• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا ایسا واقعہ ہے جس نے ہمیشہ کے لیے طے کردیا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں حکمرانی کا حقیقی معیار اور حکمراں کے انتخاب کا جائز طریق کار کیا ہے۔ میدانِ کربلا میں نواسہ رسولؐ حضرت حسینؓ نے اپنی اور اپنے پیاروں کی قیمتی جانوں کی قربانی حصول اقتدار کی خاطر نہیں دی بلکہ اس کا مقصد رہتی دنیا تک امت مسلمہ کو یہ رہنمائی فراہم کرنا تھا کہ اسلامی مملکت میں حکمرانی کی اہلیت کی شرائط کیا ہیں اورمسند اقتدار پر مسلمانوں کی آزاد مرضی کے بغیر کسی شخص کا براجمان ہوجانا کس درجہ ناجائز و ناقابل برداشت ہے۔ حضرت حسین ؓ نے اپنی اس تاریخ ساز جدوجہد اور قربانی کے مقاصد اہل کوفہ سے کیے گئے خطاب میں خود بیان کیے ۔اردو میں اس خطبے کا ترجمہ مولانا ابوالکلام آزاد نے ان الفاظ میں کیاہے ’’اے لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے جو ظلم کرتا ہے، خدا کی قائم کی ہوئی حدیں توڑتا ہے،عہد الٰہی شکستہ کرتا ہے، سنت نبوی کی مخالفت کرتا ہے، خدا کے بندوں پر گناہ اور سرکشی سے حکومت کرتا ہے اور دیکھنے پر بھی نہ تو اپنے فعل سے اس کی مخالفت کرتا ہے، نہ اپنے قول سے، سو خدا ایسے لوگوں کو اچھا ٹھکانا نہیں بخشے گا۔ دیکھو یہ لوگ شیطان کے پیرو بن گئے ہیں۔ رحمٰن سے سرکش ہوگئے ہیں۔ فساد ظاہر ہے، حدود الٰہی معطل ہیں۔ مال غنیمت پر ناجائز قبضہ ہے۔ خدا کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ میں ان کی سرکشی کو حق و عدل سے بدل دینے کا سب سے زیادہ حقدار ہوں۔ تمھارے بیشمار خطوط اور قاصد میرے پاس پیام بیعت لے کر پہنچے۔ تم عہد کرچکے ہو کہ مجھ سے بے وفائی نہ کرو گے اور نہ مجھے دشمنوں کے حوالے کرو گے۔ اگر تم اپنی اس بیعت پر قائم رہے تو یہ تمھارے لئے راہ ہدایت ہے، کیونکہ میں حسین بن علی رضی اللہ عنہ، رسولؐ کا نواسہ ہوں۔ میری جان تمھاری جان کے ساتھ، میرے بال بچے تمھارے بال بچوں کے ساتھ ہیں۔ مجھے اپنا نمونہ بناؤ اور مجھ سے گردن نہ موڑو، لیکن اگر تم یہ نہ کرو، بلکہ اپنا عہد توڑ دو اور اپنی گردن سے میری بیعت کا حلقہ نکال پھینکو، تو یہ بھی تم سے بعید نہیں۔ تم میرے باپ، بھائی اور عم زاد مسلم کے ساتھ ایسا ہی کرچکے ہو۔ وہ فریب خوردہ ہے جو تم پر بھروسہ کرے لیکن یاد رکھو، تم نے اپنا ہی نقصان کیا ہے اور اب بھی اپنا ہی نقصان کروگے۔ تم نے اپنا حصہ کھو دیا۔ اپنی قسمت بگاڑ دی، جو بدعہدی کرے گا، خود اپنے خلاف بد عہدی کرے گا، خدائے تعالیٰ عنقریب مجھے تم سے بے نیاز کر دے گا۔‘‘ایک دوسری جگہ تقریر فرمائی: ’’معاملہ کی جو صورت ہوگئی ہے تم دیکھ رہے ہو، دنیا نے اپنا رنگ بدل دیا۔ منہ پھیر لیا، نیکی سے خالی ہوگئی، ذرا سی تلچھٹ باقی ہے، حقیر سی زندگی رہ گئی ہے۔ ہولناکی نے احاطہ کر لیا ہے۔ افسوس تم دیکھتے نہیں کہ حق پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ باطل پر علانیہ عمل کیا جا رہا ہے۔ کوئی نہیں جو اس کا ہاتھ پکڑے۔ وقت آگیا ہے کہ مومن حق کی راہ میں لقائے الٰہی کی خواہش کرے۔ میں شہادت ہی کی موت چاہتا ہوں۔ ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا بجائے خود جرم ہے۔‘‘اسلام کے نظام حکمرانی کا کامل نمونہ مسلمانوں کی بیعت عام سے منتخب ہونے والے ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم نے مجموعی طور پر اپنے تیس سالہ دور خلافت میں پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے پیش کردیا تھاجس میں امور مملکت چلانے کا ذمے دارفرد خود کو لوگوں کا حاکم نہیں‘ خادم تصور کرتا اور یہ جانتا تھا کہ بروزِ حشر اسے اپنے دور کے ہر پل کی جوابدہی کرنا ہوگی۔ لیکن چوتھے خلیفہ راشد علی مرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ کی شہادت کے بعد خلافت راشدہ کا نظام بوجوہ باقی نہیں رہ سکا اور یزید کی جبری بیعت کی مہم نے خطرہ پیدا کردیا کہ نظام ملوکیت کو عین اسلامی تصور کیا جانے لگے گا تو نواسہ رسول ؐ نے تاریخ ساز قربانی دے کر اس خدشے کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کردیا۔ ہر مسلمان کیلئے درس گاہِ کربلا کا اصل سبق یہی ہے۔

تازہ ترین