کوئی مانے یا نہیں، کرپٹو کرنسی آج کی دنیا کی بہت بڑی حقیقت ہےاور دنیا بھر میں اس کے ذریعے اربوں، کھربوں روپے کا لین دین ہوتا ہے۔ تاہم بہت کم ممالک ایسے ہیں جہاں اسے باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہے۔
اب پاکستان میں بھی ڈیجیٹل کرنسی کے بارے میں سرکاری موقف میں کچھ تبدیلی آچکی ہے، لیکن سرکاری سطح پر اسے عام کرنسی کی طرح قبول کرنے اور اس کی لین دین کو قانونی تحفظ دینے کا عندیہ تا حال نہیں دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس ضمن میں کی جانے والی ابتدائی کوشش کا سراغ تقریبا پانچ برس قبل ملتا ہے جب صوبہ خیبر پختون خوا نے دسمبر2020میں کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی اور مارچ2021 میں ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے تسلیم کیا تھا کہ ڈیجیٹل کرنسی کے بارے میں حتمی فیصلہ صرف وفاقی حکومت ہی کرسکتی ہے۔
پھر اُنّیس مارچ2021کو عالمی خبر رساں ادارے روئٹرز کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ صوبہ خیبرپختون خوا کی حکومت دو ہائیڈرو الیکٹرک پاورڈ پائلٹ 'مائننگ فارم قائم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے تاکہ گلوبل کرپٹو کرنسی مارکیٹ سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ یاد رہے کہ اس وقت تک پاکستان نے کرپٹو کرنسی پالیسی تشکیل دینے کے لیے ایک وفاقی کمیٹی بنا رکھی تھی۔
کبھی ہاں، کبھی ناں
اس سے قبل کے ایٍام پر نظر دوڑائیں تو2018 میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے، واضح طور پر کہا تھا کہ کرپٹو کرنسی کا استعمال غیر قانونی ہے اور کسی کوبھی اس میں لین دین کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان گلوبل فنانشل ایکشن ٹاسک بورس کی گرے لسٹ میں تھا۔
چناں چہ گلوبل منی لانڈرنگ واچ ڈاگ نے بھی اسلام آباد کو کرپٹو کرنسی کو ریگولیٹ کرنے کا کہا تھا۔ تاہم اس کے باوجود پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی مائننگ اور ٹریڈنگ کا رجحان بڑھ رہا تھا۔ ویب اینالیسٹکس کمپنی سیملر ویب کے مطابق پاکستان میں کرپٹو کی تجارت اور اس میں سرمایہ کاری کے لیے ڈاؤن لوڈ کی جانے والی دو ایپس اس وقت بھی بہت مشہور تھیں۔
جنوری2022میں پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے کاروبار پر غور کرنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر قائم کردہ کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ کرپٹو کرنسی کے خطرات فوائد سے زیادہ ہونے کی بنا پر اس پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ لیکن اس کرنسی کے حامیوں کا اس وقت بھی یہ کہنا تھا کہ کرپٹو کرنسی مستقبل میں استعمال ہونے والی کرنسی ہے جس پر پابندی سے پاکستان عالمی مارکیٹ میں مقابلے سے باہر ہو جائے گا۔
اُن دنوں ملک میں کرپٹو کرنسی کے ذریعے لین دین شروع کرنےکے بڑے حامی وقار ذکا کی ایک درخواست سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت تھی۔ انہوں نے اپنی درخواست میں اپیل کی تھی کہ حکومت اس کاروبار کو جائز قرار دے۔ ان کا کہنا تھا کہ کرپٹو کرنسی پر محض ایک کمیٹی کی سفارشات کے ذریعے پابندی نہیں لگائی جاسکتی، کیوں کہ یہ پابندی آئین سے متصادم ہوگی۔
دوسری جانب پاکستان کے مرکزی بینک نے اپریل 2018 میں جاری کردہ سرکلر میں کرپٹو کرنسی سے متعلق لین دین، خریدو فروخت اور تجارت کو ممنوع قرار دیا تھا۔ اس کے باوجود اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس وقت تک بعض اندازوں کے مطابق پاکستان میں کرپٹو کرنسی میں لین دین کرنے اور اس بارے میں مختلف اکاؤنٹس بنانے والے شہریوں کی تعداد نو لاکھ کے قر یب تھی۔
بڑھتامطالبہ، گزرتا وقت اور پھر دھماکا
وقت گزرتا رہا اورایک جانب کرپٹو کرنسی کے استعمال پر پابندی کی سفارشات تھیں تو دوسری جانب اس کاروبار سے منسلک افراد اسےجائز قرار دینےکا مسلسل مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ تاہم تاحال پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی ٹریڈنگ اور مائننگ لیگل گرے ایریا میں ہے۔ وفاقی حکام کو سرمایہ کاروں کے لیے اس شعبے کو باضابطہ طور پر کھولنے سے پہلے اسے قانونی حیثیت دینےکے لیے واضح فریم ورک فراہم کرنا ہوگا۔
پھر رواں برس فروری کی چھبّیس تاریخ کو اچانک بہت کچھ بدل گیا۔اس روز حکومت نے ڈیجیٹل کرنسی کے ریگولیٹری تقاضوں، مالی تحفظ، شفافیت اور پالیسی سازی کے لیے نیشنل کرپٹو کونسل بنانے کا فیصلہ کیا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کی زیرصدارت ڈیجیٹل کرنسی اور اثاثوں کے بارے میں اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں امریکی صدر ٹرمپ کے ڈیجیٹل اثاثوں کے مشیر، آئی کی وزارت کے وزیر مملکت، گورنر اسٹیٹ بینک اور دیگر حکام نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ حکومت بلاک چین ٹیکنالوجی کو مالیاتی شعبے میں ترقی کے لیے بروئے کار لانے کی غرض سے مختلف تجاویز کا جائزہ لے گی، ٹوکنائزیشن سے سرمایہ کاری کے مواقع بڑھیں گے اور کیپٹل مارکیٹ کو فروغ ملے گا۔ وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب نے کہا تھا کہ پاکستان کے20ملین سے زائد متحرک ڈیجیٹل اثاثوں کے مالک صارفین کو غیر ضروری بھاری فیسوں کا سامنا ہے۔
وزیر خزانہ نے ڈیجیٹل کاروبار کے فروغ اور شفاف قانونی فریم ورک کی تشکیل پر زور دیاتھا۔ وزارت خزانہ کا موقف تھا کہ ریگولیٹری تقاضوں، مالی تحفظ اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے جامع فریم ورک تیار کیا جائے گا اور حکومت نیشنل کرپٹو کونسل کے قیام پر غور کرے گی جو پالیسی سازی اور ضابطہ سازی میں معاونت فراہم کرے گی۔
اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ نیشنل کرپٹو کونسل حکومتی اداروں، ریگولیٹری اتھارٹیز اور انڈسٹری کے ماہرین پر مشتمل ہو گی۔ کرپٹو کونسل عالمی معیار کے ضوابط اور بین الاقوامی ڈیجیٹل معیشت کے مطابق بنانے کی تجویز دے گیاور ڈیجیٹل اثاثوں کے بارے مبں قومی مفادات، فیٹف گائیڈ لائنز اور عالمی مالیاتی اصولوں کے مطابق پالیسی مرتب کی جائے گی۔
پھر مارچ کے پہلے ہفتے میں وفاقی حکومت نے بلال بن ثاقب کو تازہ اعلان کردہ پاکستان کرپٹو کونسل میں وزیر خزانہ کا چیف ایڈوائزر تعینات کردیا ۔یاد رہے کہ وزارت خزانہ نے 25 فروری کو اعلان کیا تھا کہ وہ عالمی رجحانات کے مطابق ابھرتی ہوئی ڈیجیٹل کرنسیوں کو اپنانے کے لیے قومی کرپٹو کونسل قائم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ ایک سرکاری بیان میں کہا گیا تھا کہ وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے ایک غیر ملکی وفد کے ساتھ ڈیجیٹل اثاثوں کے بارے میں ملاقات کی جس میں صدر ٹرمپ کے ڈیجیٹل اثاثوں کے مشیر بھی شامل تھے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق حکومت نے بلال بن ثاقب کو پاکستان کرپٹو کونسل میں وزیر خزانہ کے مشیر کے طور پر مقرر کیا تھا۔واضح رہے کہ بلال بن ثاقب کو فوربز نے تیس سال سے کم عمر کی ان تیس شخصیات کی فہرست میں شامل کیاہےجو ویب3سرمایہ کار، اسٹریٹجک مشیر اور بلاک چین کی دنیا کے معروف راہ نما ہیں۔
کنگ چارلس سوم، آن جہانی ملکہ الزبتھ دوم اور میئر آف لندن نے کمیونٹی کے لیے خدمات کے اعتراف میں انہیں سراہا ہے۔ بلال بن ثاقب کو 2023 میں برطانوی وزیراعظم کی جانب سے پوائنٹس آف لائٹ ایوارڈ بھی دیا گیا تھا، جو ملک میں تبدیلی لانے والے لوگوں کو ان کی خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے لیے خدمات پر ایم بی ای (ممبر آف دی برٹش ایمپائر) کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔
ایک اور تیز رفتا رپیش رفت
پاکستان نے کرپٹو کرنسی کی دنیا میں ایک تاریخی قدم اٹھاتے مئی کے اواخر میں اپنے پہلے سرکاری حمایت یافتہ بٹ کوائن ریزرو کا اعلان کر دیا۔یہ اہم اعلان وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے بلاک چین اور کرپٹو اور پاکستان کرپٹو کونسل (پی سی سی) کے سی ای او بلال بن ثاقب نے کیا، جو بٹ کوائن ویگاس 2025 کے دوران سامنے آیا تھا۔
تقریب میں امریکاکے نائب صدر جے ڈی وینس، ایرک ٹرمپ اور ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر بھی شریک تھے۔ بلال بن ثاقب نے اس موقعے پر ڈونلڈ ٹرمپ کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا اور بھارت-پاکستان کشیدگی میں امن قائم کرنے اور کرپٹو اپنانے کی امریکی صدر کی کوششوں کو سراہا تھا۔
تقریب میں بلال بن ثاقب نے ایک قومی بٹ کوائن والٹ کے قیام کا بھی اعلان کیا، جو ایسے ڈیجیٹل اثاثے رکھے گا جو پہلے ہی ریاست کی تحویل میں ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے پہلے مرحلے میں بٹ کوائن مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سینٹرز کے لیے 2,000 میگاواٹ سے زائد بجلی مخصوص کرنے کا فیصلہ کیا، جو خود مختار مائنرز، ٹیک کمپنیز، اور بین الاقوامی بلاک چین فرمز کے لیے دروازے کھولے گا۔
ساتھ ہی پاکستان نے ڈیجیٹل اثاثہ جات اتھارٹی کے قیام کا بھی اعلان کیاتاکہ بلاک چین پر مبنی مالیاتی ڈھانچے کو ریگولیٹ کیا جا سکے اور کرپٹو کرنسی کے شعبے کو مزید مضبوط اور محفوظ بنایا جا سکے۔ یہ اقدامات پاکستان کو کرپٹو کرنسی کی عالمی معیشت میں ایک نمایاں مقام دلانے کے لیے اہم ثابت ہوں گے اور ملک کے ڈیجیٹل انقلاب کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں اب تقریباً40ملین کرپٹو والٹس موجود ہیں، اور یہ دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ فعال فری لانس معیشتوں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔
جولائی کی دس تاریخ کو پاکستان میں ڈیجیٹل معیشت کے فروغ اور ورچوئل اثاثوں کی مؤثر نگرانی کے لیے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد ورچوئل اثاثہ جات ایکٹ 2025کی توثیق کر دی۔ اس قانون کے تحت ملک میں پہلی بار پاکستان ورچوئل اثاثہ جات ریگولیٹری اتھارٹی (پی وی اے آر اے) کے قیام کی راہ ہم وار ہو گئی، جو ایک خودمختار وفاقی ادارہ ہوگا۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق نئی اتھارٹی کو ملک بھر میں ورچوئل اثاثوں سے وابستہ اداروں کو لائسنس دینے، ضوابط بنانے اور مکمل ریگولیٹری نگرانی کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس اقدام کو ڈیجیٹل اثاثوں کے شعبے میں پاکستان کے لیے ایک تاریخی سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے جو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) سمیت دیگرعالمی معیارات سے ہم آہنگ ہوگا۔
اس کے اگلے روز،یعنی جولائی کی گیارہ تاریخ کو وزیر مملکت اور پاکستان کرپٹو کونسل کے سی ای او بلال بن ثاقب کے حوالے سے خبر آئی کہ پاکستان میں موجود بٹ کوائنز کو قومی ذخیرے میں شامل کیا جائے گا اور ان سے ڈی سینٹرالائزڈ فنانس کے ذریعے آمدن حاصل کی جائے گی۔
بلال بن ثاقب کا کہنا تھا کہ ڈی فائی پروٹوکولز کے تحت پاکستان بغیر کسی بینکنگ سسٹم کے قرضہ جات اور مالی لین دین ممکن بنا سکے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایس ای سی پی مل کر ایک مضبوط اور محفوظ کرپٹو فریم ورک تشکیل دیں گے جو ملک میں ڈیجیٹل اثاثوں کے استعمال کو محفوظ، مؤثر اور قابل اعتماد بنائے گا۔
بلال بن ثاقب نے حال ہی میں عالمی شہرت یافتہ کرپٹو سرمایہ کار اور مائیکرو اسٹریٹیجی کے بانی مائیکل سیلر سے ملاقات کی ہےجس میں مائیکل سیلر کو پاکستان کے اسٹریٹجک بٹ کوائن ریزرو میں مشیر بننے کی پیش کش بھی کی گئی۔
یہ اقدام نہ صرف پاکستان کو ڈیجیٹل فنانس میں صف اول کے ممالک کی فہرست میں شامل کرے گا، بلکہ عالمی سطح پر کرپٹو انویسٹمنٹ کی حوصلہ افزائی اور ملکی معیشت میں بہتری کا ذریعہ بھی بنے گا۔ یاد رہے کہ 2024میں کرپٹو کرنسی اپنانے میں پاکستان دنیا بھر میں نویں نمبر پر رہاجو اس شعبے میں پاکستان کی تیز رفتار ترقی کا ثبوت ہے۔
آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹ جائیں؟
پاکستان میں اب تک کرپٹو کرنسی کا کاروبار غیر قانونی ہے۔ سرکاری حکام کو خدشہ ہے کہ ملک میں کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کے نام پر لوگوں کو کم مدت میں زیادہ منافع کمانے کی ترغیب دے کر پھانسا جا رہا ہے۔ اسی طرح ملک سے ناجائز پیسہ بھی غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کیا جا سکتا ہے یعنی منی لانڈرنگ بھی ہو سکتی ہے۔
پابندی کی ایک اور وجہ زرِ مبادلہ کے ذخائر کی ممکنہ طور پر بیرون ملک منتقلی بھی بتائی جاتی ہے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر کئی ممالک کرپٹو کرنسی پر پابندی عائد کر چکے ہیں جن میں چین، بنگلا دیش، مصر، مراکش، ترکی، نائجیریا، ویت نام، سعودی عرب، بولیویا اور کولمبیا شامل ہیں۔
تاہم بعض ماہرین کا موقف ہے کہ کسی بھی معاشی سرگرمی پر پابندی عائد کرنا جمہوری معاشرے کے لیے اچھا عمل نہیں اور نہ ہی ایسا کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی عمل کو قانونی شکل دینا اور پابندی عائد کرنا دو مختلف صورتیں ہیں۔پاکستان میں بہت سے کام قانونی نہیں لیکن ان پر پابندی بھی نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی اور کرپٹو کونسل جیسے ادارے مل کر بیٹھیں اور سوچیں کہ اس انڈسٹری کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے۔ امریکامیں کرپٹو سے ٹیکس کمایا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ کام کیسے کرنا ہے، یہ حکومت کو سوچنا ہو گا۔ لیکن کسی سے رائے لیے بغیر پابندی عائد کرنا غلط ہوگا۔
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا نہیں کہ کرپٹو میں صرف فراڈ ہی ہو رہا ہے، لیکن یہ ایک ہائی رسک انڈسٹری ضرور ہے۔ جیسے حصص بازار میں لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں، ویسے ہی کرپٹو میں بھی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ لیکن اپنی سمجھ اور استعداد کے حساب سے سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ لوگوں کو بتائیں کہ کرپٹو کرنسی کیا ہے۔
اس کا استعمال کیسے ہونا چاہیے۔ معلومات جتنی عام ہوں گی، دھوکا دینا اتنا ہی مشکل ہوگا۔ لوگوں کے لیے تربیت کا انتظام کریں تاکہ وہ اس سے پیسے کما سکیں۔بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں کرپٹو کرنسی کی اہمیت بڑھ جائے گی، کیوں کہ اس کے پیچھے جو ٹیکنالوجی کام کر رہی ہے اس کے کئی اور فوائد بھی ہیں۔
اس وقت تو لوگ صرف یہی سمجھتے ہیں کہ کرپٹو سے پیسے کمائے جا سکتے ہیں، لیکن آنے والے دنوں میں احساس ہو گا کہ کرپٹو صرف ٹریڈنگ کا نام نہیں۔ آنے والی ٹیکنالوجی بلاک چین پر منحصر ہوگی۔
بٹ کوائن جیسی کریپو کرنسیز کی ریگولیٹری نگرانی کا فقدان، اس کے علاوہ ان کی پیش کردہ گم نامی، انہیں منظم جرائم کی شخصیات اور سائبر چوروں کے لیے بہت پُر کشش بناتی ہے۔ کرپٹو کرنسی کو سمجھنے کے لیےایک نئی مالیاتی زبان سیکھنا شامل ہو سکتا ہے، نیز سرمایہ کاروں سے لے کرانتشار پسندوں تک، ہر ایک کے لیے ایک متوازی مالیاتی نظام کو تلاش کرنا شامل ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پے چیدہ موضوع کی چھان بین کرنےکے طریقے تو موجود ہیں، لیکن وہ بہت الجھاو والے ہیں۔ان الجھاو کی وجہ سے ہی کرپٹو کرنسیز کی لین دین اور تجارت پر نظر رکھنا بہت مشکل کام ہے،جسے اس شعبے کے بہت ماہر افراد ہی انجام دے سکتے ہیں، لیکن بعض مواقعے پر ان کے بھی ناکام ہوجانے کے بہت سے خطرات موجود ہیں۔
دراصل کرپٹو کرنسی ایک اصطلاح ہے جو بنیادی طور پر ورچوئل کرنسیز کی وضاحت کرتی ہےجسے آپ انٹرنیٹ پر ادائیگیوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔تیکنیکی طور پر آپ اسے آف لائن بھی استعمال کر سکتے ہیں، لیکن زیادہ تر اس سے مراد کواڈ کے ٹکڑوں سے ہوتاہے جو اس طرح استعمال کیے جا سکتے ہیں جیسے آپ کوئی سکہ یا بل یا ادائیگی کی کوئی دوسری شکل استعمال کریں گے۔
کرپٹو کرنسی کے باقاعدہ کرنسی اور باقاعدہ لین دین کے مقابلے میں چند فوائد ہیں۔ان میںسے ایک یہ ہے کہ آپ یہ ادائیگیاں کر سکتےہیں اور ضروری نہیں کہ آپ کو یہ ظاہر کرنا پڑے کہ آپ کون ہیں۔ بینک ٹرانزیکشن کے ساتھ اگر آپ بینک اکاؤنٹ کھولنے جاتے ہیں تو بینک کو آپ کا شناختی کارڈ دیکھتا ہے، وہ شاید آپ سے یہ بھی پوچھیں گے کہ آپ کو کس چیزکےلیے رقم کی ضرورت ہے۔
پھر اگر آپ اپنے بینک اکاؤنٹ میں بہت زیادہ رقم ڈالتے ہیں تو وہ شاید آپ سے پوچھیں کہ یہ کہاں سے آئی ہے۔چوںکہ کرپٹو کرنسیز تیکنیکی طور پر تھوڑا مختلف انداز میں کام کرتی ہیں اور ان پر کوئی ایک اختیار نہیں ہے، کوئی بینک جیسی چیز نہیں ہے جو اس لین دین کو کنٹرول کرتی ہوتو کوئی آپ سے کچھ نہیں مانگے گا۔اور یہ ہی بات کہیں کہیں بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
یہ آزادی انہیں ایسے گروہوںکےلیےبہت پُر کشش بناتی ہے جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ منظم جرائم یا سائبر جرائم کرنے والے انہیں اپنی اسکیمز میں استعمال کرتے ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کا عنصر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے لیے ایک خاص کشش رکھتاہے۔
اس سے مجرم کو یقین رہتا ہے کہ اگر وہ کرپٹو کرنسی استعمال کر رہا ہے تو وہ چھپا رہے گا۔ کیوں کہ افراد کو مخصوص کرپٹو کرنسی والٹس سے باندھنے میں بہت سی مشکلات ہیں یا یہ ثابت کرنا کہ ملٹی ملین ڈالرز کی منتقلی کسی خاص شخص کی طرف سے کی گئی تھی۔
ایک تفتیش کار جب روایتی مالیاتی جرم کی تفتیش کرتا ہے تو اسے ابتدا ہی میں یہ پتا چل جاتا ہے کہ روایتی بینک اکاؤنٹ کا مالک کون ہے، کیوں کہ اس کابہ راہ راست تعلق ہوتاہے۔پھر آپ کے پاس دستاویزات کاایک پورا سلسلہ تلاش کرنے کا موقع ہوتاہے جو کسی شخص کو بینک اکاؤنٹ سے جوڑتا ہے۔
لیکن کرپٹو کرنسی والٹ کے لیے ایسا کرنا واقعی بہت مشکل کام ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اگرچہ کرپٹو کرنسی کے بہت سے صارفین عام لوگ اور سرمایہ کار ہیں، لیکن یہ ایک مالیاتی نظام بھی ہے جو اپنے مالی معاملات کو چھپانے کی کوشش کرنے والوں میں مقبول ہے۔
چوںکہ بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسیز کو حکومتوں یا مرکزی بینکس کی حمایت حاصل نہیں ہے، اس لیے ان کی قدر میں بے لگام تبدیلیاں غیر معمولی نہیں ہیں۔ کرنسی کی مقبولیت میں زبردست اضافے نے بٹ کوائن کروڑ پتی بنائےاور ساتھ ہی بہت سے افراد بُری طرح لُٹ گئے۔ اسی لیے یو ایس سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین، گیری گینسلر نے کرپٹو کرنسی مارکیٹ کا وائلڈ ویسٹ سے موازنہ کرتے ہوئے اسے دھوکا دہی، اسکیندلز اور بد سلوکی سے بھرا ہوا نظام قرار دیاہے۔
آج بہت سے عالمی ماہرین کا یہ موقف ہے کہ کئی برسوں سےان کا یہ خیال تھا کہ مجرموں اور منظم جرائم سے وابستہ افراد کےلیےپیسہ صاف کرنے کا سب سے آسان طریقہ ریئل اسٹیٹ کا شعبہ ہے،لیکن وہ غلط تھے۔وہ کہتےہیں کہ کئی برس سےپیسہ سفید کرنے کا سب سے آسان طریقہ بٹ کوائنز ہیں،کیوں کہ جرائم پیشہ افراد اور چوروں نے ترقی کر لی ہے۔
جیسے ہماری زندگیاں ڈیجیٹل ہو گئی ہیں، اسی طرح ان گروہوں کا طریقہ کار بھی تبدیل ہوا ہے جو آپ کے اثاثے چرانا چاہتے ہیں۔ اور جو لوگ آن لائن کرنسی میں تجارت کرتے ہیں وہ اکثر قانون سازی کی نگرانی کی دائمی کمی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے حکام نے تھوڑی دیر کر دی ہے، یعنی کرپٹو کرنسی کو نہ صرف منی لانڈرنگ کےلیے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ کارڈ کا ڈیٹا حاصل کرنے،منشیات کی ا سمگلنگ اور دہشت گردی میں تعاون کے لیے بھی۔