سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ’پھانسی‘ لگتے وقت بھی تمام سروے کے مطابق ملک کے مقبول ترین لیڈر تھے تو کیا وجہ تھی کہ پارٹی قیادت اُنکی رہائی میں نہ صرف نا کام رہی بلکہ بعض سینئر ترین رہنماؤں کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ پسِ پردہ جنرل ضیاء سے ملے ہوئے تھے۔ لہٰذا مارشل لا لگنے سے پھانسی تک کارکنوں نے گرفتاری بھی دی اور کوڑے بھی کھائے مگر پارٹی قیادت اُن سے یہی کہتی رہی کہ بھٹو جلد رہا ہوجائینگے، تحریک کی ضرورت نہیں اور اُنہیں تختہِ دار پر پہنچادیا۔ اِس سارے عمل میں اُس وقت کی مقتدرہِ اعلیٰ، عدلیہ اور بعض نام نہاد صحافیوں اور دانشوروں کے ساتھ بھٹو کے سیاسی مخالفین کی بھی تائید شامل تھی۔ آج اِس بات کو 47 سال بیت گئے ہیں بس کردار بدلے ہیں کہانی وہی ہے۔ اسی لیے جس ’ ہائبرڈ نظام‘ کی بات اب ہو رہی ہے وہ ہمیشہ سے ہماری سیاست میں رہا ہے۔ ورنہ جمہوریت نہ آجاتی۔ اب نہ 58ٹو بی کی ضرورت ہے نہ ہی کسی PCO کی 26 ویں آئینی ترمیم نے یہ تمام مسائل حل کردیئے ہیں۔ اس ’نظام‘ کی پیداوار شریف بھی ہیں اور عمران بھی۔ البتہ جو آج اِس سے فائدہ اُٹھارہے ہیں اُن کو ’تاریخ‘ سے سبق سیکھنا چاہئے۔ کہہ نہیں سکتا کہ آج عمران خان کے مولانا کوثر نیازی، رفیع رضا، جتوئی، ممتاز اور پیرزادہ کون ہیں اور اُنکےجے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن اور معراج محمد خان، کون ہیں، یہ فیصلہ تو خود خان صاحب کو کرنا ہے کہ جن جن کو وہ پارٹی کے اعلیٰ ترین عہدوں پر لائے اُن میں سے کتنے مشکل وقت میں ساتھ کھڑے رہے۔ رہ گئی بات ریاستی جبر اور قید وبند کی تو یہ سیاست کا حصہ ہے ورنہ قربانی کے بغیر تو کچھ ہاتھ آنے والا نہیں۔ سیاسی جوڑ توڑ ، لچک یہ بھی سیاست کا حصہ ہے مگر اِس وقت تو جن سے وہ بات کرنا چاہتے وہ خود اُن سے بات کرنا نہیں چاہتے اور ’احتجاجی تحریک‘ ہے کہ چل نہیں پارہی، جسکی بنیادی وجہ پارٹی کے اندرونی شدید اختلافات ، قیادت کا غیر سیاسی مزاج اور مقتدرہ کی ’ناں‘ ہے ،تو ایسے میں عمران اور پارٹی کے پاس آپشن کیا ہے۔ حال ہی میں پی ٹی آئی کی خصوصی سیٹوں کے بارے میں آئینی عدالت کا فیصلہ اِس جانب واضح اشارہ کرتا ہے کہ آنے والےکچھ اہم فیصلے کیا آ سکتے ہیں۔جوعمران کی واپسی کو مشکل ہی نہیں ناممکن کردینگے۔اب تحریک چلے تو کیسے چلے جب خود خان صاحب اپنی ہی نامزد کردہ ٹیم پر اعتماد نہیں کررہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تحریک چل پارہی ہےاور نہ ہی بڑا اپوزیشن کا اتحاد بن پارہا ہے۔ آنیوالا وقت خان صاحب اور پارٹی کیلئے کٹھن ہوگا۔ اعلیٰ عدلیہ میں ہونیوالی اور آنیوالی تبدیلیاں خان صاحب کی 190- ملین والی سزا پر مہر لگا سکتی ہیں۔ اسی طرح 9؍مئی میں اگر جنرل فیض حمید کو آئندہ چند ہفتوں میں بڑی سزا ہوجاتی ہے تو خان اور ان کے ساتھیوں کیلئے بھی اچھی خبر نہیں۔ لہٰذا عدالتی میدان کے راستے میں تو کانٹے ہی کانٹے نظر آ رہے ہیں۔ سیاسی میدان میں یقینی طور پر اِس وقت ’ہائبرڈ نظام‘ اپنے عروج پر ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف جو ہمیشہ سے مقتدرہ کی پہلی چوائس رہے ہیں نواز شریف یا عمران کے مقابلے میں ۔ان کے درمیان ایک مضبوط شراکت داری نظر آتی ہے یہاں تک کہ خود نواز نے شہباز اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کو بہترین قرار دیدیا ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ رہ گئی بات خان صاحب کی تو سیاسی میدان میں بظاہر وہ تنہا نظر آ رہے ہیں اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد نہیں بن پارہا۔ مولانا فضل الرحمان اور حافط نعیم الرحمان دونوں کو ہی پی ٹی آئی یا خان پر اعتماد نہیں ورنہ صرف ان تین جماعتوں کا اتحاد بھی خاصی ہلچل مچا سکتا تھا۔ انکا ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ پہلے پی ٹی آئی خود تو ایک پیج پر نظر آئے دوسرے کچھ ماضی کے تلخ تجربات بھی آڑے آ گئے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال خان کو پارٹی کے اندر درپیش ہے اسی لیے ایک کے بعد ایک تحریک کی کوشش مگر سیاسی ناکامی کا سامنا ۔ اب یا تو خان پارٹی اپنی بہن علیمہ خان کے سپرد عارضی طور پر کریں یا پھر بیرسٹر گوہر اور سلمان اکرم راجہ کو پارٹی چلانے دیں، وہ صحیح سمت پر نہیں جارہے تو قیادت تبدیل کردیں جنید پر اعتماد نہیں تو علی امین کو ہی پارٹی دے دیں۔ اس وقت تحریک انصاف میں صرف کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے ایسے میں تحریکیں نہیں چلا کرتیں۔ خان صاحب کے پاس فیصلے کرنے کا وقت زیادہ نہیں۔کرکٹر عمران خان کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ شاذو نادر ہی فاسٹ بولنگ کراتے وقت ’نوبال‘ کراتا تھا۔ کپتان بنا تو سلیکٹرز پر زیادہ اعتماد نہیں رہا اور اپنی پسند کی ٹیم منتخب کرواتا۔ سلیکٹرز بس دستخط کردیتے تھے۔ عمران کو یہ بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے نیوٹرل ایمپائر کا آئیڈیا دیا اور آئی سی سی نے مانا۔ وہ ہمیشہ شریف کے بارے میں کہتا کہ ’’نواز شریف اپنے ایمپائروں کے ذریعے میچ جیتتا‘‘ مگر جب وہ سیاست میں آیاتو لگتا ہے ان باتوں پر ’یوٹرن‘ لے لیا۔ غلطی پر غلطی کرتا گیا چاہے وہ جنرل پرویز مشرف کی حمایت ہو، 2002ءمیں مشرف کو ریفرنڈم میں ووٹ دینا ہو اور پھر 2011ء کے بعد عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے باوجود بعض سلیکٹرز کے کہنے پر چلنا تو کبھی جنرل باجوہ کے۔ یہ سب کی سب ’نوبال‘ تھیں کیونکہ عوام کی اتنی پذیرائی کے بعد آپ کا اپنی سیاست پر کھڑا رہنا ہی اصل کارنامہ ہے۔ عمران کی کھیل کے میدان میں بھی اور سیاسی میدان میں بھی شہرت ایک ’فائٹر‘ کی رہی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ دو سال سے جیل میں ہے کسی اسپتال میںنہیں مگر سیاسی ’لائن اور لینتھ‘ ٹھیک کرنا ہوگی۔ بظاہر کوئی موثر تحریک چلانے کے امکانات معدوم پڑتے جارہےہیں۔ جیل سے کسی تحریک کے حق میں بیان تو جاری ہوسکتا ہے مگر اس سب کا دارومدار خان صاحب پر بھی ہوتا ہے۔ دیکھتے ہیں خان صاحب کا اگلا قدم یا بال صحیح جگہ پڑتی ہے یا پھر ’نو بال‘ ہوگی۔ رہ گئی بات ’شریفوں‘ کی یا شہباز شریف کی تو وہ ایک ’ہائبرڈ نظام‘ سے دوسرے ہائبرڈ نظام کاحصہ بن گئے ہیں۔ حال ہی میں اپنے پرانے دوست چوہدری نثار سے ملاقات سے یاد آیا۔ جنرل مشرف کا نام آرمی چیف کے طور پر پیش کرنا انہی دونوں کی کاوشوں سے تھا۔ یہ الگ بات کے مشرف کوہٹائے جاتے وقت میاں صاحب نے مشورہ نہیں لیا۔ ’ہائبرڈ نظام‘ اب ہمارے نظام کا حصہ ہے ۔