• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر ہے۔ تقریباََ آٹھ لاکھ بھارتی فوج، کشمیر پولیس، سینٹرل ریزرو پولیس اور بارڈر سکیورٹی فورس کی سخت نگرانی میں بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیر یں لوک سبھا کی چھ نشستوں کے لئے ’’ انتخابات‘‘ ہو رہے ہیں۔ دورانیہ ہے 10اپریل سے 7مئی 2014، بھارت بیزار کشمیریوں اور ان کی قیادت نے نام نہاد انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا ہے ۔ لوگ جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے آزادی کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں ۔ سینہ کوبی کرتی ہوئی خواتین جلوس نکا ل رہی ہیں نوجوان پولنگ اسٹیشنوں کے باہر بائیکاٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے پہرہ دے رہے ہیں۔ سیکورٹی فورسز اور وظیفہ خور سیاسی لیڈروں کے دبائو پر ووٹ ڈالنے کے لئے آنے والوں کو روک رہے ہیں ۔ پولیس اور فوج پر پتھرائو اور خشت باری کررہے ہیں ۔ ان سے نمٹنے کے لئے پولیس کی ساڑھے سات ہزار اضافی نفری بلا لی گئی ہے۔ مزید دس بٹالین فوج کو بھی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ شیخ عبداللہ کے پوتے عمر عبداللہ کی کٹھ پتلی حکومت کو سری نگر سمیت ’’شورش زدہ ‘‘علاقوں میں بار بار کوفیو لگانا پڑ رہا ہے ۔ فوج اور پولیس لوگوں کو گھروں سے نکالنے کیلئے چھاپے مار رہی ہے خوف و ہراس پھیلانے کے لئے ہوائی فائرنگ کے علاوہ گھروں کے دروازے توڑے جار ہے ہیں ۔ توڑ پھوڑ ہو رہی ہے ۔ گولیوں کے ساتھ گولے بھی آزمائے جا رہے ہیں۔ نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کی جارہی ہے ۔ سرعام تشدد بھی کیا جا رہا ہے تاکہ دیکھنے والے عبرت پکڑیں ۔ لیکن حریت رہنما بائیکاٹ کے فیصلے پر ڈٹے ہوئے ہیں نوجوان میر واعظ عمر فاروق ، سفید ریش سید علی گیلانی ، عمر رسید ہ عبد الغنی بھٹ، شعلہ بیان یسیٰن ملک، سیماب صفت شبیر احمد شاہ اور دیگر رہنمائوں کو ’’انتخابی مہم‘‘ کے دوران گرفتار یا گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے ۔ بائیکاٹ کی خبریں چلانے والے صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ الیکشن کیا ہے فوجی آپریشن ہے جس کی مدد سے بھارت نواز پارٹیاں اپنی مہم چلا رہی ہیں ۔ قیدو بند اور پکڑ دھکڑ کے اس ماحول میں بمشکل بیس پچیس فیصد ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا ۔ بعض پولنگ اسٹیشنوں پر کوئی ووٹ ڈالنے نہیں آیا صرف پولنگ ایجنٹوں نے یہ ‘‘جمہوری حق‘‘ استعمال کیا۔ خود بھارتی الیکشن کمیشن نے ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد 27سے30فیصد تک بتائی۔ کمیشن کے مطابق جنوبی کشمیر میں 28اور وسطی کشمیر میں 26فیصد ووٹ ڈالے گئے ۔ جموں ریجن میں جہاں باہر سے ہندئوں کو لا کر آباد کیا جا رہا ہے ۔ ووٹنگ کی شرح کچھ زیادہ تھی۔ گویا ستر فیصد سے زائد کشمیریوں نے بھارت کے خلاف فیصلہ دے دیا ۔ یہ فیصلے وہ با ر بار دے رہے ہیں ۔ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کا جموں اور وادی دونوں خطوں سے صفایا ہو گیا ۔ وزیراعلیٰ کے والد ماجد فاروق عبداللہ 30ہزار ووٹوں سے ہار گئے ۔ کانگریسی رہنما اور وفاقی وزیر غلام بنی آزاد نے بھی شکست کا مزہ چکھا ۔ وادی کی تینوں سیٹیں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے جو بھارت کی حاشیہ برداری میں نیشنل کانفرنس کی جانشین ہے جیت لیں۔ جموں لداخ اور پونچھ کی تین نشستیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے حصے میں آئیں ۔ یہاںکامیاب ہونے والے سارےغیر مسلم ہیں۔
اس مرتبہ انتخابات میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 موضوع گفتگو رہی۔ اس دفعہ کی بدولت مقبوضہ کشمیر کو بھارتی آئین میں متنازعہ تسلیم کیا گیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی اور بی جے پی کے کئی دوسرے لیڈر یہ راگ الاپتے رہےکہ وہ برسر اقتدار آکر آئین سے اس دفعہ کو خارج کر دیںگے اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے نہ صرف اسے بھارتی ریاست کا باقاعدہ درجہ دیں گے بلکہ پاکستان سے آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کی واپسی کا مطالبہ بھی کریں گے ۔ کشمیری رہنمائوں نے اس دفعہ کے حوالے سے انتہا پسند بھارتی لیڈروں کے بیانات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا کیونکہ وہ بھارت میں جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے منکر ہیں وہ ریاست کی مکمل آزادی اور پاکستان سے الحاق کی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ البتہ اس دفعہ کی اتنی سی اہمیت ضرور ہے کہ اس کی رو سے بھارت جو عملاََ جموں وکشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روح کےمطابق ریاست کی خصوصی اور متنازعہ حیثیت کو اپنے آئین میں بھی تسلیم کر تا ہے ۔ اس دفعہ کے تقاضوں کے مطابق وہ پاکستان سے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی بات بھی دہراتا رہتا ہے ۔ بی جے پی کی سابقہ حکومتوں اور موجودہ قیادت کا بھی سرکاری طور پر یہی موقف ہے لیکن ساتھ ہی اٹوٹ انگ کی رٹ لگا کروہ اپنی سرکاری پوزیشن سے انحراف کی راہ بھی نکال رہے ہیں ۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی دفعہ 370کی بحث کو تضیع اوقات قرار دیتے ہیں ۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ یہ دفعہ صرف کاغذوں تک محدود ہے مگر بھارتی آئین میں اس کا موجود ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اترپردیش یامشرقی پنجاب جیسی کوئی ریاست نہیں ہے اس طرح بھارت اپنےآئین کی رو سے بھی تسلیم کرتا ہے کہ جموں وکشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس کے حتمی سٹیٹس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ۔ سید علی گیلانی کا کہنا ہے کہ دلی والے اصل میں اس دفعہ کو ختم کرکے غیر ریاستی باشندوں کو بڑے پیمانے پر لاکر جموں وکشمیر میں بسانا چاہتے ہیں تاکہ یہاں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر سکیں ۔ یہ ہماری زمینوں پر قبضہ کرنے کیلئے اسرائیل کی طرز کا خطرناک منصوبہ ہے ۔اسرائیل نے بھی یورپ بھر سے یہودیوں کو لاکر فلسطینیوں کی سرزمین پر آباد کر دیا تھا اور اسے یہودی ریاست میں تبدیل کر لیا تھا۔ اگر اس منصوبے پر عمل کیا گیا تو ہماری جدوجہد آزادی نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گی اور کشمیری قوم بھارتی قبضے کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کیلئے ایک جھنڈے تلے جمع ہوجائےگی ۔ حریت کانفرنس کے دوسرے گروپ کے چیئرمین میر واعظ مولانا عمر فاروق نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نام نہادانتخابات رائے شماری کا نعم البدل نہیں ہو سکتے ۔ ایسے انتخابات 1947سے ہوتے چلے آ رہے ہیں ۔ ان سے جموں وکشمیر کی متنازعہ حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ان کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے منتخب ہونے والوں کا کہیں کوئی کردارنہیں ہے ۔ کیونکہ سیاسی فیصلے فوج کرتی ہے اور پالیسی ایجنسیاں بنا تی ہیں ، ہمارا مسئلہ انتخابات نہیں مسئلہ کشمیر کاحل ہے اور اس کے لئے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کو سری نگر اور مظفر آباد میں مذاکرات کرنے چاہئیں جن میں کشمیری قیادت بھی شریک ہو۔
تازہ ترین