہیں پناہ دے دی ہے۔ اب واپس مکّہ چلو اور بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہوکر مسلمان ہوجاؤ۔‘‘ (اسد الغابہ جِلد 7، صفحہ4)۔

عکرمہ بار گاہِ رسالتؐ میں: عکرمہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مکّے کی جانب روانہ ہوگئے۔ راستے میں اہلیہ نے عکرمہ کو اپنے رومی غلام کی قبیح حرکت سے متعلق بتایا، تو انہوں نے اس بستی میں پہنچتے ہی غلام کو قتل کر دیا۔ جب عکرمہ، مکّہ کے قریب پہنچے تو حضوراکرمﷺ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا۔ ’’عکرمہ بن ابوجہل تمہارے پاس مومن اور مہاجر بن کر آرہے ہیں۔ ہم نے اُسے پناہ دے دی ہے، اس کے باپ کو بُرا بھلا نہ کہنا، کیوں کہ مرے ہوئے کو بُرا کہنے سے اس کے زندہ رشتے داروں کو تکلیف ہوتی ہے اور میّت کو دی گئی گالی اُس تک نہیں پہنچتی۔‘‘

تھوڑی دیر بعد عکرمہ اور اُمّ ِحکیم، رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ حضورؐ انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ آگے بڑھ کر خوش آمدید کہا۔ پھر آنحضرتؐ نے انہیں کلمہ پڑھایا اور عکرمہؓ مسلمان ہوگئے۔ اللہ کے نبیؐ نے اس موقعے پر عکرمہ سے فرمایا ’’اے عکرمہ! تم مجھ سے آج جو بھی ایسی چیز مانگو گے، جو مَیں دے سکتا ہوں، وہ میں تمہیں ضرور دوں گا۔‘‘ 

حضرت عکرمہؓ فرماتے ہیں کہ مَیں حضوراکرمﷺ کے سامنے شرم کے مارے اپنا سر جھکائے ہوئے تھا، مَیں نے کہا۔ ’’یا رسول اللہؐ ! آپ میرے لیے یہ دعا فرمادیں کہ مَیں نے آپؐسے جتنی بھی دشمنی کی، آپؐ کے خلاف جتنے سفر کیے، آپؐ کے خلاف جتنی جنگیں کیں یا آپؐ کے سامنے یا آپؐ کے پسِ پشت آپؐ کے لیے جتنی نازیبا باتیں کی ہیں، اللہ تعالیٰ اُن سب کو معاف فرمادے۔‘‘

رسول اللہؐ نے دُعا فرمائی۔ ’’اے اللہ! اس عکرمہ نے آج تک جتنی مجھ سے دشمنی کی، تیرے راستے سے روکنے کے لیے جتنے سفر کیے، ان سب کو معاف فرما دے۔‘‘ اس موقعے پر حضرت عکرمہ نے کہا۔ ’’یارسول اللہؐ! مجھے کسی بہترین بات کا حکم فرمائیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔‘‘ (حیاۃ الصحابہ، 1/195)۔

اسلام دشمنی کی تلافی کی فکر: اللہ کے نبیؐ کی اس نصیحت کے بعد تو گویا اُن کی دنیا ہی بدل گئی۔ انہوں نے خود کو اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کردیا۔ حضرت عکرمہؓ کو گزشتہ اسلام دشمنی کی تلافی کی بڑی فکر تھی، چناں چہ تن مَن دھن کے ساتھ اس کی تلافی میں لگ گئے۔ آنحضرتؐ کی حیات مبارکہ میں تلافی کا جو بھی موقع ملا، اُسےچھوڑا نہیں، فتحِ مکّہ کے بعد غزوئہ حنین کے معرکے میں قبیلہ ہوازن وثقیف کو زبردست شکست ہوئی تھی، مقام جعرانہ پر ہوازن کا چودہ رکنی وفد آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ پورا قبیلہ مسلمان ہوچکا تھا، چناں چہ آپؐ نے ان کے قیدی رہا کردیئے تھے اور حضرت عکرمہؓ کو قبیلہ ہوازن کے صدقات جمع کرنےکی ذمّے داری عطا فرمائی تھی۔

آنحضرتؐ کی وفات کے بعد خلیفۂ اوّل سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عکرمہؓ کو مختلف محاذوں پر روانہ کیا جن میں مرتدین کے خلاف ردہ کی جنگیں، فتنہ ارتداد کی جنگیں، اشعث بن قیس، مسیلمہ کذاب سمیت نبوت کے جھوٹے دعوے داروں اور زکوٰۃ سے منکرین سے جنگیں شامل ہیں۔ حضرت عکرمہؓ بن ابو جہل کی شجاعت و بہادری کے بہت سے واقعات سیرتِ صحابہؓ کی کتب میں درج ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ابن اثیر نے اپنی معروف کتاب اسد الغابہ میں تحریر کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں۔ ’’فتنۂ ارتداد کے خاتمے کے بعد عکرمہؓ شام کی تمام جنگوں میں شریک رہے۔ ایک مرتبہ جنگ میں لڑتے لڑتے دشمنوں کی صفوں کے اندر تک گھس گئے۔ سر اور سینہ شدید زخمی ہوگیا، ساتھی انہیں زخمی حالت میں خیمے میں لائے۔ لوگوں نےکہا کہ عکرمہؓ اس طرح خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، ذرا نرمی اور احتیاط سے کام لو۔ جواب دیا۔ لات و عزیٰ کے لیے تو مَیں جان پر کھیل جایا کرتا تھا، لیکن آج اللہ اور اس کے محبوب رسولؐ کے لیے جان بچاؤں، اللہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔‘‘ (اسد الغابہ، 7/4)۔

حضرت عکرمہؓ کی شہادت: ایک اور واقعہ جنگِ یرموک کے موقعے پر پیش آیا، جسے ڈاکٹر عبدالرحمٰن رافت پاشا نے تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’جنگِ یرموک کے موقعے پر عکرمہؓ نے قتل و قتال کا وہ بازار گرم کیا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا، گویا سخت گرمی میں ٹھنڈے پانی پر کوئی پیاسا ٹوٹ پڑا ہو۔ اس جنگ میں ایک موقع ایسا بھی آیا کہ جب مسلمان بڑی تکلیف میں مبتلا ہوگئے، تو حضرت عکرمہؓ مردانہ وار رومیوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے نکل گئے۔

حضرت خالد بن ولیدؓ نے آگے بڑھ کر کہا۔ ’’ عکرمہؓ ایسانہ کرو، تمہاری شہادت مسلمانوں کو بہت گراں گزرے گی۔‘‘ حضرت عکرمہؓ نے فرمایا۔ ’’خالدؓ مجھے چھوڑ دو، تمہیں معلوم ہے کہ ایک زمانے تک مَیں اور میرا باپ، رسول اللہﷺ کو سخت تکلیف میں مبتلا کرتے تھے۔ مجھے چھوڑ دو، تاکہ آج میں اپنی ان گزری ہوئی حرکتوں کا کفارہ ادا کرسکوں۔‘‘ پھر فرمایا۔ ’’مَیں نے بے شمار مواقع پر رسول اللہؐ سے قتال کیا ہے۔ کیا رومیوں سے مَیں بھاگ جاؤں گا؟ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔

پھر آپؓ نے صدا بلند کی۔ ’’اے مجاہدینِ اسلام! تم میں سے وہ کون بہادر ہے، جوموت کے لیے میرے ہاتھ پر بیعت کرے؟‘‘ اس موقعے پر آپؓ کے چچا حارث ابنِ ہشامؓ، ضرار بن ازورؓ سمیت چارسو مجاہدین نے آپ سے بیعت کی۔ گھمسان کا رن پڑا اور جب معرکۂ یرموک کا خاتمہ ہوا، تو مسلمانوں کالشکر عظیم فتح و کام رانی سے ہم کنار ہو چکا تھا، لیکن سرزمینِ یرموک پر تین مجاہدین، حارث بن ہشامؓ، عیاش بن ابو ربیعہؓ اور عکرمہؓ بن ابو جہل زخمی پڑے تھے۔ حضرت حارثؓ نے پینے کے لیے پانی طلب کیا۔ 

جب انہیں پانی پیش کیا، تو قریب ہی ان کے بھتیجے حضرت عکرمہؓ زخموں سے چُور پڑے تھے۔ حضرت حارثؓ نے فرمایا، پہلے انہیں پانی پلاؤ۔ جب پانی والا پانی عکرمہؓ کے قریب لےکر گیا، تو عیاشؓ نے انہیں دیکھا۔ عکرمہؓ نے فرمایا۔ پہلے انہیں پلاؤ، جب وہ عیاشؓ کے قریب پہنچا، تو ان کی رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ پانی پلانے والا دوڑتا ہوا جب حضرت عکرمہؓ اور حضرت حارثؓ کے پاس پہنچا تو وہ دونوں بھی اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کر چکے تھے۔

یہ سچ ہے کہ یہ تینوں آخر وقت میں دنیا سے پیاسے گئے، ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ ان تینوں کو حوض کوثر سے ایسے پانی سے سیراب کیا جائے گا جس کے پی لینے سے بعد پیاس کبھی پریشان نہیں کرتی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جنت کی ہریالی میں یہ حضرات مسرور و شاداں چہل قدمی کر رہے ہوں گے۔ (نجوم ِرسالت، ڈاکٹر رحمٰن پاشا، صفحہ 34)۔ حضرت عکرمہؓ کی جائے شہادت کے حوالے سے اختلاف ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ آپؓ جنگِ اجنادین میں شہید ہوئے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی بڑی تعداد شہید ہوئی تھی۔ 

بعض تذکرہ نگاروںنے لکھا کہ آپؓ ’’معرکہ مرج الصفر‘‘ میں شہید ہوئے۔ کچھ کی رائے ہے کہ حضرت عکرمہؓ 635ء میں باز نطینی افواج سے ہونے والی جنگِ فحل (Fahl) میں شہید ہوئے۔ لیکن اکثریت کی رائے کے مطابق آپؓ ’’جنگِ یرموک‘‘ میں شہید ہوئے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو بڑی فتح نصیب ہوئی تھی۔ شام فتح ہوا، جس کی فتح کی بشارت آنحضرتؐ نے غزوئہ خندق کے موقعے پر خندق کی کھدائی کے وقت دی تھی۔ جنگِ یرموک، سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے صرف چھےدن بعد لڑی گئی۔

اس وقت تک محاذ پر آپؓ کےسانحہ وفات کی خبر نہیں پہنچی تھی۔ (تاریخ امتِ مسلمہ، 504/1)۔ واضح رہے،حضرت عکرمہؓ 598 عیسوی میں مکّہ میں عمرو بن ہشام بن مغیرہ کے گھر پیدا ہوئے ۔ آپؓ کا باپ، ابوجہل کے نام سے مشہور ہوا اور حضرت عکرمہؓ 37سال کی عمر میں جنگِ یرموک میں شہید ہوئے۔ نیز، حضورؐ نے انھیں ’’الراکب المہاجر‘‘ (ہجرت کرنے والے سوار) کا لقب عطا کیا تھا۔