• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بہ ظاہر تو کالعدم قرار دی گئیں بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں ہیں، مگر درحقیقت یہ بیرونی امداد کے ساتھ خاموشی سے ریاستِ پاکستان کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ مسافر بلوچستان میں سفر کررہے ہوں تو ان کی سانسیں خوف کے مارے سارا وقت گلے میں اٹکی رہتی ہیں۔ حال ہی میں ایک بس میں سفر کرنے والے پنجابیوں اور سندھیوں کو نکال کر قتل کردیا گیا جس سے پورے ملک میں خوف اور غصے کی لہر دوڑ گئی۔ آئیے اس سارے معاملے کا ماضیِ قریب کے جھرونکوں سے جائزہ لیتے ہیں۔

بھارت نے ہمیشہ پاکستان پر بنا ثبوت کے دہشت گردی کے الزامات عائد کیے اوربے بنیاد پروپیگنڈہ کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں پہلگام کے مقام پر 22اپریل کو دہشت گردی کے واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف بھارت نے جو شر انگیزیاں کیں اور چھوٹی سطح کی جنگ چھیڑی وہ عالمی امن کے لیے بہت خطرناک بات تھی۔

لیکن امریکا کی مداخلت کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان بالآخر جنگ بندی ہوگئی۔ لیکن اس کے چند ہی یوم بعد بلوچستان کے علاقے خضدار میں اسکول کی بس پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے کئی بچوں کو شہید اور زخمی کردیا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان دہشت گردی کا معاملہ پہلگام کی صورت میں ہی سامنے نہیں آیا۔ اگر ماضی میں جھانکا جائے تو یہ معاملہ کم و بیش تین دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان ایک تنازعے کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ ابتدا میں پاکستان پر بھارت میں دہشت گردی کے الزامات لگائے جاتے اور کہا جاتا رہا کہ پاکستان بھارت مخالف د ہشت گرد عناصر کو نہ صرف مدد فراہم کررہا ہے بلکہ کشمیر میں دہشت گردی میں بھی ملوث ہے۔

تاہم 2006کے بعدسےپاکستان نے بھی آگے بڑھ کر اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بہ راہ راست اور بالواسطہ طور پر بھارت کے ملوث ہونے کا الزامات عائد کیے۔ دونوں ملکوں کے پاس اپنے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے باقاعدہ ثبوت موجود ہونے کے دعوے بھی ہیں۔

بھارت2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث زندہ پکڑےگئےاجمل قصاب کا ذکر کرتا ہے تو پاکستان 2016 میں حراست میں لیے گئے بھارتی خفیہ ایجنسی، را، کے کمانڈر کلبھوش یادیو کو پیش کرتا ہے۔ اجمل قصاب اور کلبھوش یادیو میں بڑا فرق یہ ہے کہ، اجمل قصاب کا تعلق ایک نان اسٹیٹ ایکٹریا کالعدم تنظیم، لشکر طیبہ سے بتایا جاتا ہے، لیکن کمانڈر کلبھوشن یادیو تو بھارتی خفیہ ایجنسی را کا حاضر سروس افسر ہے، جس کی بھارتی شہریت کو بھارت باقاعدہ تسلیم کرچکا ہے۔

بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا ریکارڈ تو ممبئی حملوں کے بعد شرم الشیخ ، مصر، میں ہونے والی پاکستان کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور بھارت کے آں جہانی سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کے درمیان جولائی 2009 میں ہونے والی ملاقات کے بعد جاری پاک بھارت مشترکہ اعلامیے کا حصہ ہے، جس میں ایک طرف سے پاکستان کی طرف سے ممبئی حملوں کی تحقیقات کو جلد ازجلد مکمل کرکے ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بھارت کو یقین دہانی شامل ہے تو دوسری طرف بھارت کو بلوچستان کے معاملے پر مداخلت سے آگاہ کرنے کا اہم ترین حوالہ بھی موجود ہے۔ 

یعنی دہشت گردی کا مسئلہ صرف بھارت کو ہی درپیش نہیں بلکہ پاکستان کو بھی بلوچستان میں درپیش ہے۔ پاکستان کا سرکاری طور پر موقف رہا ہے کہ بھارت کی طرف سے بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ پہلگام کے واقعے کے بعد بی ایل اے کے ترجمان کا مختلف بھارتی ٹیلی ویژن چینلز پربہ راہ راست نمودار ہونا پاکستانی دعووں کو تقویت دیتا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارتی وزیراعظم واجپائی کے1998میں دورہ لاہور کے بعد کارگل کے واقعے، منموہن سنگھ کے ساتھ پرویز مشرف کے جامع مذاکرات کے بعد ممبئی میں دہشت گردی، پچیس دسمبر دوہزار پندرہ کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کے گھر لاہور آنے کے بعد ایک ہفتے میں، یعنی یکم اور دو جنوری2016کو پٹھان کوٹ کے واقعے میں ملوث عناصرنے دونوں ملکوں کے درمیان امن کے کاز کو نقصان پہنچایا۔

پاکستان میں11مارچ2025کو بلوچستان میں جعفر ایکسپریس ٹرین کو ہائی جیک کیا گیا اور تیس سے زائد مسافروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے میں کم وبیش تینتیس عسکریت پسند، جن کا تعلق بلوچستان لبریشن آرمی سے بتایاجاتا ہے، آپریشن میں مارے گئے۔ حیران کن طور پر پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے اس واقعے پر بھارت کی طرف سے کوئی مذمتی بیان کسی بھی سطح پر سامنے نہیں آیا۔

پاکستان میں اس معاملے کو اس لیے بھی سنجیدگی سے لیا گیا کہ پاکستان کو کچھ ایسے شواہد ملےجن میں افغانستان کی سرزمین کے اس دہشت گردی کےلیے استعمال ہونے کی بات سامنے آئی۔ اس وقت پاکستان کی حکومت نے وزارت خارجہ کے ذریعے ایک بیان بھی جاری کیا تھا جس میں پڑوسی ممالک، بالخصوص افغانستان اور بھارت کا ذکر موجود تھا۔ تاہم یہ بات واضح تھی کہ اس واقعے کے مقدمے میں بھارت یا بھارت میں موجود گروہوں کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔

اس سے قبل برطانوی اخبار’’ دی گارڈین‘‘ نے 4 اپریل 2024 کو ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ پر پاکستان میں ٹارگٹ کلنگز کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق، بھارتی حکومت نے2020سے پاکستان میں متعدد افراد کو نشانہ بنانےکے لیے خفیہ کارروائیاں کیں، جن میں زیادہ تر وہ افراد شامل تھے جو بھارت میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث سمجھے جاتے تھے۔ یہ کارروائیاں بھارتی وزیراعظم کے دفتر کی نگرانی میں کی گئیں۔ ان میں متحدہ عرب امارات میں قائم نیٹ ورکس کا استعمال کیا گیا۔ پاکستانی انٹیلی جنس حکام نے مالی لین دین اور مواصلاتی ریکارڈز کی بنیاد پر ان کارروائیوں کا سراغ لگایا۔

5 اپریل 2024کو، بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک انٹرویو میں کہا: ’’اگر کوئی دہشت گرد پڑوسی ملک سے آکر بھارت میں دہشت گردی کرتا ہے اور پھر پاکستان بھاگ جاتا ہے، تو ہم وہاں جا کر اسے ماریں گے ‘‘۔ یہ بیان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بھارت نے پاکستان میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی اپنائی ہے۔

کلبھوشن یاد
کلبھوشن یاد 

یہ انکشافات بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی کا باعث بنے اور بین الاقوامی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس سے قبل 21جون 2021 کو لاہور کے علاقے جوہر ٹاون میں لشکر طیبہ اور جماعت الدعوہ کے سابق سربراہ حافظ سعید کے گھر کے باہر ایک بم دھماکہ ہوا تھا جس میں کم و بیش تین افراد جاں بہ حق اور20 کے قریب زخمی ہوگئے تھے ۔ حافظ سعید کے گھر کو سب جیل قرار دیا جاچکا ہے اور وہ وہاں دس سال کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ حافظ سعید ممبئی حملوں کے کیس میں بھارت کو بھی مطلوب ہیں۔

پاکستان میں مبینہ بھارتی ٹارگٹ کلنگ کی لہرکے دوران حافظ سعید کے گھر کو نشانہ بنایا جانا غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس تناظر میں پنجاب پولیس کی طرف سے واقعے کی تحقیقات شروع ہوئیں جس میں پاکستانی کینیڈین. Peter Paul David گرفتار کیا گیاجس سے تفتیش کے بعد دبئی میں مقیم کچھ بھارتی باشندوں کے نام سامنے آئےجو واقعے میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔

اس وقت کے وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے اس واقعے میں بھارت کے ملوث ہونے کے بارے میں پریس کانفرنس بھی کی تھی۔ بعدازاں پاکستان اور بھارت کے درمیان 2023 میں اس وقت ایک پیش رفت ہوئی جب پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھارتی شہر گوا، میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے گئے۔ تاہم اس دورے میں دوطرفہ بات چیت نہ ہوئی، البتہ بلاول بھٹو نے بھارت میں بھارتی حکومت کے خلاف میڈیا کو انٹرویوز دیے، جسے بھارت میں ناپسند کیا گیا۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اس قدرکشیدگی کے بعد اکتوبر2024میں ایک مثبت تبدیلی یہ آئی کہ بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کےاجلاس میں شرکت کے لیے آئے۔ پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ نے ایک میز پر ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاکر شرکا کو حیران کردیا۔ اس غیر رسمی بات چیت میں کرکٹ کے زریعے بات چیت آگے بڑھانے پر بھی بات ہوئی، مگر اس دورے کے بعد بات آگے نہ بڑھ سکی۔ تاہم بھارت کی طرف سے اس دوران لائن آف کنڑول کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا جاتا رہا۔

بھارت کی اقتصادی ترقی کے بعد یہ بات واضح ہورہی تھی کہ وہ اب اپنے پڑوسیوں کو اہمیت نہیں دیتا بلکہ وہ پاکستان سے بات چیت کےلیے بھی تیار نہیں ہے۔ اس سارے پس منظر میں جب مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22اپریل 2025 کو دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوا تو یہ بات طے تھی کہ اب بھارتی حکومت، پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی کارروائی کرے گی اور ایسا ہوا بھی۔

مگر پہلگام کے واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت بھارت کے پاس موجود نہیں تھا اور نہ ہی اس بارے میں کوئی تحقیقات کی گئیں۔ حالاں کہ پاکستان نے نہ صرف اس واقعے کی بھر پور مذمت کی تھی بلکہ بھارت کو واقعے کی تحقیقات کے لیے غیر مشروط تعاون کی پیش کش بھی کردی تھی۔ اُدہر پہلگام میں دہشت گردی کے فوری بعدبھارتی میڈیانے تحقیقات کے بغیر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا دیا اور سب کچھ پلک جھپکتے ہی بدل گیا۔

اجمل قصاب
اجمل قصاب

یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جب بھی انسداد دہشت گردی کے بارے میں مذاکرات ہوں گے بھارت مقبوضہ کشمیر اور پاکستان بلوچستان کا معاملہ اٹھائے گا۔ بھارت پاکستان سے ماضی کی طرح داود ابراہیم، مولانا مسعود اظہر، حافظ سعید وغیرہ کی حوالگی کا مطالبہ کرے گا اور پاکستان کی طرف سے بلوچستان لبریشن آرمی کے بشیر زیب ، ترجمان جیند بلوچ اور دیگر کی حوالگی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ 

دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ ان نام زد ملزمان کا تبادلہ کریں یا نہ کریں، دونوں کو اس بات کی یقین دہانی کرانا ہوگی کہ وہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور خطے کی ترقی کے لیے انہیں باہم مل بیٹھ کر مسائل حل کرنا ہوں گے۔ 

مقبوضہ کشمیر میں یکم اپریل 2019 سے 30اپریل 2025 کے درمیان ہونے والے بڑے دہشت گرد حملے:

2019: 14فروری – پلوامہ حملہ:جیش محمد کے خودکش حملہ آور نے سی آر پی ایف کے قافلے کو نشانہ بنایا، 40 اہلکار شہید ہوئے۔

29اکتوبر – کولگام قتل عام: حزب المجاہدین کے شدت پسندوں نے سات بنگالی مزدوروں کو قتل کیا۔

2022: 6مارچ – سری نگر بم حملہ:ایک مصروف مارکیٹ میں گرنیڈ حملہ، 2 شہری جاں بحق، 24 زخمی۔

2023: 21 جنوری – راجوری حملے: ہندو برادری کو نشانہ بنایا گیا، 6 شہری ہلاک، جن میں دو بچے بھی شامل تھے۔

13ستمبر – اننت ناگ مقابلہ5بھارتی اہلکار، بشمول کرنل، میجر اور ڈی ایس پی شہید ہوئے۔ دی ریزسٹنس فرنٹ نے ذمہ داری قبول کی۔

9:2024 جون – ریاسی حملہ: ہندو یاتریوں کی بس کو نشانہ بنایا گیا، 9 افراد جاں بحق، 41 زخمی۔ لشکر طیبہ پر شبہ۔

22:2025اپریل – پہلگام حملہ: دہشتگردوں نے سیاحوں پر حملہ کیا، 26 شہری ہلاک ہوئے۔

13مئی – شوپیاں آپریشن: شاہد کٹہ، لشکر طیبہ کا اہم کمانڈر مارا گیا۔

بلوچستان میں یکم اپریل 2019 سے 30 اپریل 2025 کے درمیان ہونے والے بڑے دہشت گرد حملے: 

12:2019 اپریل – کوئٹہ بم دھماکہ: ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا، 22 افراد جاں بحق۔

18 اپریل – اورماڑہ حملہ: بلوچ شدت پسند تنظیم بی آر اے ایس نے 14 مسافروں کو بس سے اتار کر قتل کیا۔

24:2021 مارچ و 21مئی – چمن بم دھماکے: مجموعی طور پر 9افراد ہلاک، 27 زخمی، تحریک طالبان پاکستان نے ایک حملے کی ذمہ داری لی۔

2022: 2 فروری  – پنجگور و نوشکی حملے: بلوچ نیشنلسٹ آرمی نے ایف سی کیمپوں پر حملہ کیا، 9 اہلکار شہید، 20 شدت پسند ہلاک۔

29:2023 ستمبر – مستونگ دھماکہ:عید میلاد النبی کے جلوس پر خودکش حملہ، 60سے زائد افراد جاں بحق، داعش پر شبہ۔

7:2024 فروری – الیکشن ڈے دھماکے: پشین و قلعہ سیف اللہ میں حملے، 30 افراد جاں بحق، داعش نے ذمہ داری قبول کی۔

20 مارچ – گوادر پورٹ حملہ: بلوچ لبریشن آرمی نے حملہ کیا، 2 اہلکار شہید، 8 شدت پسند ہلاک۔

9 نومبر – کوئٹہ ریلوے اسٹیشن دھماکہ: خودکش حملہ میں 32 افراد جاں بحق، 55 زخمی۔ بی ایل اے کی مجید بریگیڈ نے ذمہ داری لی۔

2025:مارچ – جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ: بی ایل اے نے 100 سے زائد افراد کو یرغمال بنایا، 30 شدت پسند، 21 شہری اور 4 سیکورٹی اہلکار جاں بحق۔

6 مئی – کچھی بم حملہ: فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، 7 فوجی شہید ہوئے