• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے، جو مئی کے مہینے کی چار روزہ پاک بھارت جنگ کے تناظر میں اعلیٰ سطحی سفارتی مشن کے سربراہ کے طور پر امریکہ، اقوام متحدہ اور یورپ کے کامیاب دورے کے بعد حال ہی میں وطن واپس آئے،انڈیا سے کہا ہے کہ پاکستان پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروپ کے خلاف اُس سے تعاون کیلئے تیار ہے جبکہ انڈیا کو بھی بی ایل اے اور مجید گروپ کیخلاف پاکستان سے تعاون کرنا ہوگا۔ معروف بھارتی صحافی کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے یاد دلایا کہ بھارتی حکومت نے پہلگام واقعہ کی بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش رد کر دی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری جو قبل ازیں پاکستانی وزیر خارجہ کی حیثیت سے عالمی برادری میں اپنی متاثر کن پہچان بنا چکے ہیں، جب اعلیٰ سفارتکاروں کے وفد کے قائد کے طور پر عالمی سفارتکاری کے اہم مراکز اور مختلف ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے پر گئے تو مذکورہ جنگ سے متعلق خبروں کی صداقت نے بلاول بھٹو کے دلائل، ان کے انداز بیان اور پیش کردہ حقائق کیساتھ ملکر پاکستان کا بہتر امیج نمایاں کرنے میں موثر کردار ادا کیا۔ایٹمی فلیش پوائنٹ کہلانے والے مسئلہ کشمیر سمیت ہر ایشو پر مدلل و متاثر کن انداز میں گفتگو کرکے انہوں نے بلاشبہ اپنے وطن کی بہترین وکالت و ترجمانی کی۔ بیرون ملک ان کی اس کامیاب سفارت کاری سے اندرون ملک معاملات میں بھی انکے مدبرانہ کردار کے پہلے سے موجود بعض نقوش مزید نمایاں ہوئے۔ انکے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ محترمہ بینظیر بھٹو نے اندرون ملک اپنی کارکردگی کے علاوہ بیرون ملک بھی بڑا نام حاصل کیا۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ بلاول بھٹو زرداری خارجہ میدان کو اپنی صلاحیتوں کے بھرپوراظہار کے لئے منتخب کرتے ہیں یا داخلی سیاست میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کے متاثر کن بیانیے نے پاکستان کے وقار میں اضافے اور اسکی اصابت پر بیرونی حلقوں کو قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ صحافی تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے نہ صرف ان کے سوالات کے تحمل و بردباری سے جواب دیئے بلکہ اپنے طرز عمل سے انہیں پوری بات سننے کی طرف بھی مائل کیا۔ واضح کیا کہ پاکستان کسی دہشت گرد گروپ کو نہ سپورٹ کرتا ہے نہ کسی گروپ کو ملک کے اندر یا باہر سے دہشت گرد حملوں کی اجازت دیتا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار ملک ہے نہ کہ سہولت کار۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کو جامع مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کے خطرے پر بھی کھل کر بات کرنی چاہئے۔ اس مشترکہ چیلنج سے نمٹنے کا راستہ تعاون ہی ہے، ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی بھارت یہ ثابت نہیں کرسکا کہ پہلگام واقعہ کے حملہ آور کون تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مسعود اظہر پاکستان میں نہیں، افغانستان میں ہے۔ اگر مسعود اظہر پاکستان میں ہو تو ہم فوری گرفتار کرینگے۔ بلاول بھٹو کے مذکورہ انٹرویو سے بعض ایسے رویوں کی نشاندہی بھی ہوئی جو سرد جنگ کے دوران بڑی طاقتوں کیلئے احسن رہے مگر بعدازاں سنگین مسائل کہلائے۔ مثال کے طور پر دہشت گردی کا لفظ نائن الیون کے بعد استعمال میں آیا۔ قبل ازیں بعض گروپوں کو فریڈم فائٹر کہا جاتا تھا ، افغانستان میں اور سرد جنگ لڑنے والوں کو اسی طرح دیکھا گیا۔ تاہم بلاول کے بموجب انکی والدہ اور جماعت پیپلز پارٹی کیلئے اس وقت بھی مذکورہ خیال کی حمایت ممکن نہیں تھی۔ یہ امر بڑی طاقتوں سمیت تمام ہی حلقوں کیلئے قابل توجہ ہے کہ انسانیت کی اعلیٰ اقدار حق اور سچ کی علمبرداری چاہتی ہیں۔ اگر سچائی اور اعلیٰ انسانی اقدار ملحوظ رہیں تو وقت بدلنے کے ساتھ ’’ہیرو‘‘ اور ’’دہشت گرد‘‘ کے القابات کی تبدیلی شاید ضروری نہ ہو۔

تازہ ترین