کراچی ایک مرتبہ پھر سوگ وار ہے۔ نظام کی تباہی نے اس شہر میں ہر شعبہ زندگی کو شدید طورپر متاثر کیا ہے، لہذا آئے روز کسی نہ کسی شعبے سے سانحے کی اطلاعات آتی رہتی ہیں۔ اس مرتبہ کراچی کے علاقے لیاری کے ایک حصّے، بغدادی، میں پانچ منزلہ عمارت منہدم ہونے کا نوحہ ہے۔
یہ سانحہ ایک مرتبہ پھر اہلِ کراچی کو بُری طرح جھنجھوڑ گیا ہے۔ اس وقت اہلِ کراچی کا جو حال ہے، اسے اشعار کی صورت میں بیان کرنے کے لیے اردو کے ممتاز شاعر محسن نقوی کی اس معروف غزل کا سہارا لینے کو دل کررہا ہے:
دل خون ہوا کہیں تو کبھی زخم سہہ گئے
اب حادثے ہی اپنی وراثت میں رہ گئے
کہنے کو ایک ساتھ ہی ڈوبا ہے قافلہ
کچھ عکس زیرِ آب مگر تہہ بہ تہہ گئے
پتّوں سے پھوٹتی ہیں ہواؤں کی ہچکیاں
پنچھی ہرے شجر سے عجب بات کہہ گئے
شاید وہ بام و در کو نہ سونے دیں عمر بھر
جو خواب گھر کی خاک میں پیوست رہ گئے
محسن غریب لوگ بھی تنکوں کے ڈھیر ھیں
ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے
اب ہر طرف سے پُھرتیاں دکھائی جارہی ہیں، لیکن کل تک راوی ہر طرف چین لکھتا نظر آرہا تھا۔ حالاں کہ خطرے کی گھنٹیاں بار بار بج رہی تھیں۔ اب سب کے کچّے چٹّھے کُھل رہے ہیں۔ اس سانحے کے بارے میں پولیس نےجو ابتدائی اطلاعی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ایس بی سی اے کے چھ افسران سمیت چودہ افراد اس سانحے میں قصور وار ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمارت کے خستہ حال ہونے سے متعلق ایس بی سی اے کے افسران کو 2022 سے علم تھا۔پولیس رپورٹ کے مطابق1986میں مالک نے دو حصوں پر مشتمل زمینی منزل کے علاوہ پانچ منزلہ عمارت تعمیر کی تھی، کافی عرصے سے عمارت کے دونوں حصے خستہ حال اور ناقابل رہائش تھے۔
عمارت کے خستہ حال ہونے سے متعلق ایس بی سی اے کے افسران کو 2022 سے علم تھا اور بیس فلیٹس پر مشتمل عمارت کا ایک حصہ ایس بی سی اے کے افسران کی مجرمانہ غفلت کے باعث گرا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معلوم ہونے کے باوجود ایس بی سی اے کے افسران نے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے اور غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جس کے باعث عمارت گری۔
پولیس رپورٹ میں ایس بی سی اےکے چھ ڈائریکٹرز سمیت 14 ملزمان کو قصور وار قرار دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ چار جولائی 2025 کوہونے والے اس سانحے میں ستّائیس ا فراد جاں بہ حق اور چار زخمی ہوئے تھے۔
چند یوم میں سب پتا چل گیا
پرانے لوگ کہہ گئے ہیں کہ حکومت خوا ہ کتنی ہی کم زور ہو، اگر وہ چاہے تو طاقتور ترین مجرموں کو بھی محض چند گھنٹوں میں پاتال سے باہر لاسکتی ہے۔ ایسا ہی اس معاملے میں بھی ہوتا نظر آرہا ہے۔ اب برسوں کے کام چند یوم میں ہوتے نظر آرہے ہیں۔
وہ ساری فائلزجو برسوں سے گرد کی دبیز تہوں میں دبی ہوئی تھیں باہر آچکی ہیں، وہ ساری دفعات جو برسوں پہلے لگ جاتیں تو یہ شہر کئی سانحات سے بچ جاتا، وہ اب قانون کی کتابوں سے پولیس کی رپورٹ میں درج کی جاچکی ہیں، وہ لوگ جو قانون کے ساتھ کھیلواڑ کرکے برسوں سے’’مال‘‘ بنارہے تھے اب سامنے لائے جارہے ہیں۔ کاش ایسا پہلے ہوجاتا تو نہ جانے کتنے بے گناہ اس طرح ملبے تلے دب کر مرنے سے بچ جاتے۔
اب یہ خبریں آرہی ہیں کہ لیاری میں پانچ منزلہ عمارت منہدم ہونے کے مقدمے میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کےبارہ افسران اور عمارت کے مالک کو گرفتار کرلیا گیا ہے، ملزمان کے خلاف قتلِ خطا اور مجرمانہ غفلت کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیاہے۔
ڈی آئی جی ساؤتھ زون کراچی، سید اسد رضا کے مطابق یہ گرفتاریاں چار جولائی کو لیاری مارکیٹ کے علاقے میں بغدادی پولیس کی حدود میں ایک بوسیدہ پانچ منزلہ عمارت کے منہدم ہونے کے بارے میں ایف آئی آر کے اندراج کے بعد کی گئی ہیں جس میں خواتین اور بچوں سمیت27افراد جاں بہ حق اور چار دیگر زخمی ہوئے تھے۔
سید اسد رضا کے مطابق لوکل گورنمنٹ اینڈ ہاؤسنگ، ٹاؤن پلاننگ ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر کی شکایت پر درج کی گئی ایف آئی آر میں ( ایس بی سی اے کے ) 12 افسران اور عمارت کے موجودہ مالک کو نام زد کیا گیا ہے۔ نام زد ملزمان میں سے ایس بی سی اے کے 12 ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز کو گرفتار کر لیا گیاہے اور ایک عہدےدار کو بیماری کے باعث گرفتار نہیں کیا گیا۔ عمارت کے مالک رحیم بخش خاصخیلی کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایس بی سی اے کے اہل کاروں کو ان کے ہیڈ آفس، واقع سوک سینٹر سے گرفتار کیا گیا جہاں انہیں ایک انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے لیے بلایا گیا تھا تاکہ عمارت کے انہدام کی وجوہات کے بارے میں اپنا موقف پیش کر سکیں۔ یاد رہے کہ اس سانحے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے کمشنر کراچی کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے اپنی کارروائی شروع کر دی تھی۔
اس کمیٹی کا اجلاس چند یوم قبل وزیراعلیٰ ہاؤس میں بھی منعقد ہوا تھا۔ اس کمیٹی کے ایک رکن نے ایس بی سی اے سے کہا تھا کہ وہ لیاری، ضلع جنوبی کے متعلقہ عہدے داروں کو جمعرات دس جولائی کو سوک سینٹر میں اپنے صدر دفترمیں ایک میٹنگ کے لیے بلائے۔
اطلاعات کے مطابق پولیس پارٹی ایس بی سی اے کے ہیڈ آفس پہنچی اور انتظامیہ کو بتایا کہ عمارت کے انہدام کے کیس کی تحقیقات کے لیے ایس بی سی اےکے افسران کی حراست درکار ہے۔پولیس افسران نے یہ بھی دلیل دی کہ انہیں افسران کو حراست میں لینے کے لیے ’’اوپر‘‘ سے ہدایات ملی ہیں۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق لوکل گورنمنٹ اینڈ ہاؤسنگ ٹاؤن پلاننگ ڈیپارٹمنٹ سندھ کے سیکشن آفیسر اور مدعی حماد اللہ نے کہا کہ فوٹا مینشن کی عمارت 527.3 مربع گز پر پھیلی ہوئی تھی اور اسے 1986 میں تعمیر کیا گیا تھا۔
اس کے مالک نے پانچ منزلہ پلس گراؤنڈ فلور کی عمارت کو دو حصوں میں تعمیر کیا تھا اور کافی عرصے سے دونوں حصے (عمارتیں) خستہ حال اور ناقابل رہائش تھیں۔ دونوں میں سے ایک عمارت، جس میں20فلیٹ تھے، 4جولائی کو ایس بی سی اے کے اہل کاروں اور مالک کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے منہدم ہوگئی، جس کے نتیجے میں 27 افراد کی جانیں چلی گئیں۔
ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق، ایس بی سی اے کے اہل کاروں کو عمارت کی خستہ حالی کے بارے میں معلوم تھا اور2022سے2025تک 6 ڈائریکٹرز یعنی سید آصف رضوی، سید ضرغام حیدر، سید عرفان حیدر نقوی، اشفاق حسین، جلیس صدیقی اور فہیم مرتضیٰ اور دیگر نام زد افسران کو4جولائی2025کو عمارت کے منہدم ہونے تک اس کی خستہ حالی کے بارے میں علم تھا، لیکن مذکورہ افسران اپنی سرکاری ڈیوٹی انجام دینے میں مکمل طور پر ناکام رہے اور غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا اور کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے۔
مذکورہ اہل کاروں نے دانستہ طور پر سرکاری ریکارڈ میں یہ ذکر نہیں کیا کہ مذکورہ عمارت خستہ حال تھی۔ ان کی غفلت کی وجہ سے عمارت کا ایک حصہ منہدم ہو گیا اور 27 افراد کی جانیں چلی گئیں۔ عمارت کے موجودہ مالک رحیم بخش خاصخیلی اور دیگر نامعلوم مالکان کو بھی معلوم تھا کہ عمارت انسانوں کے لیے قابل رہائش نہیں ہے۔ اس کے باوجود مالکان نے ہندو برادری کے افراد کو کئی فلیٹ کرائے پر دیے اور غفلت کا ارتکاب کیا۔
مدعی نے کہا کہ وہ ایس بی سی اے کے اہل کاروں اور عمارت کے مالکان کے خلاف قانونی کارروائی چاہتے ہیں۔ پولیس نے مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 322، 337-اے (i)، 288، 427، 217، 218 اور 34 شامل کی ہیں۔
خطرے کی گھنٹیاں بہت پہلے سے بج رہی ہیں
چودہ دسمبر2023 کو سندھ ہائی کورٹ میں غیر قانونی تعمیرات کے بارے میں ایک مقدمہ زیرِ سماعت تھا۔ اس سماعت کے دوران ایک مرحلہ ایساآیاکہ سندھ ہائی کورٹ نےایس بی سی اے کے افسران کے شناختی کارڈز بلاک کرنے کا حکم جاری کردیا تھا۔
یہ حکم کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کی مبینہ سرپرستی پرجاری کیا گیا تھا۔ اس سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ نے متعدد احکامات کے باوجود شہر میں غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ نہ رکنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔
عدالت عالیہ کی جانب سے متعدد احکامات کے باوجود شہر میں غیرقانی تعمیرات کا سلسلہ جاری رہنے پر آئے روز ڈی جی ایس بی سی اے اور افسران پرعدالت کی جانب سے برہمی کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ لہذا مذکورہ سماعت کے موقعے پر عدالت نے افسران کی سرزنش کرتے ہوئے شناختی کارڈ بلاک کرنے کا حکم جا ری کیا تھا۔
سماعت کے دوران کہا گیا کہ ایس بی سی اے کے افسران اپنا قبلہ درست کر نے کے بجائے غیرقانونی تعمیرات اور قانونی تعمیرات کرنے والوں سے بھی مبینہ طور پررشوت وصول کرنے کاسلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس وقت بھی کراچی میں غیرقانونی تعمیرات پر عدالت عالیہ کی جانب سے مسلسل سخت برہمی کا اظہار کیا جا رہا تھا اور ڈی جی ایس بی سی اے کو تواتر کے ساتھ عدالت کی جانب سےسخت ریمارکس کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، لیکن ایس بی سی اےکے افسران اپنا قبلہ درست کرنے کے بجائے عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑاتے ہو ئے مبینہ طور پر غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی کرتے دکھائی دے رہے تھے۔
ان دنوں ضلع وسطی میں لیاقت آباد ، ناظم آباد، نارتھ کراچی ، نیوکراچی ، فیڈرل بی ایریا کے مختلف بلاکس میں اندھا دھند غیرقانونی تعمیرات کی جا رہی تھیں اور عدالت عالیہ کی جانب سے مسلسل ضلع وسطی میں غیرقانی تعمیرات کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ہدایت جا ری کی جا رہی تھیں، لیکن ایس بی سی اے کے افسران عدالتی احکامات کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں تھے۔
ایس بی سی اے کے کچھ افسران تو قانونی طور منظور شدہ نقشوں کی منظوری کے باوجود مبینہ طور پر رشوت وصول کررہے تھے جس کی وجہ سے قانونی طور پر تعمیرات کر نے والے شہریوں کو بھی مبینہ طور پر رشوت دینا پڑرہی تھی۔
اسی طرح ضلع شرقی میں بھی غیرقانونی تعمیرات کا سلسلہ بڑے پیما نے پر جاری تھا، خصوصا ایڈمن سوسائٹی اورپی ای سی ایچ سوسائٹی میں دوسو سے زائد غیر قانونی تعمیرات جا ری تھیں جس کی مبینہ طور پر مکمل طور پر سرپرستی ایس بی سی اے کے افسران کرر ہے تھے۔ اسی طرح اسکیم تینتس میں بھی غیرقانونی تعمیرات جا رہی تھیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کی جانب سے عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے، غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن میں ٹال مٹول اور سست روی اختیار کرنے پر ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹرکے خلاف یہ حکم جاری کیاتھا۔عدالت نے ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر ضلع شرقی اور وسطی کے شناختی کارڈز نمبر بھی نوٹ کرلیے تھے۔
جسٹس ندیم اختر نے ریمارکس دیےتھے کہ غیر قانونی تعمیرات مسمار کرنے اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرنے تک ایس بی سی اے افسران کے شناختی کارڈز بلاک رہیں گے۔ جسٹس ندیم اختر نے کہا تھا کہ بار بار احکامات اور تنبیہ کے باوجود ایس بی سی اے کے افسران ٹس سے مس نہیں ہوتے، شہر بھر میں غیر قانونی تعمیرات میں سب سے بڑا ہاتھ ایس بی سی اے کا ہے۔
انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہاتھا کہ عدالت نے رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمیوں کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا تھا، عدالت نے رہائشی علاقے میں قائم دس پرائیویٹ اسکولز اور39دکانوں کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا ہے۔اس سماعت میں ایس بی سی اے کی جانب سے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی گئی تھی کہ بنگلوز کی زمین پر قائم دس پرائیویٹ اسکولز اور39دکانوں کو سیل کردیا گیا ہے۔
عدالت نے اسکول ڈی سیل کرنے کا آپریشن روکنے سے متعلق اسکول مالکان کی استدعا مسترد کردی تھی۔ واضح رہےکہ الرحمان ولاز اسکیم33 گلزار ہجری میں رہائشی زمین پر تجارتی سرگرمیوں کے خلاف عاطف ظفر نامی شہری نے درخواست دائر کی تھی جس پر جسٹس ندیم اختر نے سماعت کی تھی۔
پھر چودہ نومبر 2024 کو بھی سندھ ہائی کورٹ میں اسی نوعیت کے ایک مقدمے کی سماعت ہوئی تھی جس میں عدالت نے کراچی کے علاقے ناظم آباد میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف دائر درخواست پر جواب طلب کر لیا تھا۔ دورانِ سماعت جواب جمع نہ کرانے پر عدالت نے ایس بی سی اے کے حکام پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیس ایک سال سے زیرِ التواء ہے، ایک ہفتے کی مہلت کے باوجود بھی جواب جمع نہیں کرایا گیا؟ جسٹس ظفر احمد راجپوت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمارت تعمیر ہو جائے گی تو آپ جواب جمع کرائیں گے کہ عمارت غیر قانونی ہے اور یہ جواب جمع کرائیں گے کہ رہائشیوں کو عمارت خالی کرانے کے لیے نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب اگر مہلت دیں گے توایک دن کے25ہزار جرمانے کے حساب سے وقت دیا جائے گا۔ جس پر ایس بی سی اے کے حکام نے جواب جمع کرانے کے لیے دو دن کی مہلت مانگ لی تھا۔ عدالت نے ایس بی سی اے کےحکام کو18نومبر تک جواب جمع کرانے کی مہلت دیتے ہوئے 50ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
یہ 23نومبر 2024کی بات ہے۔ سند ھ ہائی کورٹ نے برنس روڈکے قریب رہائشی علاقے میں کمرشل سرگرمیوں کے خلاف درخواست پر نوٹس کی تعمیل نہ کروانے پر ایس بی سی اے کے حکام پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ عدالت نے ڈپٹی ڈائریکٹر ایس بی سی اے کو فوری طلب کیا تھا جو عدالت میں پیش ہوئے اور نوٹس کی تعمیل کی تصاویر پیش کیں۔
وکیل ایس بی سی اے نے عدالت کو بتایا کہ جب بھی نوٹس کی تعمیل کے لیے گئے تو دروازہ بند ملا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر مکان مالک نہیں ملا تو نوٹس کی تعمیل کی رپورٹ جمع کرائیں۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ یہ نوٹس آج صبح نو بجے چسپاں گیا ہے۔ ایس بی سی اے کے وکیل نے کہا کہ نوٹس پہلے لگایا تھا، اخبار کے ساتھ تصویر پیش ہے جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اخبار تو1947کا لگا دیں، اخبار کا کیا ہے۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ عمارت کے اندر دیواریں مسمار کرکے ہال بنا دیا گیا ہے، عمارت پہلے ہی پرانی ہے، عمارت کو مزید کم زور کردیا گیا ہے ۔ عدالت نے ڈائریکٹر ایس بی سی اے جنوبی کو توہین عدالت کی درخواست پر بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر قوانین کی خلاف ورزی پر کارروائی نہ کی گئی تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں گے۔ عدالت نے دیگر فریقین کو نوٹس ایس ایچ او آرام باغ کے ذریعے تعمیل کرانے کا حکم دیتے ہوئے تین ہفتوں میں فریقین سے جواب طلب کرلیا تھا۔
یہ کھیل پچّیس برس سے جاری ہے
چیئرمین آباد حسن بخشی کے مطابق کراچی میں 600 کے قریب ایسی عمارتیں ہیں جنہیں خطرناک قرار دیا جاچکا ہے۔ یہ وہ عمارتیں ہیں جو1940یا 1950 کے عرصے میں بنی تھیں۔ ان میں جو لوگ رہائش پذیر ہیں ان میں سے زیادہ تر پگڑی پر ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب اس طرح کی عمارتیں خطرناک ڈکلیئر ہوتی ہیں تو ان کے مالک کو انتظار ہوتا ہے کہ یہ عمارت منہدم ہو اور انہیں پلاٹ ملے۔
تاہم جو اس بلڈنگ میں رہائش پذیر ہوتے ہیں ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ان کے پاس کوئی متبادل ٹھکانہ نہیں ہوتا، وہ بے یارو مددگار ہوتے ہیں۔ اس تمام صورت حال کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم نے سندھ حکومت کو تجویز دی ہے کہ ایک قانون بنائیں کہ جب بھی کوئی بلڈنگ خطرناک قرار دی جائے تو اس کے مالک کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ تین ماہ میں بلڈنگ کو منہدم کراکے دوبارہ سے بنوائے۔
اس دوران وہخاندان جو اس بلڈنگ میں رہائش پذیر ہوں انہیں عارضی جگہ فراہم کی جائے اور جب بلڈنگ بن جائے تو ان ہی کو دوبارہ سے وہاں آباد کرکے ان سے کرایہ وصول کیا جائے۔ اگر خدانخواستہ کوئی خطرناک زلزلہ آتا ہے تو ہمیں اللہ نہ کرے خطرناک نتائج دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
یہ جو بلڈنگزبن رہی ہیں انہیں بنوالے والے کرمنلز اور مافیاز ہیں یہی وجہ ہے کہ جو ریگولر اتھارٹی ہے وہ دوسری طرف دیکھنے پر مجبور ہے اور لوکل اتھارٹی انہیں روکتی نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف ناقابل ضمانت ایف آئی آرزدرج ہونی چاہییں کیوں کہ یہ لوگوں کی جان و مال سے کھیل رہے ہیں اور یہ کھیل 25 سال سے چل رہا ہے۔
تیسرے نوٹس پر مُک مُکا
سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم زمان صدیقی حسن بخشی کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا کیا جانا چاہیے۔ تاہم آج ہماری گورننس کی جو صورت حال ہے اس میں واضح نظر آرہا ہے کہ ایسا ہو نہیں پائے گا، کیوں کہ اس سے متعلقہ ہمارے جو ادارے ہیں وہ سب کے ساتھ خاص سسٹم میں چلتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پیسے لو، مک مکا کرو اور آگے چلو۔
یہ کوئی پہلی بلڈنگ نہیں گری ہے اور جو باتیں آج کی جارہی ہیں وہ پہلی مرتبہ نہیں ہورہی ہیں۔ میں بھی جو باتیں کررہا ہوں وہ پہلی بارنہیں کررہا۔ اگر کوئی بلڈنگ مخدوش قرار دی جاتی ہے تو اس کا مک مکا تیسرے نوٹس تک ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہاں سے لوگوں کو نکالنے کی نوبت ہی نہیں آتی ہے اور اگر نکالا جائے تو ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ جو بلڈنگ گری ہے وہ گرنے سے چوبیس گھنٹے پہلے سے جھول رہی تھی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومت جو زمین غریب لوگوں کو دینے کے لئے مختص کرتی ہے وہ اٹھا کر بڑی بڑی سوسائٹیز کو دے دیتی ہے۔
تعمیرات میں انجینئرنگ کا استعمال ہی نہیں ہورہا
وائس چانسلر این ای ڈی یونیورسٹی، ڈاکٹر سروش لودھی کہتے ہیں کہ میرا پہلا سوال تو یہ ہے کہ یہ نوبت کیوں کر آئی کہ اتنی کم زور عمارتیں بن رہی ہیں جنہیں مخدوش قرار دیا جانے لگے۔ وجہ اس کی یہ بدقسمتی ہے کہ جو عمارتیں بن رہی ہیں ان میں انجینئرنگ کا استعمال ہی نہیں ہورہا اور عمارت کی حفاظت کے جو طرقیہ کار ہیں ان پر تو کہیں عمل ہی نہیں ہورہا، کیوں کہ اس وقت جو سسٹم کراچی میں موجود ہے اس کا پورے پاکستان کو پتا ہے کہ کیا ہورہا ہے۔
لیکن اس تمام کے باوجود نہ کوئی پوچھنے والا ہےاور نہ ٹوکنے والا۔ انسانی جان کی اس ملک میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس وقت بھی جو عمارتیں شہر میں بن رہی ہیں آپ جاکر دیکھ لیں ان کو کسی نے بھی قانونی طور پر اپروو نہیں کیا ہوا ہوگا۔ لیکن وہ بن رہی ہیں۔
اس وقت اصل مسئلہ لاء انفورسمنٹ اور ایمان دارنہ عمل درآمد کا ہے جس کی ذمےداری حکومت پر ہے اور جس کا اختیار حکومت نے جس ادارے کو دیا ہے اس کی یہ بدقسمتی ہے کہ اس ادارے نے یہ کام کرنا شروع کردیا ہے کہ وہ ایمان دارانہ عمل درآمد کے بجائے اپنے معاملات طے کرلیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلڈنگز کوڈ اور انجینئرنگ موجود ہے، لیکن کوئی اسے گھاس ڈالنے کو تیار نہیں۔
پورا شہر مخدوش عمارتوں سے بھرا ہوا ہے
ممتاز ماہرِ تعمیرات اورآرکی ٹیکٹ، یاسمین لاری کے مطابق کسی عمارت کا گرنا جس میں لوگ رہائش پذیر ہوں انتہائی افسوس ناک سانحہ ہے جسے ہونا ہی نہیں چاہیے تھا، کیوں کہ نہ کوئی سیلاب آیا تھا نہ زلزلہ۔ لیکن پھر بھی ایک بلڈنگ کا گرجانا ہماری اپنی کوتاہیوں کی نشان دہی کررہا ہے۔
یہ کوئی ایک بلڈنگ کامسئلہ نہیں ہے، یہاں تو پورا شہر مخدوش عمارتوں سے بھرا ہوا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ چند سو نہیں لاکھوں جانوں کو اس وقت خطرہ ہے۔ جس علاقے میں یہ سانحہ ہوا ہے وہ کافی پرانا علاقہ ہے اور وہاں بہت زیادہ اس طرح کی عمارتیں موجود ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایک دو زلزلے کے جھٹکے آگئے تو اللہ نہ کرے کتنی ہی عمارتیں گر سکتی ہیں۔