• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز میرے ایک دوست نے فون کیا۔ میں نے کہا ’’رات کو گیارہ بجے کے بعد فون کرنا‘‘اور فون بند کر دیا ۔ایک دوست ملنے آئے میں نے انہیں دروازے ہی سے رخصت کر دیا اور کہا’’رات کو گیارہ بجے کے بعد تشریف لائیں آرام سے بیٹھ کر باتیں ہوں گی۔‘‘بچوں نےا سکول کا کام کرنے کیلئے بستے کھولے تو میں نے انہیں ڈانٹ کر کہا’’یہ کام کرنے کا وقت ہے رات کو گیارہ بجے کے بعد کرنا۔‘‘میرے ایک بزرگ سونا چاہ رہے تھے مگر انہیں نیند نہیں آرہی تھی میں نے کہا ’’آپ گیارہ بجے کے بعد سونے کی کوشش کریں انشاء اللہ نیند آجائے گی‘‘۔ ایک دوست کا فون آیا کہ یار مجھے بخار ہو رہا ہے گھر پر کوئی نہیں ہے اگر ہو سکے تو مجھے ڈاکٹر سے دوا لا دو میں نے کہا’’میں حاضر ہوں مگر تم کوشش کرو کہ بخار تمہیں رات کے گیارہ بجے کے بعد چڑھے کہ اس میںتمہارا فائدہ ہے‘‘۔میرے دوست اور عزیز و اقربا میری طرف سے عائد شدہ اس عجیب و غریب ٹائم کی پابندی سے بہت نالاں تھے چنانچہ میں نے اپنی پوزیشن صاف کرنے کا فیصلہ کیا!دوست کا فون آیا تو میں نے اس سے گپ شپ کرنا شروع کر دی چند لمحموں کے بعد اس نے کہا یار یہ جو تم نے گانوں کی ٹیپ لگائی ہوئی ہے خدا کیلئے اسے تو بند کرو یا اسے آہستہ ہی کر دو تمہاری آواز سنائی نہیں دے رہی ! میں نے کہا ’’برادرم!یہ گانوں کی ٹیپ نہیں، سلطان باہو کا کلام گایا جا رہا ہے اور یہ آواز میرے کمرے سے نہیں برابر والی مسجد سے آرہی ہے؟‘‘دوست نے کہا’’ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر بعد فون کر لوں گا ! میں نے کہا تھوڑی دیر بعد نہیں رات کے گیارہ بجے کے بعد کرنا کیونکہ یہ پروگرام رات گیارہ بجے تک جاری رہتا ہے۔ ایک دوست ملنے کیلئے آئے تو میں نے انہیں دروازے ہی سے رخصت کرنے کی بجائے ڈرائنگ روم میں بٹھایا، چائے منگوائی اور گپ شپ شروع کر دی تھوڑی ہی دیر بعد وہ ناراض ہو گئے اور کہنے لگے یہ تم نے کیا کہا کہ تم دوزخ میں جاؤ گے ؟‘‘ میں نے کہا برادر ! یہ میں نے نہیں کہا برابر والی مسجد کے مقرر صاحب کہہ رہے ہیں ! یہ سن کر انہوں نے معذرت کی اور کہا میں پھر کسی وقت آجاؤں گا تا کہ آرام سے باتیں تو ہو سکیں! میں نے کہا رات کے گیارہ بجے کے بعد آنا کہ یہ سلسلہ اس سے پہلے ختم نہیں ہوتا۔‘‘بچوں نے اسکول کا کام کرنے کیلئے بستے کھولے تو میں نے انہیں پچکار کر کہا۔ شاباش اچھے بچوں کی طرح اب اسکول کا کام کرکے ہی اٹھنا مگر تھوڑی ہی دیر بعد انہوں نے بستے بند کر دیئے اور کہا ابو اسے منع کرو ہم سےاسکول کا کام نہیں ہو رہا ! میں نے کہا ’’بیٹے میں کیسے منع کر سکتا ہوں میں نےمرنا ہے ۔تم اسکول کا کام رات کے گیارہ بجے کے بعد کر لینا‘‘میرے گھر آئے ہوئے مہمان بزرگ عشاء کی نماز پڑھ کر سونے لگے تو میں نے انہیں کہا آپ سکون سے گہری نیند سوئیں میں آپ کو صبح تین بجے جگا دوں گا کیونکہ اس وقت علامہ صاحب نے بھی جاگنا ہوتا ہے ، مگر کچھ دیر بعد بزرگ بے آرام سے ہو کر اٹھ بیٹھے اور کہنے لگے میں رات کو گیارہ بجے کے بعد ہی سو جاؤں گا !‘‘ بخار والے دوست کا فون اگلے روز خود ہی آگیا اس نے کہا ’’ یار تم ٹھیک کہتے تھے رات کو گیارہ بجے سے پہلے بیمار نہیں ہونا چاہیے میرے محلے میں بھی چاروں طرف لائوڈا سپیکر فٹ ہیں ان کی وجہ سے بخار تیز ہوتا گیا لیکن رات گئے جب لائوڈا سپیکر خاموش ہوئے میرا بخار اترنا شروع ہوا اور اب اللہ کا شکر ہے میں ٹھیک ہوں آئندہ میں کوشش کروں گا کہ رات کو گیارہ بجے سے پہلے بیمار نہ پڑوں!‘‘دوستوں کو تو میں نے مطمئن کر دیا کہ میں انہیں رات کے گیارہ بجے کے بعد کا ٹائم کیوں دیتا ہوں مگر میں نے اپنے طور پر سوچا کہ انسان کو حالات کےمطابق خود کو ایڈجسٹ کرنا چاہیے چنانچہ مسجد کے میناروں میں مشرق مغرب اور شمال جنوب کی طرف فٹ چاروں لائوڈ اسپیکروں سے خود کو غافل کر کے میں سر شام اپنے لکھنے کی میز پر بیٹھ گیا اور کالم لکھنے کی تیاریاں کرنے لگا مگر مجھے یوں لگا جیسے میرے کمرے کے اندرجلسہ ہو رہا ہے چنانچہ میں نے سوچا کہ لاؤنج میں بیٹھ کر لکھنا چاہیے مگر لائونج میں اصل آواز کے علاوہ آواز کی گونج بھی سنائی دے رہی تھی اس پر میں نے باورچی خانے کا رخ کیا کہ چولہے کے پاس بیٹھ کر لکھ لوں گالیکن جب میں چولہے کے پاس بیٹھا تو مجھے محسوس ہوا جیسے یہ آواز چولہے کے اندر سے آرہی ہے اب لے دے کے گھر کا غسل خانہ رہ گیا تھا۔ میں نہانے کی چوکی پر بیٹھ گیا مگر مقرر کی آواز میں اتنی کڑک تھی کہ اس سے پیدا ہونے والی تھر تھراہٹ سے چوکی اپنی جگہ سے اٹھ کر فضا میں بلند ہونے لگی اس پر میں نے گھبرا کر گھر کی چھت کا رخ کیا مگر وہاں تو جیسے کہرام مچا ہوا تھا چنانچہ میں ہڑ بڑا کر نیچے آ گیا اور دوبارہ اپنی لکھنے کی میز پر آ کر بیٹھ گیا ۔اور قارئین ! میں اپنی لکھنے کی میز پر بیٹھا ہوں اور کالم لکھ رہا ہوں اور اس وقت رات کے بارہ بجے ہیں!

تازہ ترین