جہاز نے دبئی کیلئے ٹیک آف کیا تو میرے برابر میں بیٹھے ہوئے دیہاتی نوجوان کی آنکھیں تارے لگ گئیں جہاز جوں جوں اوپر کی طرف جا رہا تھا اس کی آنکھیں باہر کو ابلتی لگ رہی تھیں۔وہ تازہ سلے ہوئے کپڑوں میں ملبوس تھا جسکی دھلائی کی نوبت بھی نہیں آئی تھی چنانچہ اس کی قمیض اور شلوار پر دھاگوں کے ٹوٹے ابھی تک چمٹے ہوئے تھے ۔ وہ تلاش روزگار میں بیرون ملک جا رہا تھا اور وضع قطع سے سو فیصد’’ دبئی چلو‘‘ ڈرامے کا کردار لگتا تھا۔ اس کے پاؤں میں دیسی گھی کا ڈبہ پڑا تھا اور جب جہاز نے بندے دے پتروں کی طرح پرواز شروع کی تو اس کے ہوش کچھ کچھ ٹھکانے آئے اور اس نے ایک پوٹلی میں سے پنجیری نکال کر مجھے پیش کی، اس کا نام محمد حسین تھا۔اس کے برابر میں بھی ایک سفید پوش بوڑھا دیہاتی بیٹھا تھا جسے غالباً بیرون ملک موجود اس کے کسی بیٹے نے ملنے کیلئے بلایا ہوگا۔ محمد حسین کی آنکھوں کی پتلیاں تو واپس اپنی جگہ پر آگئی تھیں مگر وہ خاصا بے چین اور مضطرب نظر آتا تھا اور اپنا ایک ہاتھ بار بار اپنی جھولی کی طرف لے کر جاتا تھا۔ وہ تھوڑی دیر بعد کروٹ بھی بدلتا تھا اور اپنی حرکات و سکنات کے دوران کنکھیوں سے مجھے یوں دیکھتا جیسےمجھ سے کچھ چھپانے یا کچھ بتانے کی کش مکش میں ہو مگر تاحال کسی فیصلے پر نہ پہنچ پایا ہو کہ آیا اپنی پریشانی کا اظہار کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے دریںاثنا اس نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ اپنی جھولی میں ڈالا اور بالآخر وہ ایک فیصلے تک پہنچ گیا۔صاحب جی ! اس نے جھینپتے ہوئے مجھے مخاطب کیا۔ یہ پٹہ تو کھول دیں۔ مجھ سے کھل نہیں رہا میں نے اس کی کمر کی طرف دیکھا تو سیفٹی بیلٹ اپنی پوری سختی کے ساتھ اس کی کمر میں دھنسی ہوئی تھی۔ اس نے میری پیروی میں یہ پٹہ باندھ تو لیا تھا مگر اب کھولنے میں اسے اس طرح دشواری پیش آرہی تھی جس طرح اکثر شریف آدمیوں کو اس ضمن میں پہلی بار پیش آتی ہے ۔میں نے جب ہاتھ کی ایک ذراسی جنبش سے اس کی یہ مشکل رفع کر دی تو وہ خاصا حیران ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے ایک عظیم سائنس دان سمجھا ہوگا۔ فضائی میزبانوں نے اپنے مہمانوں کیلئے کھانا چننا شروع کر دیا تھا۔میں نے اپنے اس رفیق سفر کو ایمبیرسمنٹ سے بچانے کیلئےاگلی نشست سے لگی ٹرے کا بٹن کھولا تو یہ ایک چھوٹی سی ٹرے کی صورت میں اسکے سامنے بچھ گئی۔ وہ میری اس سائنسدانی پر یقیناًایک بارپھر حیران ہوا ہوگا۔کھانے میں جو کچھ تھا وہ محمد حسین خاصی بے دلی سے چبا رہا تھا۔ اس دوران اس نے اپنے پاؤں میں دھرے ٹفن کیریئر کی طرف دو ایک دفعہ ہاتھ بھی بڑھایا جس میں یقیناً گندلوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی ہو گی مگر وہ ہر دفعہ رک گیا۔ شاید وہ ایک اور’’ندامت‘‘ کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ اسکے برابر میں بیٹھے ہوئے باریش دیہاتی بزرگ بھی کچھ اسکی طرح یہ کھانا زہر مار کر رہے تھے۔ کھانے سے فراغت کے بعد بھی جب کچھ دیر تک فضائی میزبانوں نے ادھر کا رخ نہ کیا تو اس بزرگ نے کچھ فاصلے پر سے گزرتی ہوئی ایک ائیر ہوسٹس کو ہاتھ کے اشارے سے بلایا اور پھر بآواز بلند کہا۔ کڑیے ایہہ بھانڈے تے چُک کے لے جا ! (لڑکی یہ برتن تو اٹھا کر لے جاؤ)۔ اس دوران میں نے اکتاہٹ کے عالم میں ایک جماہی لی اور کافی کا انتظار کرنے لگا میں اگر چہ محمد حسین سے پہلی بار متعارف ہوا تھا مگر میرے لیے یہ شخص نیا نہیں تھا۔ میں نے کئی برس قبل میونخ کی’’ بابے دی ہائم‘‘ میںمحمد حسین جیسے اپنے بے شمار ہم وطنوں سے ملاقات کی تھی۔ جرمنی میں’’ہائم‘‘ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں بے شمار لوگ ایک چھت تلے رہتے ہوں۔ اپنے اپنے گھروں سے روز گار کی تلاش میں نکلے ہوئے ہزاروں پاکستانی میونخ کی اس نوع کی ہائموں میں اپنے اپنے گھروں سے بھی بدتر حالات میں رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی سہولت کیلئے ان ہائم کے نام تجویز کر رکھے تھے۔ کسی کو وہ ’’چاچے دی ہائم‘‘ اور کسی کو’’ بابے دی ہائم‘‘کہتے تھےجو ہائم میں نے دیکھی تھی اس کا نام’’بابے دی ہائم‘‘ تھا۔ وہ شہر میں دن بھر محنت مزدوری کرتے اور رات کو’’ بابے دی ہائم ‘‘ میں قطار اندر قطار بچھی چارپائیوں پر باری باری آکر سو جاتے اور سکھ کے سپنے دیکھتے۔میں نے ان سب کی کہانیاں سنی تھیں۔ انکے سروں پر کتنی ذمہ داریاں تھیں اور وہ کن حالات میں ترک وطن پر مجبور ہوئے تھے ۔ یہ سب کچھ میں نے ان کی زبان سے سنا تھا۔ یہ بہت دلخراش کہانیاں تھیں اور ایک دلخراش کہانی محمد حسین کی صورت میں اس وقت بھی میرے ہمرکاب تھی چنانچہ اس سے گفتگو کے نتیجے میں مجھے کوئی نئی بات معلوم نہ ہوئی۔ اگر معلوم ہوا تو یہی کہ اس کا باپ مرچکا ہے۔ سات جوان بہنوں کا وہ اکلوتا بھائی ہے جنکی عمریں ڈھلنا شروع ہو گئی ہیں۔ ماں محنت مزدوری کرتی ہے اور اب اس نے پیسہ پیسہ جوڑ کر ادھر اُدھر سے جمع کر کے اپنے بیٹے کو باہر بھجوانے کاانتظام کیا ہے۔ وہ اپنے جگر سے اپنے ٹکڑے کو علیحدہ کرنے پر مجبورہو گئی ہے، دبئی اب دور نہیں تھا۔ چنانچہ جہاز اب آہستہ آہستہ بلندی سے پستی کی طرف آرہا تھا محمد حسین نے ایک ہجرت 1947ء میں کی تھی اور اسکی دوسری ہجرت کا سلسلہ 1947ء سے اب تک جاری ہے۔ 1947ء میں اس کی ہجرت اپنی روحانی ضرورتوں کیلئے تھی جبکہ اس کی دوسری ہجرت کا تعلق اس کی معاشی ضرورتوں کے تحت ہے۔ اس کے نبیﷺ نے مکہ سے مدینہ کی طرف صرف ایک ہجرت کی تھی اور دین اور دنیا کے مقاصد کی تکمیل ہو گئی تھی!جوں جوں جہاز پستی کی طرف جاتا محمد حسین کا دل ڈوبنے لگتا۔ اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے اور وہ ہولے ہوئے ورد کر رہا تھا ۔لا اله الا انت سبحانك انى كنت من الظلمين۔