قیامت تک نہیں ممکن بُھلانا
زمیں پر کربلا کا پیش آنا
مدینے کے مسافر جانتے تھے
کہ ہے کس راہ سے جنّت میں جانا
جو ذوق و شوق سے آئے تھے مقتل
بَھلا اُن کی لگن کا کیا ٹِھکانا
سرِ میداں نہ موڑا منہ کسی نے
رَہا ثابت قدم سارا گھرانا
طمانچہ تھا یزیدیّت کے منہ پر
حُسینی قافلے میں حُر کا آنا
علی اصغر سی ننّھی جان کا اُف
پدر کے بازوئوں میں تیر کھانا
خدا کے سامنے سجدے کے بیچ آہ
شہہِ مظلوم کا گردن کٹانا
نہ رونا اے شعورؔ اپنے دُکھوں پر
غمِ شبیر میں آنسو بہانا