پروفیسر خالد اقبال جیلانی
واقعۂ کربلا تاریخ اسلام کا وہ روشن باب ہے جو ناصرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانیت کو رہتی دنیا تک عزم محکم دیتا رہے گا۔ انسانی تاریخ کے اوراق پر درج مختلف واقعات کے درمیان سانحۂ کربلا واحد ایسا واقعہ ہے کہ جس کی اثر پذیری میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔
تاریخ کا ہر ہر صفحہ اور ہر ہر جزو یہ اعلان کرتا ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی فکر ی اسا س ان آفاقی اصولوں اور الٰہی اقدار پر قائم ہے جو انسانی ذات کو ان اعلیٰ اقدار و صفات کا حامل بناتی ہیں کہ ’’ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‘‘
امام حسین ؓ کسی فرد یا شخصیت کا نام نہیں، بلکہ حسینؓ ایک مکتبہ فکر اور فلسفۂ حیات کا نام ہے جو زندگی کو بھی جینے کا ہنر سکھاتا ہے۔ امام حسین ؓ کو ایسے نظام فکرکے محور کی حیثیت حاصل ہے جو انسانیت کی بقاء کا ضامن ہے۔ امتِ مسلمہ ہر سال محرم الحرام کے مہینے میں شہادت ِحسین ؓ کی یاد مناتے ہوئے حسینی فکر و فلسفے کو اپنے ذہنوں میں تازہ کرتی ہے۔ شہادتِ امام حسینؓ کی یا د منانے کا یہ سلسلہ مذہب و ملت کے امتیازات سے ماورا ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ امام حسینؓ کی شہادت ہی کا اعجاز ہے کہ تہذیب و تمدن اور اعتقاد کی سطح پر ایک دوسرے سے مختلف افراد امام حسین ؓ کی شہادت اور واقعۂ کربلا کی یاد مناتے ہوئے اتحاد اور یکسانیت کی مثال بن جاتے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ واقعہ کربلا سے امن و اتحاد اور انسانی فلاح کا جو تصور وابستہ ہے، اس نے ہر دور میں جادۂ انسانیت کی جانب بنی نوع انسان کی ایسی رہنمائی کی جو اس کے افضل وا شرف ہونے کو دوام و ثبات عطاکرتا ہے۔
وہ نظام فکر جسے امام حسین ؓ اور آپ کے اصحاب و انصار اور اہل بیتؓ نے جاوداں بنادیا،اس کے وہ کیا اوصاف ہیں کہ جن پر گردش لیل و نہار کی گرد اثر انداز نہیں ہوتی؟ حقیقت یہ ہے کہ کربلا کی خونِ حسینی میں بھیگی ریت کا ذرہ ذرہ آج تک یہ بات پکار پکارکر کہہ رہا ہے کہ فکر حسینی کی بنیادیں اس آخری وحی کی تعلیمات پر استوار ہوئیں، جو قرآن کی شکل میں آپؓ کے نانا حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر نازل ہوئیں۔
حضرت امام حسینؓ نے اپنے قول و عمل سے اپنی فکری صفات کو اس قدر استحکام و دوام عطا کر دیا کہ رہتی دنیا تک حق و صداقت کی فضیلت پر کسی باطل قوت کو غلبہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ یزید کے طلب بیعت پر انکار کرتے ہوئے امام حسین ؓ نے جو تاریخی جواب دیا ،وہ یہ واضح کرتا ہے کہ امام حسین ؓ کی بصیرت افروز نظروں میں ان تما م زمانوں کے آثار و احوال روشن تھے جن سے گزر کر کاروان انسانیت اپنی منزل آخر سے ہمکنار ہوگا۔
امام حسین ؓ نے یزید کے مطالبے کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ ’’ مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت کبھی نہیں کر سکتا‘‘ امام حسین ؓ کا یہ جواب واقعہ کربلا کو ان آفاقی انسانی صفات سے متصف و مزین کرتا ہے جو زمان و مکان کی حدود سے ماوراء اور بالاتر ہیں۔
امام حسینؓ کے اس جواب نے یہ بھی واضح کر دیا کہ انسانی تاریخ کے کسی بھی دور میں جب بھی یزیدی افکار تخت و تاج اور لشکر و سپاہ کے زعم میںحقانیت اور انسانیت کو مغلوب و مرعوب کرنے کی کوشش کریں گے تو فکر حسینی کے حامل اور اس پر عمل پیرا افراد اپنے عزم و عمل سے اس کوشش کو ناکام بنا دیں گے۔ اس زمین پر انسانی زندگی کو فلاح و کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے امام حسین ؓ نے سر زمین کربلا پر جس نظامِ فکر کی بنیاد رکھی، اس کی معنویت اور اہمیت ہر دور میں قائم رہے گی۔
آج کی دنیا میں انسانی زندگی اتنے پیچیدہ مراحل اور جاں گسل آزمائشوں ، شور شوں اور سازشوں سے گزر رہی ہے کہ اس میں راہ حق پر ثابت قدم رہنا ایک سخت ترین امتحان بن گیا ہے۔ انسان نے اپنی ذہانت اور ذکاوت کی مدد سے ان منزلوں کو سر کر لیا ہے جو اس کے لئے آسائش، آسودگی، سہولت، آسانی، فاصلوں کو قربتوں اور مہینوں کو لمحوں میں سمیٹ کر رکھ دینے کے اسباب مہیا کرنے میں معاونت کرتی ہیں۔ اس ترقی سے یکسر کنارہ کشی اختیار کر کے زندگی گزارنا ممکن نہیں، لیکن زندگی میں بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب ترقی کا یہ خمار اخلاقی و اقداری سطح پر انسان کو کمزور و مجبور بنا دیتا ہے۔
یہی وہ موقع ہوتا ہے جب حسینی نظام فکر انسان کو سہارا دیتا ہے، تاکہ وہ اس کشمکش حیات سے اپنی ذات کو محفوظ رکھتے ہوئے جادہ حق پر آگے بڑھتا رہے۔ اس سفر کے مختلف مراحل پر اسے ایسی دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے جو نفسیاتی اور جذباتی طور پر اس کے عزم سفر کو متزلزل کرتی ہیں۔
کبھی اس کی عقل و شعور اسے حق و صداقت سے انحراف کی ترغیب دیتے ہیں، کبھی اس کے اعزاء و اقارب راہِ حق پر اس کے عزم سفر کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں اور کبھی اس کے معاشرے کی وہ مقتدر شخصیات عرفان حق کے مرحلے کو پیچیدہ بناتی ہیں جنہیں دنیاوی جاہ وحشم اور حکومت و سلطنت تو حاصل ہے لیکن اس جاہ وحشم میں انسانیت نوازی کا کوئی ایسا عنصر شامل نہیں ہوتا جو اتحاد و امن کے رجحان کو تقویت عطا کر سکے۔
حسینی نظام فکر کا پیروکار اپنی جان سے تو گزر سکتا ہے لیکن باطل قوتوں کو یہ موقع فراہم نہیں کر سکتا کہ وہ ان آفاقی، الہامی اور وحی کی تعلیمات پر مبنی اقدار کو پامال کر سکیں جن پر انسانیت کی بقا کا انحصار اور دارومدار ہے۔
حق و صداقت کی بقاء کا یہ جذبہ ہر اس انسان کے دل میں موجزن ہو سکتا ہے جو شہادت حسینی میں مضمر اس فلسفۂ حیات کا عرفان و شعور حاصل کر لے جس میں انسانیت کو ہر شے پر تقدم و فوقیت حاصل ہے۔
حسینی فکر نوع انسانی کو واضح طور پر یہی پیغام دیتی ہے کہ جب انسانیت پر ظالم و جابر قوتوں کا استبداد بڑھنے لگے تو انسانیت کی طرف داری میں صرف زبانی اظہار ہی کافی نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لئے کھلے میدان میں آنا پڑتا ہے۔
اس عظیم و مقدس مقصد کی حفاظت کے لئے اگر وطن چھوڑنا پڑے تو قدم پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے، اور وطن بھی وہ مقدس وطن جو دنیاکے تمام خطوں اور زمین کے ہر چپے سے زیادہ شرف و مرتبہ کا حامل ہو، جس وطن کی آغوش میں نانا کا روضہ ہو کہ جو ’’ ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر‘‘ کا مقام رکھتا ہو۔
جس مدینے کے گلی کوچوں سے اب بھی نبی مکرمﷺ کے انفاس صادقہ کی خوشبو آتی ہو، جب کوئی عظیم اور مقدس مقصد مرکز نگاہ بن جائے، جب نانا ﷺ کے لائے ہوئے دین ، آخری نظام حیات کی بقا کو خطرہ لاحق ہو، جب اسلام کا چہرہ مسخ کیا جارہا ہو ، جب قرآنی تعلیمات سے انحراف کیا جا رہا ہو تو پھر ریگ زار کر بلا میں پناہ لینا تو گوارہ ہو سکتا ہے لیکن حق و صداقت سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی جاسکتی۔
امام حسین ؓ نے اپنے اہل بیت ؓ اور اصحاب و انصار کے ہمراہ راہ حق میں جو قربانی دی اور جس جاں نثاری کا عملی مظاہرہ پیش کیا۔ اس کی متعدد معنوی جہات میں سے ایک نمایاں جہت یہ بھی ہے کہ حسینی نظام فکر کو اگر حرز جاں بنا لیا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت حق و صداقت پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتی۔ اس نظام فکر کو مشعل راہ بنا لینے والا حسینی کارواں ہمیشہ فتح مندی سے ہمکنار ہوتا ہے اور اس کا اقبال ہمیشہ بلند رہتا ہے۔