مشہد میں پیدا ہونے والے چھیاسی سالہ سید علی خامنہ ای عظم و ہمت کا پہاڑ بنے ہوئے ہیں، انہوں نے مغربی طاقتوں کے تمام اندازے غلط ثابت کر دیئے ہیں، وہ طاقتوروں کو شکست دے رہے ہیں، وہ کسی بھی دھمکی کا جواب سختی سے دیتے ہیں۔ سید علی خامنہ ای کہتے ہیں ’’ ہمیں کہا جاتا ہے امریکہ سے تھوڑی سی نرمی بانٹیں، سب ٹھیک ہو جائے گا، یاد رکھیں! ہم علی ؓ کے ماننے والے ہیں اور خیبر کے وارث ہیں، ہم کیوں سمجھوتہ کریں؟ امریکہ نے تو کبھی ان پر رحم نہیں کیا، جو ان کے پیچھے جاتے ہیں، ان سے امداد لیتے ہیں، ہماری تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں، ایران سر نہیں جھکائے گا، امریکی حملہ نا قابلِ قبول ہے، کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے، ہم امریکی اڈوں کو جہنم بنائیں گے، اسرائیل اب اس کا مزہ چکھے گا‘‘۔
یہ باتیں ایران کے رہبر معظم نے حالیہ دنوں میں کی ہیں، سید علی خامنہ ای نے مشہد، نجف اور قم سے تعلیم حاصل کی، یہ تینوں شہر ایرانیوں سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے مقدس ترین ہیں، انقلاب کو شاعری کی زبان میں بیان کرنے والے سید علی خامنہ ای کو ایران پر حکمرانی کرتے ہوئے یعنی بطور رہبر 36 برس ہو چکے ہیں، اس سے پہلے وہ قریباً آٹھ برس ایران کے صدر رہے، وہ وزیر دفاع بھی رہے، انہیں دفاع، خارجہ اور معاشی امور میں خاص دلچسپی ہے۔ جون 1981ء میں مشہد کے روحانی خاندان کے چشم و چراغ سید علی خامنہ ای پر تہران میں قاتلانہ حملہ ہوا، اس حملے میں وہ بچ گئے مگر شدید زخمی ہوئے، اس حادثے میں علی خامنہ ای دائیں بازو سے محروم ہو گئے۔ ماحولیات اور قومی منصوبہ بندی پر گہری نظر رکھنے والے سید علی خامنہ ای کا اقتدار پورے مشرق وسطیٰ میں طویل ترین ہے، وہ پچاس برس کی عمر میں رہبر معظم بن گئے تھے، اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں حالات کی گرمی سردی کا خوب اندازہ ہے، اسی لئے جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور اس کے بعد امریکی صدر نے دھمکیاں دینی شروع کیں تو سید علی خامنہ ای کہنے لگے ’’ امریکی صدر نے نا قابلِ قبول بیان میں صراحتاً ایرانی عوام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں لیکن ہم ان سے کہتے ہیں کہ اولا دھمکی انہیں دی جائے جو دھمکانے سے ڈرتے ہوں، ایرانی عوام تو ایک مقدس آیت پر یقین رکھتے ہیں ’ نہ کمزور پڑو، نہ غم کرو، تم ہی بلند تر ہواگر تم مومن ہو‘۔ یاد رکھیں دھمکی کبھی بھی ایرانی عوام کے رویے اور سوچ پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔
ہمیں پتہ ہے کہ صہیونیوں کے امریکی دوست میدان میں آ گئے ہیں، جو صہیونی حکومت کی کمزوری اور نا توانی کی علامت ہے، صہیونی حکومت کو سزا دینی چاہئے اور اسے سزا دی جا رہی ہے، ایران کے عوام اور مسلح افواج نے اس بد نیت دشمن کو جو سزا دی ہے اور دے رہے ہیں اور مستقبل کے لئے بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، یہ ایک سخت سزا ہے جو اسے کمزور کر رہی ہے‘‘۔
بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ سید علی خامنہ ای کی مادری زبان آذربائیجانی ہے، انہیں آذربائیجانی کے علاوہ فارسی اور عربی پر مکمل عبور حاصل ہے، وہ اس عمر میں بھی پاسداران انقلاب کی مکمل رہنمائی کر رہے ہیں، انہی کی رہنمائی میں ایرانیوں نے اسرائیل کے شہروں کو کھنڈرات میں بدل کر رکھ دیا ہے، طوالت اختیار کرتی ہوئی جنگ سے اسرائیلیوں کی جان جا رہی ہے، صہیونی بنکروں میں پاگل ہو رہے ہیں، مغربی طاقتیں پوری آب و تاب سے اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں مگر ایران اسرائیل کی جان نہیں چھوڑ رہا، صہیونی عوام ایرانیوں سے جنگ بند کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں، اب جب اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور امریکی آئین کو توڑتے ہوئے ٹرمپ نے ایران پر حملہ کر دیا ہے، اس کا جواب بہت سخت آنے والا ہے، پھیلتی ہوئی جنگ میں طاقتوروں کی شکست صاف دکھائی دے رہی ہے، آبنائے ہرمز کی بندش یورپی ملکوں کی معیشت کو مزید کمزور کر دے گی۔ ایرانیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ خطے میں موجود امریکی اڈوں کو جہنم بنا دیں گے، دنیا کے اکثر ملکوں نے امریکہ کے بلاجواز حملوں کی مذمت کی ہے، منافقت کا عجیب کھیل جاری ہے، اسلم گورداسپوری کا شعر بر محل ہے کہ
موت کو اب زندگی کا نام دینا چاہئے
قاتلوں کو امن کا انعام دینا چاہئے