صہیونی نظریہ آج کے دور میں صرف یہودی قومیت اور یہودی سرمائے کی اجارہ داری ہی کا نظریہ نہیںبلکہ نسل پرستی اور عرب دشمنی پر بھی مبنی ہے۔ اسرائیل کے قیام سے قبل صہیونی مفکروں اور دانشوروں نے اپنے مضامین میں ایک عجیب وغریب منطق پیش کی کہ وہ یہودیوں کے سوا فلسطین میں رہنے والے باقی عربوں کو وہاں کا شہری تسلیم نہیں کرتے۔ اس نرالی منطق کے مطابق تقریباً 90 لاکھ یہودی تو فلسطینی قرار دے دیے گئے اور تقریبا ڈیڑھ کروڑ عربوں کو مہاجر بنا دیا گیا۔ اسرائیل کے قیام کے چند دنوں بعد ہی صہیونی لیڈروں نے ایک نیا نعرہ بلند کیا کہ دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین لا کر بسایا جائیگا اور اسکے کچھ ہی عرصے بعد یہ قانون بنا دیا گیا کہ دنیا بھر کے یہودی اسرائیلی شہریت حاصل کر سکتے ہیں اس قانون کو یکم اپریل 1952کو نافذ کیا گیا۔ یہ کوئی پہلی اپریل کا روایتی مذاق نہیں تھا بلکہ اسرائیل کا ایک سنجیدہ اقدام تھا اس دن سے اسرائیلی حکومت نے عرب و فلسطینی دشمنی کا کھل کر مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔وہ دن جائے اور آج کا آئے، اسرائیل نے اپنے گھناؤنے مقاصد کی تکمیل کیلئےہر حربہ استعمال کیا ہے۔ اسرائیلی مفکروں اور دانشوروں نے ان مضامین میں یہ بھی بتایا ہے کہ اسرائیلی یہودی اپنے بعض اصولوں پر سختی سے قائم ہیں مثلاً اسرائیلی کسی غیر یہودی کو انسان تصور کرنے پر آمادہ نہیں ۔بعض نے غیر یہودیوں سے کسی قسم کے لین دین یا تعلقات کو سختی سے بند کر رکھا ہے ما سوائے ان لوگوں کے جو شاید کسی وقت مفید ثابت ہو سکیں ۔مضمون میں کہا گیا ہے کہ جب ایک غیر یہودی زندگی کے آخری سانس لے رہا ہوتا ہے تو یہودیوں کیلئے خوشی کا اظہار کرنا ضروری ہے۔ ایک غیر یہودی کو’’دھکا دینا‘‘یا کسی مصیبت میں مبتلا کرنا اسرائیلی حکومت کے نزدیک کوئی برائی نہیں اور وہ گوشت کا ٹکڑا غیر یہودی کو دینے کی بجائے کتے کے آگے ڈال دینے کو ترجیح دیتے ہیں اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ یہودی آپس میں بھائی بھائی ہیں (اسی لیے اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ ایک اسرائیلی یہودی، اسرائیلی وزیراعظم اسحاق روبین پر قاتلانہ حملہ بھی کر سکتا ہے) اور انہیں ایک دوسرے کی ہر حال میں مدد کرنی چاہیے اور یہ کہ غیر یہودیوں کے مقابلے میں متحد رہنا چاہیے کہ وہ کتوں سے بھی بد تر ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ اسرائیلی حکومت نے معرض وجود میں آتے ہی عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ ہی کی رپورٹوں کے مطابق دیکھا جائے تو آج تک اسرائیلی حکومت ہزاروں عربوں اور لاکھوں فلسطینیوں کو قتل اور تباہ و برباد کر چکی ہے۔ پچھلے دنوں ہالینڈ کے ایک بین الاقوامی قانون کے ماہر پی ون ڈیک نے عربوں کی بے دخلی پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حقیقتاً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اسرائیلی ریاست کو صرف یہودیوں کیلئے ہی مخصوص کرنا چاہتے ہیں بالکل اس طرح جیسے کہ جرمن نازی یہودیوں کو بےدخل کر کے جرمنی کو صرف نازیوں کی ریاست بنانا چاہتے تھے وہ عرب یا فلسطینی جو اب بھی اسرائیل میں موجود ہیں انکی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی سی ہے کہ ان سے تمام شہری حقوق چھین لیے گئے ہیں تاہم کبھی کبھار اسرائیل کے اندر سے بھی ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند ہوتی رہتی ہے۔ حال ہی میں اسرائیل کی انسانی اور سول حقوق کی لیگ کے چیئرمین نے مشرق سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک خصوصی کمیشن کے نام اپنی ایک یادداشت میں لکھا ہے کہ فلسطین کے مزدوروں اور دیہاڑی داروں کو یہودی مزدوروں کے مقابلے میں بہت کم تنخواہ ملتی ہے کہ انکی تنخواہ پہلے تو حکومت کے پاس جاتی ہے اور پھر ان کا 20 فیصد کاٹ کر بقیہ ان کو دے دیتے ہیں۔ (یاد رہے کہ یہ حالات غزہ کی پٹی کو تہس نہس کرنے سے پہلے کے ہیں)اسرائیل کے سماجی اور سیاسی نظام کے امریکی محقق ولیم ڈان نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ دستوری طور پر اسرائیل چونکہ یہودی ریاست ہے اس لیے وہاں یہودیوں اور غیر یہودیوں میں فرق جائز ہے۔ صہیونیت اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ دنیا بھر کے یہودی اسرائیل کے قدیم باشندے ہیں اور یہودی قوم ایک مشترکہ جذبہ، مسلسل جدو جہد ،واحد مذہب ہے اور ایک مخصوص تاریخ کی مالک ہے۔ صہیونی مفکر یہودیت کے اس عقیدے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ یہودی خدا کی پسندیدہ نسل ہے اور اس طرح نسل پرستی کے جذبے کو مزید تقویت پہنچاتے ہیں (نازیوں کی بھی جرمن آرین کے بارے میں یہی سوچ و فکر تھی) اسرائیل میں نسل پرستی کا یہ رویہ عربوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ حکمران طبقہ یورپی یہودیوں اور افریقی و ایشیائی یہودیوں میں بھی نمایاں طور پر تفریق کرتا ہے اسی لیے افریقی ایشیائی اور عر ب یہودیوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ یورپی یہودی اعلیٰ عہدوں پر فائز نظر آتے ہیں اور ملک کے اہم فیصلوں کو اپنے ذہن کی کسوٹی پر جانچتے ہیں اور ریاستوں کے اہم فیصلوں میں صرف انہی کا عمل دخل ہے جبکہ دیگر یہودی معاشرے کی نچلی سیڑھی پر کھڑے ہیں۔ اسرائیل فسطائیت کی بدترین مثال ہے اس کی تمام پالیسیاں عرب دشمنی اور نسل پرستی پر مبنی ہیں مگر اسرائیلی لیڈروں کو یہ بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ یورپ کی فسطائی طاقتوں کی طرح ایک دن اس کو بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا اور عظیم اسرائیل کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
تم کو خلوت کی ضرورت ہے نصیحت کی نہیں
اپنی صحبت میں رہو گے تو سدھر جاؤ گے