پچھلے دنوں ہاکی پہ دو کالم لکھے، دنیا بھر سے اس پر ردعمل آیا، ایک مفصل جواب شوکت یوسفزئی کی طرف سے آیا ہے، جسے میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے جا رہا ہوں۔ مولانا کوثر نیازی اور مشاہد حسین سید کی طرح شوکت یوسفزئی بھی صحافت کے راستے سیاست میں داخل ہوئے اور پھر سیاسی میدان میں کامیابیاں سمیٹیں۔ شوکت یوسفزئی خیبرپختونخوا میں وزیر اطلاعات رہے ہیں، وہ ہاکی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ’’ آپ کا روزنامہ جنگ میں ہاکی پر نہایت دلچسپ اور آنکھیں کھول دینے والا کالم پڑھا، جس میں ہاکی کے عروج و زوال کی ایک مکمل داستان تحریر تھی ۔ایک وقت تھا جب ہاکی اورا سکواش میں پاکستان پوری دنیا پر راج کرتا تھا اور پاکستان ان دونوں کھیلوں میں ناقابل شکست بن چکا تھا۔ آج کی طرح جدید سہولتیں بھی نہیں تھیں، اس کے باوجود پاکستان اسکواش اور ہاکی کے بہترین کھلاڑی پیدا کرنے کی نرسری بنا ہوا تھا۔ کرکٹ میں بھی پاکستان کا کوئی جواب نہیں تھا بلکہ ایک وقت تو ایسا تھا کہ اسنوکر کا چیمپئن بھی پاکستان تھا۔ جب ہاکی چیمپئن ٹرافی شروع ہوتی تو لوگ اپنے کام کاج چھوڑ دیتے اور میچ کے وقت ٹی وی اور ریڈیو کے آگے بیٹھ جاتے، جب تک میچ ختم نہ ہوتا مجال ہے کہ کوئی اٹھ جاتا، میچ کے دوران سارا کاروبار ٹھپ رہتا، بازار سنسان ہوجاتے، کمنٹری سننے کے لئے باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا، خواتین بھی اس میں شریک رہتیں۔ جیتنے کی صورت میں بھنگڑے ڈالے جاتے،پسند کے پلیئر کے لئے نعرے لگتے، یوں لگتا جیسے سامنے بیٹھ کر میچ دیکھا جا رہا ہو۔ گاؤں میں تو کئی روز تک میچ پر تبصرے ہوتے رہتے کہ فلاں کھلاڑی نے ایسا گول کیا، فلاں کھلاڑی نے ایسا ڈاج دیا۔میں خود تو زمانہ طالب علمی میں کرکٹ کھیلتا رہا، کالج اور یونیورسٹی ٹیم میں فاسٹ باؤلر مشہور تھا، دو مرتبہ یونیورسٹی لیول کی آل پاکستان چیمپئن ٹرافی میں حصہ لیا، ہمارے ایک گراؤنڈ پر کرکٹ ہوتی تھی تو ساتھ ہی میدان میں ہاکی فٹبال اور باسکٹ بال کھیلے جاتے تھے، ایک عجیب سا سماں ہوتا تھا، کلاس میں بیٹھتے تو ہر کوئی حسرت بھری نگاہ سے دیکھتا کہ یہ ہماری یونیورسٹی ٹیم کا کھلاڑی ہے، ایک زبردست قسم کا کمپٹیشن ہوا کرتا تھا، کلاس میٹس عزت دیتے تھے، کلاسوں کے بیچ مقابلے بڑے دلچسپ ہوا کرتے تھے، کھلاڑیوں کو بڑی پذیرائی ملتی تھی، کئی کئی دن تک پلیئرز کی پرفارمنس پر بحث ہوتی تھی، اندازے لگائے جاتے تھے کہ کون سا پلیئر قومی ٹیم کا حصہ بنے گا، اس سے تعلیمی اداروں کا ماحول بڑا خوشگوار اور دوستانہ ہوا کرتا تھا لیکن یہ ساری چیزیں اب ختم ہو چکی ہیں۔ تعلیمی ادارے اب ماشاءاللہ کمرشلائز ہو چکے ہیں، پرائیویٹ تو چھوڑیں اب تو سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں کھیلوں کے میدان ختم ہو گئے ہیں۔ کسی زمانے میں اچھے اچھے پلیئرز کو بینکوں میں مختلف سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں اچھے گریڈ کی نوکریاں ملتی تھیں، خاص طور پر پی آئی اے ، کسٹمز اور بینکوں کی نوکریاں کھلاڑیوں کے لئے بڑی پرکشش ہوا کرتی تھیں ۔ کھلاڑی اپنے کھیل پر توجہ دیتے تھے لیکن آج ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ صرف ہاکی ہی تنزلی کا شکار نہیں، اسکواش کا کھیل بھی آہستہ آہستہ غیر مقبول اور زوال پذیر ہورہا ہے، آج کی نوجوان نسل شاید ہی جہانگیر خان، جان شیر خان اور ہمارے دیگر اسکواش لیجنڈز کو جانتی ہو ۔ آج کے نوجوانوں کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ حسن سردار، سمیع اللہ، کلیم اللہ اور شہباز سینئر اور جونیئر کون تھے ۔ ہاکی اور اسکواش تو ایسے کھیل تھے کہ اس پر ہماری اجارہ داری قائم تھی، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان ہاکی اور اسکواش کا ٹورنامنٹ ہار جائے گا، ہمیشہ فائنل پاکستان جیتتا اور سونے کا تمغہ لاتا تھا۔ آج بمشکل ہمارے اسکواش کے پلیئرز اور ہاکی ٹیم سیمی فائنل تک پہنچ پاتی ہیں۔اب تو چاندی اور کانسی کا تمغہ بھی جیتنا بڑی غنیمت ہےاور اس پر بھی کئی کئی دنوں تک شادیانے بجاتے ہیں۔ ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، صرف ترجیحات کی بات ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر حکومت کرکٹ کے علاوہ باقی کھیلوں پر بھی توجہ دے تو پاکستان ان کھیلوں میں آج بھی ناقابل شکست بن سکتا ہے۔بدقسمتی سے ملک میں جہاں سیاست تباہ ہو گئی ہے وہاں سیاست نے کھیلوں کے ڈھانچوں کو بھی تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارا کھیلوں کاا سٹرکچر ہی ختم ہو رہا ہے، کھلاڑیوں کے لئے ادارہ جاتی نوکریاں ختم ہو گئی ہیں، کھیلوں کی باگ ڈور پروفیشنل لوگوں کی بجائے سیاسی لوگوں کے حوالے کی جا رہی ہے۔ کرکٹ، ہاکی، فٹبال اور اسکواش کے کھیلوں کا ان لوگوں کو سربراہ مقرر کیا جا رہا ہے، جن کو ان کھیلوں کا کچھ بھی پتہ نہیں۔ تین سال یا پانچ سال کے لئے کسی بھی ریٹائرڈ افسرکو ان کھیلوں کا سربراہ مقرر کر دیا جاتا ہے اور جب اس کا کنٹریکٹ ختم ہوتا ہے، وہ گھر چلا جاتا ہے، اس طرح ایک ایک کھیل ختم ہوتا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کی عدم دلچسپی اور غفلت کی وجہ سے کوئی بھی کھیل ترقی نہیں کر پا رہا، یہاں تک کہ اب کرکٹ میں بھی جاوید میانداد ،عمران خان، اور ظہیر عباس جیسے لوگ پیدا نہیں ہو رہے۔خدارا پاکستان کی آنے والی نسلوں کے ساتھ مزید زیادتی نہ کی جائے، انہیں تعلیمی اداروں میں صرف سیاست کرنے اور سیاسی بننے کیلئے نہ چھوڑا جائے بلکہ ان کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے مواقع بھی دیئے جائیں۔ اس طرح ہمارے تعلیمی اداروں کا ماحول دوبارہ خوشگوار ہو جائیگا، لوگوں کی کھیلوں کے اندر دلچسپی دوبارہ بڑھنا شروع ہو جائیگی اور یوں پاکستانی عوام گھٹن زدہ ماحول سے خوشگوار ماحول کی طرف لوٹ آئیں گے‘‘۔شوکت یوسفزئی کے جواب پر ہانی بریلوی کا شعر یاد آتا ہے کہ
حق بات بولنے کی قسم جب سے کھائی ہے
جینا ہمارا شہر میں دشوار ہو گیا