• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اتوار کے روز میں سات سے آٹھ گھنٹے ’ یرغمال‘ رہنے کے بعد ’ بازیاب‘ ہوگیا۔ وہ لمحات جس کرب میں گزرے اس کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں جو اس سے گزررہے ہیں۔ اگر کوئی آپ کے ’ واٹس ایپ‘ کو اپنے کنٹرول میں لے کر آپ بن کر ان تمام نمبرز پر پیغامات ، درخواستیں،خاص طور پر پیسوں کی بھیجنا شروع کردے تو آپ یرغمال ہی تو ہوئے۔ صحافی کا کام اور ذمہ داری ’ خبر‘ دینے کی ہوتی ہے مگر کبھی کبھی آپ خود ’ خبر‘ بن جاتے ہیں۔ اس روز کچھ ایسا ہی ہوا۔ موبائل فون ویسے بھی ہمارے ذہنوں کو اپنے کنٹرول میں لے چکا ہے ہم آپس میں کم اور فون سے زیادہ باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ چار دوست ایک ٹیبل پر ہوتے ہیں مگر گفتگو موبائل سے کررہے ہوتے ہیں اب ایسے میں اگر آپ ہیکر کے ہاتھ لگ گئے تو وہ کسی’جن‘ کی طرح آپ کو قابو کرلیتا ہے۔ اس روز بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

یہ جرائم کی ایک نئی دنیا ہے جس سے نمٹنےکیلئے جن وسائل، ٹریننگ اور اہلیت کی ضرورت ہے اس میں ہم ابھی کافی پیچھے ہیں اور ’مجرم‘ بہت چالاک ہیں۔ حال ہی میں قائم نئی اتھارٹی این سی سی آئی کو ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے مگر مجھے خوشی ہے کہ چھٹی کے دن کے باوجود جس طرح ان کے دوستوں نے مدد کی اور میرا واٹس ایپ بازیاب کرایا ان افسران کا شکریہ۔ کچھ روز پہلے کراچی ہی کی ایک خاتون سیاستدان کو بھی اس ٹینشن سے گزرنا پڑا ہے۔ اس دوران ان سے گفتگو کرکے اندازہ ہوا کہ جرم کی اس وبا میں تیزی 2021ء کے بعد سے آئی جب پوری دنیا ’کورونا وائرس ‘ میں مبتلا ہوگئی تھی اور 90 فیصد کام آن لائن شروع ہوا اور مالی معاملات بھی آن لائن ہوگئے۔ سبق یہ ملا کہ آپ کو ہر طرح کا فون آئے اور آپ سے ہر طرح کے سوالات شروع کردیے جائیں تو آپ فون کاٹ کر دوبارہ اسی نمبر پر کال کریں۔ اگر کوئی کسی طرح کا کوڈ مانگے تو خبردار یہ غلطی نہ کریں۔ وہ کبھی کسی ادارے کے اہل کاربن کر فون کرتے ہیں، کبھی کسی کمپنی کے اہل کار بن کر۔ اگر پھر بھی غلطی ہوجائے تو 1799 کے نمبر پر فون کرکے اطلاع دیں۔ یہ سب اپنی جگہ مگر یہ ایک ایسی خطرناک وبا ہے جو کورونا سے کم نہیں۔ ایک اور مشورہ جو وفاقی سطح پر قائم این سی سی آئی کے ساتھی نے دیا وہ تھا کہ واٹس ایپ ہیک ہونے کے بعد اپنی ’سم‘ بلاک نہ کروائیں۔ سم بلاک کروانے کا مجھے ایک موبائل شاپ والے نے کہا تھا میں نے کہا بھائی صاحب سم بند کروں گا تو دوستوں کو پتا کیسے چلے گا کہ میرا واٹس ایپ ہیک ہوگیا ہے۔

اس روز صبح تقریباً 9 بجے مجھے ایک فون آیا کہ آپ کا ایک پارسل آیا ہوا ہے آپ ہمارے دفتر آئیں یا ہم آجائیں۔ میں نے سوچا کہ چھٹی کے روز کون اس وقت جائے تو میں نے کہہ دیا کہ آپ پہنچادیں اور یہی غلطی کرنے کی ابتدا تھی۔ یہ گفتگو کوئی 12 منٹ جاری رہی اور پھر اس نے کہا ایک ’کوڈ‘ ہے جسے دِکھا کر آپ پارسل لیجئے گا۔ جس بات نے مجھے چوکنا کیا وہ اس کا یہ کہنا تھا کہ اب آپ دو گھنٹے کیلئے موبائل بند کردیں۔ مگر میں نے ایسا نہیں کیا اور اس نے مجھے اپنا ’یرغمال‘ بنالیا۔ کچھ اطمینان ضرور ہوا کہ میں ’’ بازیاب‘‘ ہوگیا مگر اک انجانی سی کوفت اور ٹینشن اب بھی ہے کہ میں ان کے ’نشانہ‘ پر آگیا۔ واٹس ایپ کی بازیابی کی اطلاع ملی اور مجھے میرا فون واپس دیا گیا تو پھر میرے اندر کا صحافی باہر آیا۔ کوئی دو گھنٹے میں نے اور میرے ایک دوست نے سابقہ ایف آئی اے اور موجودہ این سی سی آئی کے دفتر میں گزارے تو اندازہ ہوا کہ اس چار کروڑ کے شہر میں جہاں لاکھوں افراد کے پاس موبائل ہیں صرف چند افسران اور اسٹاف… بڑی ناانصافی ہے۔

آخر یہ گینگ کون سا ہے یہ کون لوگ ہیں ؟ اس افسر کا جواب حیران کن تھا ’’ سر یہ دو گینگ ہیں جو یہاں آپریٹ کررہے ہیں۔ ان کو ماضی میں سزائیں بھی ہوچکی ہیں‘‘۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ حال ہی میں فیصل آباد سے ایک سو کے قریب ’ ہیکرز‘ پکڑے گئے ہیں جن میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ اسی طرح دیگر شہروں سے بھی مگر ہمارے قوانین اتنے کمزور ہیں کہ فون ہیک ہونے کی سزا صرف تین سال ہے۔ کسی کو ثابت کرنا بھی آسان نہیں کیونکہ یہ لوگ فون سے لے کر بینک تک بدلتے رہتے ہیں۔ جس مقام سے یہ گینگ آپریٹ کرتے ہیں اس تک رسائی بھی آسان نہیں۔ یہ ’مجرم‘ مالی طور پر بہت خوشحال نہیں ہوتے مگر گھر ہو نہ ہو خواہش ہوتی ہے نئی بڑی گاڑی رکھنے کی۔ ایک صحافی کی ساری فکر فون میں محفوظ اس کا ڈیٹا ہوتا ہے۔ وہ شاید اس ہیکر کیلئے توکسی کام کا نہیں مگر ہمارے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ بہتر ہے موبائل پر گفتگو کم سے کم ہو، دانشوری گروپ میں کرنے کے بجائے آمنے سامنے یا زوم پر ہوجائے ، غیر ضروری کال اٹھانے سے گریز کریں باقی تو انسان غلطی کرتا ہی ہے ہو جائے تو فوراً اطلاع کریں۔ بس اس بار بچت اللہ کے شکر سے اس وجہ سے ہوگئی کہ جس طرح میرے واٹس ایپ کے اغوا کاروں نے میرے دوستوں کو مظہر کرکے مخاطب کیا وہ میرا انداز کبھی رہا ہی نہیں اس لیے مجھے درجنوں کالیں آئیں اور یوں بچت ہوگئی۔ باقی زندگی تو حادثات کا نام ہے دعا یہی ہوتی ہے حادثہ سانحہ نہ بنے۔ تمام دوستوں کا شکریہ جنہوں نے اس مشکل میں ساتھ دیا۔

اب یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اس بار میرے کالم کا موضوع بھی جرائم تھا۔’ایک لاش کئی سوالات‘ تھا 1974کی شبنم عثمان ماڈل کے قتل سے لے کر حال ہی میں ہونےو الی ماڈل حمیرا اصغر کی پر اسرار موت تک ۔یہاں بھی اس کا موبائل، لیپ ٹاپ دیکھا جارہا ہے۔ ابھی تو ہم ارمغان کیس کو ہی حل نہیں کرپائے کہ یہ ہولناک واقعہ سامنے آگیا۔ ناجانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ یہ لاش8ماہ تک اس فلیٹ میں نہیں تھی۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ اتنے ماہ تک کسی نے بھی خبرنہیںلی۔

خیر اس وقت ’موبائل دہشت گردی‘ کی بات ہورہی تھی ۔ اب تو سیاست ہی موبائل ہوگئی ہے اور بہت سوں کی تو سیاست بھی HACKہوگئی ہے کچھ کی ’صحافت‘ بھی۔ یعنی بول کوئی اور رہا ہوتا ہے زباں کسی کی ہوتی ہے۔ خیر، اس سب کا تعلق تو بدلتے ڈاکٹرائن اور بیانیہ سے ہوتا ہے مگر جہاں تک بات جرائم کی اس موبائل دنیا سے ہے اس کیلئے لازم ہے کہ اگر این سی سی آئی جیسی اتھارٹی آپ نے بناہی دی ہے تو اس کو بین الاقوامی معیار کا بنائیں کوئی پولیس تھانہ نہ بنائیں۔’میرٹ‘ جسکی اس معاشرے میں کبھی قدر نہیں ہوئی اگریہاں بھی پسند اور ناپسند رکھی گئی تو نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے، ایک درخواست ضرور ہے این سی سی آئی کے دوستوں سے جنہوں نے بے انتہا مدد کی کہ اپنی HELPLINE 1799کو اتوار کے روز بھی کھلا رکھیں یہ24گھنٹے کی سروس ہے۔

تازہ ترین