پتا نہیں کیوں یہ طے کر لیا گیا ہے کہ جنسی ہراسمنٹ کا شکار صرف عورت ہی ہوتی ہے حالانکہ خواتین کے ہاتھوں اس سلوک کا شکار ہونے والے مردوں کی بھی کمی نہیں۔ خواتین تو Me Tooکہہ کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی ہیں، مرد کہاں جائیں؟ کس کو بتائیں کہ ان پر کیا گزری ہے۔ کوئی عورت اگر مرد رکشہ ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر سمٹ کر بیٹھ جائے تو رکشہ ڈرائیور کی مجال نہیں کہ اسے ہراسمنٹ کہہ سکے۔ ہاں اگر وہ اپنی ہی سیٹ پر ذرا کھلا ہو کر بیٹھنے کی کوشش کرے تو ظاہری بات ہے یہ ہراسمنٹ ہو گی۔
عورت مرد سے مصافحےکیلئےہاتھ بڑھا دے تو یہ معمول کی بات ہے۔ یہی حرکت اگر مرد کر دے تو عورت جنسی ہراسمنٹ کا اعلان کر سکتی ہے۔ لباس سے لے کر گفتگو تک جنسی ہراسمنٹ کے تمام قوانین مردوں پر ہی کیوں لاگو ہوتے ہیں؟ مرد کسی عورت کو چائے کی پیشکش کرے تو ہراسمنٹ اور یہی پیشکش عورت کرے تو با اخلاق۔ اصل میں میڈیا پر بھی چونکہ خواتین ہی مردوں پر الزام لگاتی ہیں لہٰذا یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ جنسی ہراسمنٹ کا مطلب ایک مرد کی طرف سے ایک عورت پر بری نگاہ رکھنا ہے۔ یہ معاملہ بعض دفعہ الٹ ہوتا ہے لیکن چونکہ رپورٹ نہیں ہوتا لہٰذا کسی کا دھیان بھی نہیں جاتا۔
ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے کہ ہراسمنٹ کی صورت میں عورت معاشرتی دباؤ کی وجہ سے خاموش رہتی ہے حالانکہ مرد اِس سے بھی زیادہ بری طرح خاموش رہنے پر مجبور ہوتا ہے کیونکہ مرد اگر ایسا واقعہ بیان کرے تو معاشرتی دباؤ کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی حیثیت بھی’ مشکوک‘ ہو جاتی ہے۔ میں جنسی ہراسمنٹ کے خلاف ہوں لیکن اس بات کے بھی خلاف ہوں کہ سارا قصور مرد کے سر تھوپ دیا جائے۔ جنسی ہراسمنٹ کی جتنی بھی باریکیاں ہیں وہ ساری کی ساری عورت کو مد نظر رکھ کر تیار کی گئی ہیں‘ گویا فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ مرد ہی چھیڑے گا۔ یہ تسلیم کہ عورتیں جنسی ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہیں اور اس کا سدباب ہونا چاہیے لیکن جو مرد عورتوں کی وجہ سے ڈسٹرب ہوتے ہیں ان کا بھی کچھ حل سوچئے۔ قوانین کے مطابق جنسی لحاظ سے کسی کو گھور کر دیکھنا بھی ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ مخصوص طرز سے ہنسنا بھی جنسی ہراسمنٹ ہے۔ منہ سے کسی جانور کی آواز نکالنا بھی جنسی ہراسمنٹ ہے۔ ایسا لباس پہننا جس سے جنسی ترغیب ملے‘ یہ بھی جنسی ہراسمنٹ ہے۔ اب اس قانون پر چیک کر کے دیکھ لیں کہ کیا عورتیں مردوں کو نہیں گھورتیں؟
کسی گلی محلے کی شادی میں شرکت کر کے دیکھیں کہ کون چھتوں پر چڑھی دولہے کو دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ یہ بھی تسلیم کہ چھچھورا پن مردوں میں زیادہ پایا جاتا ہے لیکن پھر وہی بات کہ اگر دفتر کا کوئی ڈریس کوڈ ہے تو اُسے خواتین پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔ عورت اگر اپنی مرضی سے اسکرٹ پہن سکتی ہے تو مرد شارٹس پہن کر دفتر کیوں نہیں آ سکتا؟
مرد کیلئے شریفانہ حلیہ ضروری ہے تو یہ شرط عورت کیلئے کیوں نہیں؟ ہمارے ہاں عورتوں کے حقوق کیلئے مردوں کے خلاف بولنے والے زیادہ تر مرد خود شکاری ہوتے ہیں۔ ایک بار پھر یاد دلاتا ہوں کہ میں عورتوں کے خلاف نہیں‘ لیکن مردوں کے خلاف بھی نہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح خواتین ہمت کر کےہراساں کرنے والے مرد کا نام لے لیتی ہیں ہم اس طرح خواتین کا نام نہیں لے سکیں گے کیونکہ معاشرے کی روایات کے عین مطابق قصور بے شک محترمہ کا نکلے ٹنڈ ہماری ہی ہو گی۔ خود ہی سوچئے!
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی مائی کا لعل کسی شادی شدہ غیر عورت کا نام لے کر کہے کہ بیس سال پہلے اِس نے مجھے جنسی طور پر ہراساں کیا تھا؟ عورت کے گھر والے اس کی ہڈیوں کا پاؤڈر بنا دیں گے۔ لیکن یہی بات اگر عورت کہے تو سینکڑوں ہمدرد پرسہ دینے کونے کھدرے سے نکل آتے ہیں۔ گھر گھر کیبل لگی ہوئی ہے۔
ایک طرف دنیا جہاں کی فلمیں چل رہی ہیں‘ شوز چل رہے ہیں جس میں محبت‘ عشق‘ پیار اور اظہار کی باتیں ہو رہی ہیں‘ قہقہے لگاتے ہوئے عورت کو پھانسنے کی ترکیبیں بتائی جا رہی ہیں اور دوسری طرف یہ رویہ کہ کسی کولیگ عورت سے مسکرا کر بات کرنا بھی جنسی ہراسمنٹ۔ ہمارے ہاں یہ ٹرینڈ پرورش پا رہا ہے کہ عورت جو کہتی ہے سچ کہتی ہے اور مرد جو کہتا ہے بکواس کہتا ہے۔ عورت اگر کہے کہ مرد نے مجھے چھیڑا ہے تو اس پر فوراً نوٹس لینا چاہیے لیکن اگر مرد کہے کہ میری کولیگ نے مجھے شرارتاً آنکھ ماری ہے تو اس پر سب کا ایک ہی جملہ ہو گا ’’تیری تو لاٹری لگ گئی‘‘۔ تو بتائیے اِس کے بعد کوئی کہاں کیس لے کر جائے؟؟؟ میرے علم میں تو نہیں لیکن کیا جنسی ہراسمنٹ کے قانون کے تحت آج تک کسی مرد نے بھی کوئی شکایت درج کرائی ہے؟ اور اگر کرائی ہے تو کیا فیصلہ اُسی طرح ہوا ہے جس طرح عورت کے معاملے میں ہوتاہے؟۔
جس طرح محبت کا اظہار کرنے میں مرد کی پہل ضروری ہے اسی طرح الزام لگانے میں لیڈیز فرسٹ کا اصول ضروری ہوچکا ہے۔ مرد ایسا الزام لگائے تو بہت بونگا لگتا ہے۔ ناگوارِ خاطر نہ گزرے تو اُن مردوں کو بھی سامنے آنے کا حوصلہ دیجئے جو عورتوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ جو صرف جنسی ہراسمنٹ کا ہی نہیں ہارٹ اٹیک اور موت کا بھی شکار ہوئے ہیں۔ دراصل ہم یہ بات ماننےکیلئے تیار ہی نہیں کہ کوئی مرد بھی شریف ہو سکتا ہے۔ حضور! ایسے مرد بھرے پڑے ہیں جن میں شرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، لیکن وہ خاموش رہتے ہیں اور بس کالم لکھ کر خاموشی سے ٹائم پاس کر لیتے ہیں...!!!