• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ایک امن پسند ریاست ہے، جو خطے میں استحکام، ہم آہنگی اور باہمی تعاون کی خواہا ں ہے۔ اسکی پالیسی ہمیشہ سے مذاکرات، سفارتکاری اور پرامن ذرائع سے تنازعات کے حل پر مبنی رہی ہے۔ تاہم، بھارت کی مسلسل جارحیت، سرحدی اشتعال انگیزی اور دہشت گردی کی سرپرستی خطے کے امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔ بھارت کی جانب سے بارہا پاکستان کی سرحدوں کو چیلنج کرنیکی کوششیں اور دہشت گردی کو ہوا دینے کی سازشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ماضی میں جب بھی بھارت نے اپنے ناپاک عزائم کے تحت پاکستان کیخلاف جارحیت کی، پاکستانی افواج نے اسے منہ توڑ جواب دیا اور دشمن کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ یہ پاکستان کی عسکری قوت ،پیشہ ورانہ صلاحیت اور ناقابل شکست حوصلے کا ثبوت ہے کہ وہ ہر قسم کی جارحیت کا مقابلہ کرنیکی مکمل صلاحیت رکھتا ہے ۔بھارت کو یہ واضح پیغام دینا ضروری ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی اور اشتعال انگیزی سے باز آئے۔ پاکستان کی مسلح افواج،جو جدید ہتھیاروں ،اعلیٰ تربیت اور لازوال جذبے سے لیس ہیں، کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں ۔اگربھارت نے ایک بار پھر جنگ مسلط کرنےیا دہشتگردی کی کوشش کی تواسے نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑیگا۔ ماضی کی ناکامیاں بھارت کیلئے عبرت کا سامان ہیں کہ پاکستان کے صبر اور تحمل کو اسکی کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاک فوج نے ہر بار دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا ہے، چاہے وہ سرحدی جھڑپیں ہوں یا دہشتگردی کی سازشیں۔ یہ روایت آئندہ بھی جاری رہیگی اور بھارت کو ہر قیمت پر سبق سکھایا جائیگا۔ پاکستان کا بنیادی ہدف خطے میں امن کا قیام ہے، لیکن یہ امن اسکی خود مختاری، وقار یا قومی سلامتی کی قیمت پر نہیں ہوسکتا۔ پاکستانی قوم اپنی افواج کیساتھ یکجہتی سے کھڑی ہے اور افواج کا ہر جوان وطن کی حفاظت کیلئے اپنی جان کی بازی لگانے کو تیار ہے۔ بھارت کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزیاں اور اشتعال انگیز بیانات خطے کے امن کو خطرے میں ڈالتے ہیں، لیکن پاکستان ہر حال میں چوکس ہے۔ سفارتی محاذ پر بھی پاکستان اپنی پوزیشن کو مضبوط کر رہا ہے۔ عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ ایک ذمہ دار اور پُرامن قوم کے طور پر مسلمہ ہے۔ خطے کے ممالک ،خصوصاً چین، ترکی، ایران اور آذربائیجان جیسے اتحادیوں کیساتھ گہرے تعلقات نے پاکستان کی سفارتی طاقت کو اجا گر کیا ہے۔ یہ تعلقات نہ صرف خطے میں استحکام کیلئے اہم ہیں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی مضبوط کرتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ اپنے اتحادیوں کیساتھ کھڑے ہونیکا حق ادا کیا ہے اور یہ اسکی سفارتی پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ جنگ بندی کے ثالث ممالک کے ذریعے بھارت کو خبردار کرے کہ وہ اپنی سرحدوں میں رہے اور خطے کے امن کو خطرے میں نہ ڈالے، ورنہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے ہر جارح کو عبرتناک شکست دی ہے۔ یہ وقت ہے کہ بھارت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور اشتعال انگیزی کے بجائے امن کی راہ اپنائے ورنہ اسے ناقابل برداشت نتائج بھگتنا ہونگے، جسکا اعتراف خود بھارتی ارباب دانش بھی کر رہے ہیں ۔

دوسری جانب وفاقی حکومت کے قرضے ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔ وفاقی حکومت کے قرضے ریکارڈ 76ہزار 45ارب روپے ہوگئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے مئی 2025ءتک وفاقی حکومت کے قرض سے متعلق اعداد و شمار جاری کئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کا مقامی قرضہ 53ہزار 460 ارب روپے ہوگیا جبکہ بیرونی قرضہ 22 ہزار 585 ارب روپے رہا۔ یہ ٹھیک ہے کہ وفاقی حکومت معاشی معاملات میں سدھار پیدا کرنے کیلئے کوششیں کر رہی ہے اور بین الاقوامی سطح پر ان کوششوں کا اعتراف بھی کیا جارہا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان کوششوں کے نتیجے میں عوام کی زندگی میں کتنی بہتری آتی ہے۔ امریکہ کے ساتھ اہم مفاہمتی معاہدہ یقینا ًپاکستان کیلئے مثبت نتائج کا حامل ہوگا لیکن ہمیں اس معاہدے کو مزید ثمر آور بنانے کیلئے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں اگر توانائی کی فراہمی کا مسئلہ تھوڑا سا حل ہوتا ہے تو قیمتیں اس حد تک بڑھ جاتی ہیں کہ برآمدی اشیاء کی لاگت میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے جس سے بین الاقوامی منڈیوں میں ہماری رسائی متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے تشکیل پانے والی حکومتوں کی بدلتی ہوئی پالیسیاں بھی نہ صرف اندرون ملک تجارتی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کرتی ہیں بلکہ برآمدی معاملات پر بھی ان کا منفی اثر پڑتا ہے۔حکومت اگر طویل مدتی تناظر میںاقتصادی معاملات کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو اس کیلئے وزیراعظم محمد شہباز شریف کے تجویز کردہ میثاقِ معیشت کی طرف جانا ہوگا۔ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں اور دیگرا سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کچھ بنیادی معاملات طے کئے جانے چاہئیں اور پھر حکومت کسی بھی جماعت یا گروہ کی ہو ان باتوں پر عمل درآمد یقینی بنائے۔ اس سے پالیسیوں میں جو تسلسل آئے گا اس سے اقتصادی معاملات میں بہتری آئے گی۔ علاوہ ازیں، ہمیں یہ طے کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس ملک کو واقعی ایک ریاست کے طور پر چلانا چاہتے ہیں یا اسے اشرافیہ کے مقبوضہ علاقے کی شکل دینی ہے؟ یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ محنت کشوں اور متوسط طبقے کو حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے اس حد تک پیس کر رکھ دیا گیا ہے کہ وہ چاہ کر بھی ملک کی اقتصادی ترقی کیلئے بھرپور کردار ادا نہیں کر پا رہا۔ اگر عوام دوست پالیسیاں اختیار کی جائیں تو یہی لوگ ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں، اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یہی طبقات ہیں۔

تازہ ترین