ایران پر امریکی جارحیت نے دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے غور و فکر کے نئے دروازے کھولے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ مسلمان بے بسی کا شکار ہوئے۔ 1258میں منگولوں نے خلافت عباسیہ تار تار کر دی۔1492میں سقوط غرناطہ ہوا،1514میں سلطان سلیم یاوز کے ہاتھوں ایرانی بادشاہ،شاہ اسماعیل صفوی کو اس وقت کی جدید ٹیکنالوجی سے عدم واقفیت کی بنا پر شکست ہوئی۔1857ءمیں مغلوں پر زوال آیا اور پھر 1924 ء میں خلافت عثمانیہ تاریخ کا حصہ بن گئی۔ لیکن سیف الدین بخت،احمد بن منصور، شہاب الدین غوری جیسے حکمران بھی تاریخ کا حصہ بنے جنہوں نے بے جان جسم میں جان ڈال دی، لیکن آج تو بے بسی کا یہ عالم ہے نہ شہاب الدین غوری دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی احمد بن منصور اور نہ ہی صلاح الدین ایوبی۔
آج پھر امت مسلمہ پر بارہویں صدی والی کیفیت غالب نظر آ رہی ہے۔ اسرائیل فلسطین میں، بھارت کشمیر میں،برما میانمار میں،فرانس شام میں اور امریکہ و اسرائیل،ایران اور غزہ میں مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں لیکن کہیں سے کوئی امید افزا صورت حال نظر نہیں آرہی۔ موتمر عالم اسلامی،عرب لیگ،اقوام متحدہ،یورپی یونین، انسانی حقوق کی سب تنظیمیں غیر فعال ہیں۔
اسلامی دنیا متفقہ قیادت سے محروم ہے، کہنے کو تو وسائل اتنے کہ کروڑوں ڈالر مالیت کے طیارے تحفہ میں دے دیں لیکن بے بسی کا یہ عالم کہ غزہ کے مظلوموں تک پانی کی ایک بوتل،خوراک کا ایک پیکٹ،یا احتجاج کی ایک صدا تک بلند نہ کر سکیں۔موجودہ بے بسی،ظلم و ستم اور فلسطینیوں کی نسل کشی دیکھتے ہوئے جب میرے مطالعہ سے رسول اللہﷺ کی ایک حدیث مبارکہ گزری تو مجھے اس بے بسی اور ذلت کی وجہ سمجھ میں آگئی۔ابو داؤد میں موجود حدیث نمبر 4297کا مفہوم یہ ہے کہ '' رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے دشمن تمہارے خلاف اس طرح یلغار کریں گے جس طرح کھانے والے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں،کسی نے عرض کی یا رسول اللہ کیا ان دنوں ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا نہیں! بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی مانند ہو گے۔ اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں'' وہن'' ڈال دے گا۔عرض کیا گیا، یا رسول اللہ،وہن کیا ہے؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔'' آج اہل مغرب کی بیسیوں تنظیمیں ایسی ہیں جو اپنی تہذیب تجارت معیشت اور نظریات کے فروغ کیلئے دن رات متحرک رہتی ہیں، جی ایٹ،جی سیون، جی 20، ،اقوام متحدہ اور اس کے تمام ذیلی ادارے اپنا ایجنڈا تمام محکوم اقوام بالخصوص مسلمانوں پر مسلط کرنے کیلئے ہر لمحہ قانون سازی اور نظام بندی کے نام پر نئے نئے قوانین بناتے ہیں۔ مسلسل سازشوں اور اقوام متحدہ کی پون صدی پر محیط کارکردگی کا ما حاصل یہ ہے کہ جو جنگیں طاقتور اقوام آپس میں لڑا کرتی تھیںاب معاشی اور سفارتی جنگیں تیسری دنیا کے ممالک خصوصاََ مسلمان ممالک پر مسلط کر دی گئی ہیں۔ آج جنگ و جدل کے ساتھ دہشت گردی اور بدامنی انہی مسلم خطوں کا مقدر بنی ہوئی ہے۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ملت اسلامیہ کے مختلف ممالک،دشمنوں کے حملوں کا نشانہ بنے۔
جنگ خلیج ہو یا ایران عراق جنگ،عراق امریکہ جنگ ہو افغانستان پر حملے، حالیہ دہشت گردی ہو یا غزہ اور ایران پر منظم حملے یہ ساری بے بسی مسلمانوں کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ مسلم دنیا کے نمایاں ممالک جن مسائل کا شکار ہیں انہیں مادی اور نظریاتی دونوں طرح کے مسائل کہا جا سکتا ہے اور ان ہمہ جہت مسائل سے نکلنے کا کوئی مناسب راستہ اختیار کرنے پر کوئی بھی ملک تیار نہیں۔یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ مسلم دنیا اس وقت دنیا کے مرکزی علاقوں پر مشتمل ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ دنیا کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے اور اس حقیقت کو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام دنیا کا سب سے تیز پھیلنے والا مذہب ہے۔یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ مسلم امہ معدنی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہے لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلم ممالک اپنے مفادات اور تحفظ کے شعور سے عاری ہیں اور حدیث رسول کے مطابق''وہن''کی بیماری کا شکار ہیں۔ زوال کی تین صدیاں گزر چکی ہیں آج بھی OICکے رکن ممالک بے تحاشہ مالی وسائل کے باوجود بے حمیتی کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ میری دانست میں اس ہمہ جہت زوال کی سب سے بڑی وجہ علم سے دوری اور ٹیکنالوجی سے عدم واقفیت ہے۔انسانیت کی فلاح میں مسلم دنیا کا حصہ تقریبا ًصفر ہے،تعلیم سے بے رغبتی اور علم دشمن رویہ ہماری سرشت میں شامل ہو گیا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ حکمران ایسے ملے ہیں جو چند لمحوں کی عافیت کے بدلے اپنی قوم کو سالوں کی غلامی میں دینے پر بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔زوال کے بدترین لمحات میں بھی وہ قوم کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ خود بھی جاگنے پر تیار نہیں ہوتے۔محض وقتی نعرے بازی مسائل کا حل نہیں بلکہ ان جملہ مسائل کا حل صرف علم و ٹیکنالوجی ہے۔
جب تک ہم بطور قوم جدید علوم کی طرف راغب نہیں ہوں گے، انسانیت کی فلاح میں اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے، جدید ٹیکنالوجی کا علم حاصل کرنے کیلئے مغرب کی دانش گاہوں کا رخ نہیں کریں گے تب تک یہی ذلت ہمارا مقدر رہے گی۔ علم کے دروازے پر دستک دیں عالمی دانش گاہوں کی لائبریریوں میں جا کر بیٹھیں، انسانیت کی فلاح کیلئے اپنا حصہ ڈالیں،پھر قدرت کو ہم پر رحم آئے گا اور عزت کا تاج ہمارا مقدر بنے گا۔