• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران اور اسرائیل کے درمیان 12دنوں کی جنگ کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور قطر کی ثالثی میں اگرچہ منگل کو جنگ بندی عمل میں آگئی مگر یہ ضروری ہوگیا ہے کہ جس طرح جنگ بندی فیصلے کے اطلاق کے مقررہ وقت کو فوجی فوائد کے حصول کیلئے بے دریغ بمباری جیسے ہتھکنڈوں کو امریکی صدر نے ذاتی نگرانی اور پائلٹس واپس بلوانے کے پیغامات کی صورت میں نئے مخمصوں سے بچانے کی تدابیر پر توجہ دی اسی طرح اقوام متحدہ، او آئی سی، خلیج تعاون تنظیم سمیت عالمی ادارے اور بااثر ممالک سرگرم رہیںاور کرۂ ارض کا منظم نظام ہر لمحے مستعد و چوکس رہے ۔ حالات متقاضی ہیں اس بات کے، کہ زمین پر فتنہ و فساد کی نئی صورتوں سے بچنے کی کوششیں کی جائیں۔ پرانے مسائل کو عالمی اداروں اور بااثر ممالک کے اثرو رسوخ کے ذریعے حل کیا جائے اور انسانی بقا کو درپیش سنگین چیلنجوں سے نمٹنے کی اجتماعی کوششیں بروئے کار لائی جائیں۔ اس تناظر میں ، کہ اسرائیل ایران جنگ کی صورت میں ایک بڑی تباہی بہت قریب سے ہوکر گزر گئی ہے،اس نوع کے مزید خطرات سے بچنے کیلئے عالمی طاقتوں کو محتاط رہنا چاہئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ کے آخری روز اپنے پیغام میں سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے جہاں اس امر کی نشاندہی کی کہ تل ابیب اور تہران دونوں نے ایک ہی وقت میں جنگ بندی کی خواہش کے ساتھ ان سے رابطہ کیا تھا، وہاں جنگ بندی اعلان کو دنیا اور مشرق وسطیٰ کی فتح قرار دیا۔ اس دوران کیا مراحل سامنے آئے، جنگ بندی کے ابتدائی گھنٹوں کے دوران کیا کچھ ہوا، صدر ٹرمپ کا اس دوران کیا کردار رہا، دوسرے رہنمائوں کی امن کاوشیں کس کس انداز میں جاری رہیں، ان سوالات کی اپنی اہمیت ہے جبکہ مستقبل میں سامنے آنے والے بعض سوالات بھی اہم ہونگے۔ ان سب باتوں سے قطع نظرقطری وزیراعظم محمد بن عبدالرحمٰن ،لبنانی وزیراعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں جب یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ اگلے دو دنوں میں حماس اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات ہوسکتے ہیں تو یہ ایک اور اچھی خبر ہے۔ واضح رہے کہ قطر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کا بھی ثالث ہے۔ قطری وزیراعظم نے امریکی فوجی اڈے کو جواز بنا کر کی گئی کارروائی کو قطری عوام کے لئے ایک جھٹکا قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حملےدونوں ممالک کے تعلقات پر اثر ڈالیں گے۔ ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ حملہ العدیدیہ کے امریکی بیس پر کیا گیا تھا ہمارے برادر، دوست ہمسایہ ملک قطر سے ہرگز متعلق نہیں تھا۔ غزہ وہ مقام ہے جو اسرائیلی نسل پرستی کے ہاتھوں ایک بڑی قتل گاہ بن چکا ہے جہاں بچوں اور خواتین سمیت لوگوں کو گولیوں اوردھماکوں کا ہی نہیں، بھوک اور پیاس جیسی اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ قطری وزیراعظم اس ضمن میں دیگر ممالک کیساتھ اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں مگر عالمی برادری کا فعال کردار سامنے آنے کی ضرورت اب بھی باقی ہے۔ پاکستان ایک طرف غزہ میں بہیمیت رکوانے کیلئے سرگرم ہے، دوسری جانب مشرق وسطیٰ سمیت عالمی امن کی کوششوں میں موثر کردار ادا کر رہا ہے۔ منگل کو وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ایران کے صدر پیزیشکیان سے ٹیلیفونی گفتگو میں جس یکجہتی کا اظہار کیا اسکے جواب میں پاکستان کے اصولی موقف پردونوں رہنمائوں نے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔حالیہ کشیدگی کے دوران خطے میں امن اور سعودی عرب کی خودمختاری و سالمیت کیلئے پاکستان عزم کا اعادہ بھی کیا گیا ۔ وزیراعظم نے چین، سعودی عرب اور قطر کے سفیروں سے الگ الگ ملاقاتوں میں بھی بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔ اسلام آباد خطے اور کرۂ ارض کے امن کیلئے ہمیشہ کوشاں رہا ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی سرگرم کردار ادا کرتارہے گا۔

تازہ ترین