• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں زندگی ختم ہوجائے تو خبر بن جاتی ہے، لیکن جب مُردہ جسم دوگز زمین میں جانے کے بجائے گھر کی چہار دیواری میں ہفتوں گلتا سڑتا رہے اور کسی کو خبر بھی نہ ہو تو وہ خبر نہیں آئینہ ہوتی ہے، ایسا آئینہ جس کے عکس میں تعفن بھرا ہوتا ہے۔ روشنی کے شہر میں چمکتی دمکتی دنیا کے دو جنازے زمیں سے ایسے ہی اٹھے۔ 

اداکارہ عائشہ خان اور حمیرا اصغر جو کرداروں میں جیتی رہیں، اپنی ذات میں مرتی رہیں، جب دم توڑ گئیں تو ہفتوں کسی کو خبر نہ ہوئی،جب خبر آی تو تنہائی کی بُو ساتھ لائی، تدفین بھی ایسے ہوئی کہ، اٹھی جب میت تو رونے والوں میں کوئی اپنا نہ تھا۔

ان کے دنیا سے جانے کا منظر تماشہ نہیں، دُور تک دیکھیے، دیر تک سوچیے کہ یہ کیا ہوا ہے؟ خبر بریکنگ نیوز بنتے ہی اندھیرے میں ڈوبتے شہر کا منظر نامہ کسی عذاب سے کم نہ تھا، عذاب بھی ایسا کہ باہر وہ شور صدا بھی . نہ سن سکیں،گھر میں وہ سکوت کہ خود سے ڈر لگے۔ کہتے ہیں ’’دشت تنہائی‘‘ میں جینے کا سلیقہ بھی آنا چاہیے تاکہ شکستہ بام و در بھی ہم سفر ہوجائیں ،کیوں کہ تنہائی، خا موشی کی آہٹ سے بھی زیادہ خطر ناک ہو تی ہے۔ 

چاہتوں کے رشتے جو دوسروں کے اٹھائے ہوئے ایک سے بڑھ کر ایک اذیت سہہ لیتے ہیں، مگر اپنے ہاتھوں سے پھینکا ہوا، ایک پتھر بھی ان تاج محلوں کو مسمار کرنے کے لیے بہت ہوتا ہے، یہی کچھ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ عائشہ اور حمیرا کے ساتھ ہوا۔ دنیا کے اسٹیج پر ان کا آخری سین ’’تنہائی ‘‘ تھا ، گرچہ ان کی زندگی کی گُتھی تو موت کے بعد مزید الجھ گئی۔ 

لیکن ان کی موت نے خبردار کیا، ان سب کو جو تنہا رہتے ہیں کہ، خاندان سے کٹ کر، رشتوں سے منہ پھیر کر تنہا زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں اذیت ناک بھی ہوتی ہے ایک دو نہیں لا تعداد چہرے زندگی کی تلخیوں کے ساتھ والدین، بہن بھائی، رشتے داروں کے ہوتے ہوئے تنہا محو سفر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنوں کے ہوتے ہوئے تنہا کیوں؟ خاندانی نظام کیا ہوا؟ روایات، اقدار کہاں گم ہوگئیں؟ محلے داری کلچر کیا ہوا؟ ملاحظہ کریں زیر نذر مضمون میں۔

…………………………

یہ حقیقت پر مبنی گھونٹ گھونٹ زندگی کی ایسی ناقابل یقین تلخ داستان ہے جس کے ہر گھونٹ کا رنگ بھی مختلف ہے اور ذائقہ بھی، جس میں ست رنگی مٹھاس بھی ہے اور تلخی بھی۔ سگے رشتوں کے پلائے زخموں کی کڑواہٹ بھی ہے اور ارد گرد بسنے والوں کی بے رخی بھی۔

یہ سچ بیانی ہے ماڈل، اداکارہ اور سوشل ورکر ’’حمیرا اصغر‘‘ کی، فائن آرٹس میں ایم فل کرنے کے بعد وہ کینوس پر جب بھی رنگ بکھرتی ایک ایسی تصویر ضرور بن جاتی جو اس کی زندگی کے پہیے کو آگے بڑھانے میں مددگار ہوتی۔ بکھرے رنگ اس کی زندگی میں خوشیوں کی چغلی کھاتے رہے۔

ایک دن اپنے باپ کا اسکیچ بنایا، اس کے بعد کینوس سے رنگ غائب ہوگئے اور سارے رنگوں پر اندھیرے کا سایہ پڑ گیا۔ اس کی زندگی کی ڈور ٹوٹ گئی، لیکن اس کی اپنی تصویر ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز بن کر کچھ اس طرح منظر عام پر آئی کہ نہ صرف صبح سے شام تک ’’ہاٹ خبر‘‘ بن کر چھائی رہی بلکہ اس کا دورانیہ بڑھتا ہی گیا۔ 

چینلز پر چیختی دھاڑتی آوازوں کے باوجود گہرا سناٹا تھا، لگتا تھا جیسے زمین کے اوپر آسمان کے نیچے تمام آوازوں کی موت واقع ہوچکی اور جیسے ساری دنیا ایک وسیع و عریض قبرستان میں تبدیل ہوگئی۔ اسکرین پر شور مچاتی آوازیں کم ہوئیں تو مُردہ دل لوگوں کی آوازیں اس طرح گونجتی سنائی دیں جیسے جنت اور دوزخ میں داخلے کا اختیار ان کے ہاتھوں میں آگیا۔

حمیرا اصغر اسکیچ بناتے، تصاویر میں رنگ بھرتے بھرتے زندگی میں رنگ بھرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس نے اپنی تعلیم سے ایک رشتہ بنایا تھا کئی رشتوں کو مٹا کر، لیکن اسے بھی ادھورا چھوڑ کر قبر میں چلی گئی۔ گرچہ موت کو گلے تو اس نے نو ماہ قبل لگا لیا تھا، لیکن اس کی خبر اپنوں کو ہوئی نہ ارد گرد بسنے والوں کو اور نہ ہی اس کی چمکتی دنیا کے ساتھیوں کو۔

اس کے گھر کا دروازہ توڑا گیا تو وہ تنہا اپنے کمرے کے فرش پر اوندھے منہ پڑی تھی۔ ادھورے ادھورے، مٹے مٹے سے نقش گواہی دے رہے تھے کہ یہ ایک انسانی لاشہ ہے۔ اس کی لاش نے اسے خبر بنا دیا اور معاشرے پر فرد جرم عائد ہو گئی، اس کے بعد خبروں کا جو طوفانی ریلا آیا، وہ منٹوں میں مشرق سے مغرب تک پھیل گیا۔ 

جھوٹ سچ کا ایسا بازار گرم ہوا کہ یہ بھول گئے، جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی، حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوسکا۔ دعائیہ کلمے ایک بھی نہیں لیکن درس قرآن کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ حقوق العباد یاد آنے لگے مگر حقوق اللہ سے آنکھیں موندے رہے۔

حمیرا سے قبل اداکارہ عائشہ خان کے گھر سے جب تعفن اٹھا تو پڑوسیوں نے عائشہ سے بے خبر رہنے کے باوجود پولیس کو اطلاع کرنے میں دیر نہ لگائی، کیوں کہ ان کا سانس لینا محال تھا۔ گھر کا دروازہ ٹوٹا اور عائشہ کے سرد جسم کو مردہ خانے منتقل کردیاگیا۔ پرندے بھی قید سے آزاد ہوکر کھلی فضا میں مرنا چاہتے ہیں لیکن عائشہ اور حمیرا نے کرب ناک زندگی کا آخری باب بند کمرے میں مکمل کرتے ہوئے ضرور کہا ہوگا، ساری دنیا ہمیں پہچانتی ہے کوئی ہم سا بھی نہ تنہا ہوگا۔

ایک دانا نے کہا تھا، زندگی میں ریاضی کی طرح رہو،دوستوں کو جمع کرو، دشمنوں کو تفریق کرو، پیا رکو ضرب دو، خوشیوں کو تقسیم کرو اور ہمیشہ مسکراتے رہو۔ جب دل ٹوٹ جائے تو اٹھا کر اسی مصور کے پاس لے جاؤ، جس نے اسے بنایا ہے، کیوں کہ اس سے بہتر تو کوئی جان ہی نہیں سکتا کہ کون سا رنگ کہاں بھرنا ہے، کس دھاگے سے کہاں پیوند لگانا ہے۔

زندگی آسان نہیں ہوتی اسے آسان بنانا پڑتا ہے، کچھ صبر کرکے، کچھ برداشت کرکے اور بہت کچھ نظر انداز کرکے۔ لیکن کبھی کبھی دل تھک جاتا ہے۔ انسان دوستوں سے ہی نہیں اپنوں سے بھی دور ہوجاتا ہے چاہے انجانے میں ہو یا جان بوجھ کر۔ اس سمے ہر پل، ہر لمحہ موت ہو رہی ہوتی ہے، احساس کی، محبت کی، شفقت کی اور ممتا کی موت، پھر جب زندگی کی لائن مستقل کٹ جاتی ہے تو منظر نامہ ہی بدل جاتا ہے۔

گلیمرس کی دنیا کے یہ دوستارے تو تنہائی کا عذاب جھیلتے جھیلتےرخصت ہوگئے لیکن صرف انہیں تنہائی نے نہیں ڈسا، لاتعداد خواتین ہی نہیں مردوں نے بھی تنہائی کا زہر پی کر موت کو گلے لگایا۔ ایسے سانحات خاموش بحران کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ہر شخص اپنی ذات میں گم ہے۔ دوسروں کے دکھ اب خبر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ ہجوم میں بھی انسان تنہا نظر آتا ہے۔ 

کبھی اتنی روشنی کہ آنکھ بھی نہ کھل سکے اور کبھی اتنا اندھیرا کہ قریب بیٹھے ہوئے اپنے بھی اجنبی لگیں۔ کہیں رشتوں میں اتنی مٹھاس کہ کڑواہٹ بھی رس گھولے، کہیں گھر میں قبرستان کا سا گمان، کہیں پڑوسیوں پر سگے رشتوں کا گمان تو کہیں ایسی بیگانگی کہ دو قدم پر رہنے والے مکینوں کے مرنے جینے کا ہی علم نہیں۔ سب ، دنیا سے کٹ کر تنہا رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں، پہلے جو محبت، وضعداری اور حقوق العباد کی پاسدار ی دیکھی جاتی تھی وہ جدیدیت میں گم ہوگئی۔ خاندانی نظام کے پروردہ اس عہد میں خال خال نظر آتے ہیں۔

گھر کا ہر فرد نوکری، کاروبار، آن لائن سرگرمیوں میں مصروف اپنی دنیا میں مگن ہے۔ ہمسائے جو دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے تھے، اب بند دروازوں سے جھانکنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ ایک وقت تھا جب محلے داری کا کلچر تھا، آس پڑوس میں ہی نہیں دوسری تیسری گلیوں میں رہنے والوں سے بھی تعلقات ہوتے تھے۔ فلیٹوں کے دروازے کُھلے رہتے تھے۔ چاند رات پر رت جگے ہوتے، باتوں کے ساتھ کھانوں کے تبادلے ہوتے۔

اب تو حالات و واقعات کی ریلوے لائن کی طرح ایک دوسرے کو قطع کرتی ہوئی لکیریں ہیں۔ پڑوس میں کون رہ رہا ہے، کون بیمار ہے، کون بھوکا ہے، کچھ پتا نہیں، نوبت یہ آگئی کہ موت کا علم بھی تعفن سے ہوتا ہے۔ یہ جینا بھی کوئی جینا ہے۔ اتنی بے زاری، اُکتاہٹ، ہمیں کس سمت لے جارہے ہیں۔ علامہ اقبال کی نظم’’ایک آرزو‘‘ دل و دماغ میں گونج رہی ہے۔ اس کا ایک بند ملاحظہ کریں:

دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہو یا رب… کیا لطف انجمن کاجب دل ہی بجھ گیا ہو…

شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا… ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو… مرتا ہوں خامشی پریہ آرزو ہے میری… دامن میں کوہ کے ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہو

شاید مرزا غالب بھی دنیا کی محفلوں، مکرو فریب اور نمود و نمائش سے اُکتا گئے تھے اور پھر ایسی ہی خلوت کی تمنا کرتے ہوئے انہوں نے اپنے جذبات کو منظوم کیا ہوگا۔

رہیے اب ایسی جگہ چل کرجہاں کوئی نہ ہو… ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو…

بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے… کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو…

پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمارردار… اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم غالب کی اس فکر کی تائید کر رہے ہیں، ان کی کیفیت سے آگاہ کر رہے ہیں جو آج کے معاشرے کا خاصہ بنتی جارہی ہے۔ پاس بیٹھے ہیں پھر بھی بیگانہ ہیں۔

زندگی رواں دواں ہے۔ ہم زمیں پر اپنے حصے کا سفر مکمل کرکے ابدی نیند سوجائیں گے، تب بھی یہ رواں رہے گی۔ لیکن ہر ایک اپنے میں مگن دوسروں سے ایسے لاتعلق رہنے لگا ہے جیسے زندگی اسی کے گرد گھومتی ہے۔ اپنے برابر بیٹھے شخص کا علم ہے نہ ارد گرد کا۔

یہ بھی نہیں پتا کہ قریب بیٹھا خاموش شخص کس کرب سے گزر رہا ہے، اسے کیا دکھ ہے، یا اس کی کون سی امید دم توڑ چکی ہے یا وہ زندگی کی کسی ایسی جنگ سے ہار گیا جس کا شور صرف اس کے دل میں تھا، شاید وہ جنگ بہت خاموش اور وہ بہت تنہا تھا۔ اگر مسکرا کر اس سے بات کرلی جاتی تو اس کا آدھا غم تو بٹ ہی جاتا۔ 

یہ تلخ حقیقت ہمیں آج جھنجھوڑ رہی ہے، اگر آپ کے آس پاس کوئی چپ بیٹھا ہے، الگ تھلگ ہے تو اس سے بات کرنے میں پہل کیجیے، اسے توجہ، محبت اور سننے والا چاہیے، کبھی کبھی تنہائی اور اداسی کا علاج دو میٹھےبول ہوتے ہیں۔ 

یاد رکھیے، جو آپ کو اتفاقاً راستے میں ملتا ہے یا آپ کے نزدیک بیٹھا ہوتا ہے، وہ آپ کو شاید دوبارہ نہ ملے، ہاں اگر آپ اس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے تو بہت ممکن ہے کہ وہ یا آپ ایک دوسرے کی تنہائی کے بہترین ساتھی ثابت ہوں۔ 

اس پر بھی غور کیجیے کہ دفاتر اور محلے میں چند قدم کے فاصلے پر ہونے کے باوجود کئی کئی ماہ ساتھیوں، پڑوسیوں سے سلام دعا تک کیوں نہیں ہوتی؟ اگر ایک بھی اچھا تعلق قائم ہوجائے تو وہ زندگی بھر ساتھ نبھا سکتا ہے۔ اس لیے دیر کس بات کی۔ اگر آپ تنہا نہیں ہیں تو خوشی کی بات ہے لیکن دوسروں کی تنہائی دور کرکے مزید خوش ہونے یا خوش رہنے میں پیسے تو خرچ نہیں ہوں گے ہاں سکون ضرور ملے گا۔

بزرگ کہتے ہیں کہ یہ جو میلا ہے، ہجوم ہے، اس میلے میں ہر انسان اکیلا ہے۔ تنہائی ایک خاموش بیماری ہے، اس کا شور سنائی نہیں دیتا، لیکن یہ انسان کو اندر سے دیمک کی طرح کھوکھلا کردیتی ہے۔ جب کوئی دن بھر میں درجنوں چیٹ، سیکڑوں پوسٹیں دیکھے، پھر بھی محسوس کر ے کہ اس کا کوئی ’’اپنا‘‘ نہیں ہے، جس سے وہ اپنے دکھ سکھ شیئر کرے تو یہ ایک واضح علامت ہے کہ ہم شدید نفسیاتی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

یہ ایسی درد بھری اور تکلیف دہ ذہنی کیفیت ہے جس میں مبتلا شخص اپنے آپ کو سماجی زنجیروں سے کٹا ہوا محسوس کرتا اور سوچتا ہے کہ اس کی خواہشات پوری کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں لے رہا۔ اس کا کوئی چاہنے والا یا ہم درد نہیں ہے، اسے یوں لگتا ہے جیسے کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں جس کے ساتھ وہ اپنے احساسات، دکھ درد بانٹ سکے۔ یہ منفی سوچ ہے، یوںوہ ڈپریشن اور تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق، کچھ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ تنہائی ہے کیا؟ یہ دو طرح کی ہوتی ہے۔ آبجیکٹیو (Objective) اور سبجیکٹو (Subjective)۔ اولذکر کا تعلق ماحول سے ہے یعنی آپ اکیلے ہیں، آس پاس کوئی نہیں ہے، جب کہ آخرالذکر کا تعلق ذہنی کیفیت سے ہے، اس کا مطلب ہے کہ کوئی اکیلے ہی رہنا چاہتا ہے۔ 

ایسا فرد ہجوم میں کسی کو بھی اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس سے باتیں کرے، شور شرابہ اسے پسند نہیں، کسی سے ملنا گوارا نہیں،کوئی آجائے تو بات کرنے سے گریز یہ تنہائی پسندی تو ہے۔ اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر میں تنہا افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سماجی ماہرین نے اسے دنیا کا نمبر ون مسئلہ قرار دیا ہے۔

معروف برطانوی مصنف ’’ رابرٹ ہال ‘‘نے اپنی کتاب ’’اجنبیوں کی سرزمین‘‘ (Land of Strangers) لکھنے سے قبل تقریباً تین لاکھ تنہا رہنے والے افراد پر مختلف طریقوں سے تحقیق کی، ان سے تنہائی میں بھی ملے اور محفلوں میں بھی۔ اس تحقیق کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے رابرٹ لکھتے ہیں کہ، تنہائی کا شکار افراد انجانے خوف سے اپنے ارد گرد تنہائی کی چادر تان لیتے ہیں۔ ان افراد میں موت کا اندیشہ تقریباً 30 فی صد ،جب کہ دل کے دورے کے امکانات 32 فی صد اور سٹروک کے 29 فی صد تک بڑھ جاتے ہیں،نیز ڈپریشن،ذہنی دباؤ اور خودکشی کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

رابرٹ مزید لکھتے ہیں، اکیلا رہنا پندرہ سگریٹوں کے برابر نقصان دہ ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ تنہائی حفاظت نہیں کرتی بلکہ یہ خطرناک امراض کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ میں اپنے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ معاشرے میں تعلقات بذات خود بھی انتہائی قیمتی چیز ہیں، یہ معاشرے میں قابل قدر تبدیلی لانے کا وسیلہ بنتے ہیں اور یہی ہماری ترقی، نشوونما اور بقا کی لائف لائن ہیں۔‘‘

تنہائی کسی بھی قسم کی ہو،انسان کو ذہنی مریض بنا دیتی ہے۔ آئیڈ یلزم سے نکل کر اس مسئلے کا حل نکالنا ضروری ہے۔ جو دلوں پر راج کرتے ہیں، وہ کبھی تنہا نہیں ہوتے۔ اگر آپ تنہا ہیں یا تنہائی سے بچنا چایتے ہیں تو خود کو دوسروں کے لئے نفع بخش بنائیں۔ اپنوں کو وقت دیں، اُن کے چہروں کے پیچھے چھپی تھکن کو سمجھیں، ہر کوئی تیز قدموں سے نہیں چل رہا ہوتا۔ یہ2025کا اہم مسئلہ ہے ،اس کا حل ضروری ہے، ورنہ …

’وزیر برائے تنہائی‘‘

’’تنہائی‘‘ سے کہیں گھر ٹوٹے، کہیں والدین بچوں میں دوریاں ہوئیں تو کہیں دوست احباب سے کنارہ کشی اختیار کی۔ کچھ نے بھرپور زندگی گزاری لیکن ریٹائرمنٹ کے بعدوہ زندگی کے ایسے دور میں داخل ہوئے کہ دوسرے ان سے سلام دعا تک نہیں لیتے۔ اس کا احساس برطانیہ کو سرکاری سطح پر پہلی مرتبہ اس وقت ہوا جب سابق برطانوی وزیراعظم ’’تھریسامے‘‘ نے اپنی کابینہ میں ایک ’’وزیر برائے تنہائی‘‘ کا اضافہ کیا، جسے برطانوی عوام میں بڑھتی ہوئی دوریوں کو کم کرنے کا فریضہ سونپا گیا تھا۔

وزیر تنہائی نے بسوں میں عوام دوست سروس مہیا کرنے کا پروگرام مرتب کیا۔ اپنی بسوں میں ’’آؤ باتیں کریں‘‘ کا نظام متعارف کرایا۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے ایک دن اسی کام کے لیے وقف کردیا۔ مقامی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی مدد سے ’’چیٹ بسیں، کوچز‘‘ کے نام سے الگ بوگیاں یا جگہیں مخصوص کی گئیں۔ بس کمپنیوں نے مسافروں کو باتیں شروع کرنے کے لیے مواد بھی مہیا کیا۔

ان کا خاص مشورہ تھا ’’آؤ مسکراہٹوں کا تبادلہ کریں، مسکراہٹ بانٹیں‘‘۔ ان اقدامات کی اہم وجہ یہ تھی کہ وہاں بسیں ہوں یا ٹرینیں، فٹ پاتھ ہوں یا ریستوران، ہر جگہ لوگ کتاب پڑھتے نظر آئیں گے، جس سے ان کے ایک دوسرے سے رابطے نہیں ہوتے۔ ’’وزیر تنہائی‘‘ اور نشریانی ادارے کو کس حد تک کام یابی ملی، ابھی کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے، وزیر تنہائی مقرر نہ کریں لوگوں میں بات چیت کرنے کے لیے کچھ اقدامات تو کر ہی سکتے ہیں۔

وہ صدی تمہاری تھی یہ صدی ہماری ہے

وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ سب کچھ تہس نہس ہوگیا، جو بچا ہے وہ بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ بچے اپنے ماحول اور گردوپیش سے کٹ کر جی رہے ہیں۔ نہ جانے کب یہ وبا پھیلی، میرا کمرا، میری پرائیویسی، میرا فون، میری مرضی۔ آپا کی شادی ہوگئی، ان کا کمرا، اب میرا ہے، وہ رہیں اپنے گھر۔ مجھے اپنے معاملات میں دخل انداز ی پسند نہیں۔ ہمیں نہیں جانا خاندان کی فضول تقریبات میں، جاہل لگتے ہیں، بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ 

امی ابو آپ نے اپنے وقتوں میں بہت کچھ کرلیا، اب ہمیں اپنی مرضی سے جینے دیں، آپ کی صدی ختم، اب یہ ہماری صدی ہے۔ آپ لوگوں کے پاس وقت ہی وقت تھا، ہمارے پاس نہیں ہے۔ ہماری شادی کردی، اب ہمیں علیحدہ گھر میں رہنا ہے۔ رشتوں کی بھیڑ میں ہم نہیں رہ سکتے۔ قصہ ہوا تمام، والدین نے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی، برسر روزگار ہوتے ہی شادی کردی تو بچوں نے ماں باپ کے ساتھ رہنا گوارا نہ کیا۔ 

انہیں تنہا چھوڑ کر الگ گھر چلے گئے، وہ کیسے رہ رہے ہیں، اس کا اندازہ تو ہو ہی رہا ہے، لیکن جہاں والدین اکیلے زندگی بسر کر رہے ہیں، وہیں بچے بھی اپنا جنم دن موم بتیوں کی روشنیوں میں تنہا منا رہے ہیں، وہ بہ ظاہر خوش ہیں کہ ان کی صدی ہے، لیکن آگے کیا ہوگا یا ہونے والا ہے، اسے دیکھنے میں دیر نہ لگے گی۔

ورچوئل دنیا میں حقیقی رشتوں کی تنہائی کے اثرات

 ’’ورچوئل دنیا‘‘ کے حوالے سے ایک تحقیقی آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ’’سوشل میڈیا کے بعد د نیا بدل گئی۔ ترقی کا نیا رخ بہ ظاہر سہولتوں کی دنیا کو وسعت بخشتا ہے مگر ساتھ ہی انسان کی داخلی دنیا میں خلا بھی پیدا کرتا جارہا ہے، جسے آج کے دور میں ’’ریئل ٹائم دنیا ‘‘کہا جاتا ہے، جو انسانی رابطوں کو تیز اور آسان بناتی ہے، لیکن اس کی قیمت اکثر خاموشی سے چکائی جاتی ہے، حقیقی رشتوں میں تنہائی کی صورت میں اس دنیا کی کشش میں انسان ایک ایسے جال میں پھنستا جارہا ہے جہاں فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم اس کی روز مرہ زندگی کے مستقل ساتھی بن چکے ہیں، بہ ظاہر یہ پلیٹ فارم لوگوں کو جوڑنے کے لیے بنائے گئے ہیں، مگر رفتہ رفتہ وہ ایک ایسے فریب میں بدل گئے ہیں جہاں لوگ جڑنے کے بجائے تنہا ہوتے جارہے ہیں۔ 

ایک شخص کے اپنے موبائل اسکرین پر سیکڑوں دوستوں کی فہرست ہے لیکن جب اسے دکھ، خوف یا مسئلے کا سامنا ہوتا ہے تو وہ یہ جان کر حیران ہوتا ہے کہ فہرست میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس سے وہ بات کرسکے، اپنا دکھ شیئر کرسکے۔ 

اس حالت کو ماہرین نفسیات ’’مصنوعی قربت کا فریب‘‘ کہتے ہیں، جو انسان کو وقتی اطمینان تو دیتا ہے مگر طویل مدت میں تنہائی کو بڑھاتا ہے۔ ورچوئل دنیا ہمیں نئے دائرے ضرور فراہم کرتی ہے، لیکن ان دائروں میں زندہ رہنا اسی وقت ممکن ہے جب خونی رشتوں کو اہمیت دی جائے، ورنہ اس کی جگمگاہٹ کے نیچے تنہائی کا اندھیرا دھیرے دھیرے نگلتا رہے گا۔ رشتے احساس کا تبادلہ ،خلوص چاہتے ہیں اور جب انہیں صرف ’’آن لائن اسٹیٹس‘‘ تک محدود کردیا جائے تو وہ جیتے جی مر جاتے ہیں۔

اب رشتوں کی بھی ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے

کیا ہی اچھا وقت تھا جب سب مل جل کر محبت سے رہتے تھے۔ رشتوں کواہمیت دی جاتی تھی۔ اچانک نہ جانے کیا ہوا۔ رشتوں میں دوریاں ہوتی چلی گئیں۔ پہلے امی ابو کے کزنز بھی ماموں، چچا، خالہ، پھپھو کہلاتے تھے، پھر وہ دور کے رشتے دار بن گئے۔ بہن بھائیوں کی شادی ہوئی، ان کے بچے جوان ہوئے تو بڑے گھر بھی چھوٹے پڑ گئے۔ بہنیں پہلے ماں باپ کے گھر ہفتے میں ایک دن آتیں دو دن رہ کر جاتیں۔ بھائیوں کی شادیاں ہوئیں تو از خود میکے آنا کم کردیا، یا بدلتے رویوں نے محتاط کردیا۔ 

رفتہ رفتہ اتنی دوریاں ہوئیں کہ مہینے دو ماہ میں ملاقاتیں ہوتے ہوتے شادی بیاہ، تہوار تک محدود ہوگئیں۔ ماں باپ دنیا سے گئے تو میکے آنا جانابالکل ختم ہوگیا، ٹیلی فون پر وہ بھی کبھی کبھار چند منٹوں کی گفتگو ہوتی۔ بھائی بہن کے بچوں کی شادیاں ہوگئیں، سسرالی خاندان سے رشتے جڑ گئے۔ بھائی بہن کو اپنے سمدھی زیادہ عزیز ہوگئے۔ ننھیال، ددھیال کے رشتے بھی دکھ سکھ میں شرکت تک محدود ہوگئے۔ یعنی ہر رشتے کی ایکسپائری ڈیٹ ہے۔ اپنوں سے دوریاں وقت کی نذر ہوگئیں۔ 

والدین کی کسی محفل میں یا سر راہ اپنی پھپھو، خالہ، ماموں یا ان کے بچوں سے ملاقات ہوجائے تو بچے پوچھتے ہیں، کس سے باتیں کر رہے تھے، جب وہ خوش ہوکر بتاتے، ارے بیٹا یہ تمہارے ابا کی پھپھو یا خالہ تھیں تو جواب سننے کو ملتا ہے، اتنے دور کے رشتے دار۔ 

جدید ٹیکنالوجی تعلقات کی دشمن

یہ دنیا انسانوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہر شہر میں ہنگامہ بپا ہے، لیکن مڑ کر دیکھیں تو ہر کوئی تنہا، الگ تھلگ دکھائی دے رہا ہے۔ ذرا سوچیں کہ آپ نے فضائی، زمینی سفر یا کسی تقریب میں آخری مرتبہ ارد گرد بیٹھے لوگوں سے کب بات کی تھی۔ یہ بھی سوچیں کہ اپنے ساتھ بیٹھے لوگوں سے بات چیت کرتے ہیں یا ’’موبائل کی دنیا‘‘ میں مصروف رہتے ہیں ۔ اپنے رشتوں اور ملاقاتوں کو موبائل پر قربان نہ کیجیے۔ تقریب میں داخل ہوتے ہی موبائل آف کردیں اور دعوت کا بھرپور لطف اٹھائیں۔ 

جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل یا ٹیبلٹ پر زیادہ وقت گزارنا ذہنی طور پر اکیلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ یہ مصنوعی دنیا ہے، جہاں لوگوں نے اپنی شخصیت پر کئی پرتیں چڑھائی ہوئی ہیں، جہاں کوئی بھی ہم درد اور دوست نہیں، جب آپ اس تصوراتی دنیا میں کثیر وقت ضائع کرکے حقیقی دنیا میں واپس آتے ہیں تو خود کو تنہا محسوس کرنے لگتے ہیں، رفتہ رفتہ تنہائی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں، اس لیے سوشل میڈیا پر سیکڑوں غائبانہ دوستوں کے بجائے عام زندگی کے چند دوستوں سے رابطے میں رہنا آپ کو تنہا نہیں ہونے دے گا۔

ہم میں سے بیش تر سوشل میڈیا کی چکا چوند دنیا کے سحر اور ان تمام آسائشات، تعیشات کی خواہش میں مبتلا ہیں جو اس دنیا کے پردہ اسکرین پر دکھائی جاتی ہیں۔ نتیجتاً ہم اپنے رشتوں سے بے زار ہونا شروع ہوتے جا رہے ہیں۔ رشتوں کا حسن انہیں نبھانے میں ہےناکہ اپنے معیار کی کسوٹی پر آزمانے میں۔ 

تعلیم، دولت اور حسن کے معیار پر کسی رشتے کو کوئی مقام دینا، آپ کو تنہائی کے ایسے احساس میں دھکیل دیتا ہے جہاں سے واپسی کا راستہ یہی رشتے جانتے ہیں، جنہیں آپ اپنے مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے کی پاداش میں تنہا کر چکے ہوتے ہیں۔ یہ جدید ٹیکنالوجی ہے جو ہمارے تعلقات کی دشمن بن گئی ہے۔ 

پہلے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی خرابیاں کھل کر سامنے نہیں آئی تھیں، اب تو اس نے انسانیت کا ہی تختہ کردیا، اسی لیے سماجی ماہرین کہتے ہیں، تنہائی اور منشیات آپس میں گہرے دوست ہیں۔ میل جول سے اس لعنت کو ختم کرسکتے ہیں۔ 

’’اکیلے کون مرتا ہے بہت سی حسرتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں

اجڑتے خواب سناٹے بپھرتی خواہشیں بھی ساتھ ہوتی ہیں ‘‘

…………………

’’کوئی باہر اکیلا ہے کوئی اندر اکیلا ہے یہی سچ ہے

سلگتی زندگی کی اخری شب لغزشیں بھی ساتھ ہوتی ہیں‘‘

…………………

’’بھرے شہروں میں تنہائی اچانک وار کرنے کو نکلتی ہے

امنگیں چھین لیتی ہے ہزاروں وحشتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں ‘‘

…………………

’’کبھی ایسی بھی راتیں ہوں جہاں خود سے بھی باتیں ہوں اکیلے میں

مسافر ہوں اگر خود بیں تو ان کی منزلیں بھی ساتھ ہوتی ہیں ‘‘

…………………

’’ان اونچی بلڈنگوں میں کیا جوانی کیا بڑھاپا اک مشقت ہے

محلے کے گھروں میں تو زمیں کی خوشبوئیں بھی ساتھ ہوتی ہیں‘‘

…………………

’’گلیمر ہے چکا چوندیں مگر اندر اندھیرے بال بکھرائے

انا جھنجوڑتی ہے تو بھڑکتی غیرتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں ‘‘

…………………

’’کہانی اختتامی منظروں میں خود ہدایت کار ہوتی ہے

اداکاری نہیں اس وقت غیبی قوتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں‘‘

(محمود شام)