• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا لگتا ہے کہ بس قیامت آنے ہی والی ہے کہ ہر گزرنے والا دن اَن ہونے واقعات کی خبر دے رہا ہے۔ دکھ ہے کہ پھیلتا ہی جا رہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل جس ڈھٹائی اور سنگ دلی سے فلسطینیوں کو اَن جانے ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہا ہے، جبکہ اُس کے آگے پورا عالم بےبسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ اِس منظرنامے سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم قیامت کے نرغے میں ہیں۔ اقوامِ متحدہ جسکے ارکان کی تعداد ۲۰۰ کے لگ بھگ ہے اور جو قیامِ امن کیلئے تشکیل دی گئی تھی، اُس کی طرف سے گاہے گاہے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے، مگر ظالم کا ہاتھ پکڑنے اور مظلوم کو تحفظ کا احساس دلانے کیلئے کوئی عملی قدم اٹھتا ہوا دِکھائی نہیں دے رہا۔ خیر سے آزاد مسلم ممالک کی تعداد بھی ۵۷ تک جا پہنچی ہے اور اُن کی عالمی تنظیم او آئی سی کے نام سے قائم ہے جو وقفے وقفے سے اپنے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ ایک زمانے میں امریکہ اور یورپی اقوام انسانی حقوق، جمہوری بودوباش اور اَمنِ عامہ کا پرچم تھامے ہوئے تھیں، مگر وہ غزہ میں انسانیت کی تذلیل کا روزانہ ایک خوںآشام اور دِلگداز منظر دیکھتی ہیں اور آنکھیں بند رکھتی ہیں۔ ایک وقت عرب لیگ کا بڑا چرچا تھا، مگر اب وہ خوابِ خرگوش کے لطف اُٹھا رہی ہے۔ غضب خدا کا کہ امریکہ جو اَپنے آپ کو مغربی تہذیب کا اِمام سمجھتا اور اَپنی معاشی اور فوجی طاقت سے پوری دنیا پر حکمرانی کرتا آیا ہے، اُس نے غزہ میں فلسطینیوں کا خون بہنے سے روکنے کے بجائے سیزفائر کے معاملے میں اپنا ویٹو باربار اِستعمال کیا ہے۔

بنیادی طور پر اِس انتہائی سنگین معاملے میں اُمتِ مسلمہ کو کلیدی کردار اَدا کرنا چاہیے، مگر وہاں انتشار اَور دَاخلی خلفشار کا یہ عالم ہے کہ گھر کے چراغ ہی سے گھر جل اُٹھا ہے۔ آئے دن پچاس ساٹھ فلسطینی اسرائیل کی سنگینوں سے شہید کر دیے جاتے ہیں جن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ اسرائیل ستم کے نئےنئے طریقے ایجاد کر رہا ہے۔ خبر آئی ہے کہ امریکہ نے فلسطینیوں کو اِمداد پہنچانےکیلئے ایک تنظیم قائم کی۔ امداد حاصل کرنے کیلئے بھوکے بچے قطار میں لگے ہوئے تھے کہ اُن پر زہریلا اسپرے کیا گیا اور سینکڑوں بچے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ دل دہلا دینے والے یہ مناظر پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ اسرائیل نے اِس امر کا پورا اِہتمام کیا ہے کہ مظلوم فلسطینیوں تک کوئی امداد نہ پہنچنے پائے اور وُہ بلک بلک کر اِس دنیا سے سدھار جائیں۔ فلسطینیوں کا سب سے بڑا روزگار مچھلیاں پکڑنا اور اُنہیں فروخت کرنا تھا۔ اب اسرائیل نے یہ پابندی عائد کر دی ہے کہ وہ سمندر کے قریب بھی نہیں جائیں گے۔ اِس پر فلسطینیوں کی یہ آہ و بکا سننے میں آ رہی ہے کہ اگر اُنہیں سمندر سے دور رَکھا گیا، تو وہ بھوک سے مر جائیں گے۔ اسرائیل تو یہی چاہتا ہے کہ وہ بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر جائیں اور اُن کے علاقوں پر اسرائیلی غنڈے قابض ہو جائیں۔ عالمی مبصرین جو بڑی مشکل سے غزہ کے اندر دَاخل ہو سکے ہیں، اُن کی رپورٹ یہ ہے کہ غزہ بچوں اور بھوکوں کا قبرستان بنتا جا رہا ہے اور سب سے بڑا اِنسانی المیہ وجود میں آ گیا ہے جو اِنسانی تہذیب و تمدن کی بنیادیں ہلا ڈالے گا۔

میرے نزدیک اِس وقت غزہ دُنیا کا سب سے زیادہ تکلیف دہ اَلمیہ ہے جس پر قابو پانے کیلئے پاکستان کو قائدانہ کردار اَدا کرنا ہو گا۔ دراصل تحریکِ پاکستان اور مسئلۂ فلسطین کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ لاہور کے مقام پر ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس میں جہاں برِصغیر کے مسلمانوںکیلئے ایک آزاد وَطن کا مطالبہ کیا گیا تھا، اُسی میں فلسطین کی آزادی کی قرارداد بھی منظور ہوئی تھی۔ اِس کے بعد ہر سال آل انڈیا مسلم لیگ قائدِاعظم کی زیرِصدارت فلسطین کی آزادی کی قرارداد تسلسل کے ساتھ منظور کرتی رہی۔ پاکستان کے قیام کے بعد اسرائیلی دہشت گردوں کی خوفناک سرگرمیوں سے عاجز آ کر اقوامِ متحدہ نے ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کو ریاست کا درجہ دے دیا، تو قائدِاعظم نے اُسے ناجائز بچے کی پیدائش سے تعبیر کیا۔ اُس وقت سے پاکستان فلسطین کی آزادی میں گہری دلچسپی لیتا اور ہر عالمی فورم پر مثبت کردار اَدا کرتا آیا ہے۔ خوش قسمتی سے اِس وقت پاکستان سلامتی کونسل کی صدارت کے منصب پر فائز ہے، اِس لیے وہ مؤثر کردار اَدا کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہے، تاہم اِس کیلئے اُسے مسلم اُمہ اور آزاد دُنیا کی حمایت درکار ہو گی۔ یہ بھی پاکستان کی بہت بڑی خوش بختی ہے کہ بھارت کے ساتھ چار روزہ جنگ میں اُسے زبردست فتح ہوئی جس کی بدولت عالمی برادری میں اُس کی دفاعی طاقت کی دھاک بیٹھ گئی ہے اور سفارتی محاذ پر اُسے غیرمعمولی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اِس بنا پر اُس کی آواز میں پہلے سے کہیں زیادہ وَزن پیدا ہو گیا ہے۔ بلاشبہ یہ پاکستان پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا ہے۔

یہ حالات اِس امر کے متقاضی ہیں کہ پاکستانی قیادت چھوٹے چھوٹے معاملات میں الجھے رہنے کے بجائے فوری طور پر غزہ میں فلسطینیوں کے مسائل کا حل تلاش کرنے اور اِسرائیل کو اُس کے کرتوتوں پر عبرتناک سزا دِلانے کیلئےاپنی تمام تر توجہ مرکوز کر دے۔ ہمیں امید ہے کہ بیشتر آزاد ممالک پاکستان کی آواز پر لبیک کہیں گے۔ غزہ میں اسرائیل کا جو بھیانک چہرہ بےنقاب ہوا ہے، اُس سے مغربی اقوام کی سوچ بھی متاثر ہوئی ہے۔ اسرائیلی وزیرِاعظم کے خلاف امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں بھی مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں اور مختلف ممالک کی پارلیمنٹ سے یہ آواز اُٹھ رہی ہے کہ فلسطین کو ایک آزاد رِیاست کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ یہ امر قابلِ اطمینان ہے کہ پاکستان کے وزیرِاعظم جناب شہبازشریف اور سپہ سالار فیلڈمارشل سیّد عاصم منیر نے فلسطین کے حق میں اور اِسرائیل کے خلاف جرأت مندانہ اقدامات کیے ہیں۔ اب اُنہیں فائربندی کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کو ایک باعزت مقام دلانے اور اِسرائیل کو نسل کشی کے جرم کی کڑی سزا دلانےکیلئے سائنٹفک کوششیں جاری رکھنا ہوں گی۔

تازہ ترین