• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چار روزہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی فضائی اور زمینی افواج نے جس سرعت، دلیری اور مہارت سے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، اس نے جہاں بھارت کی پوری سیاسی اور عسکری قیادت کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا وہیں تمام دنیا کو پاکستان کی حیران کن جنگی صلاحیتوں کا قائل و معترف بھی کردیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ اس ضمن میں خاص طور پر بہت غیرمعمولی رہا ۔ جنگ کے ابتدائی تین دنوں میں امریکی قیادت کی جانب سے عدم مداخلت کی عَلانیہ پالیسی چوتھے روز پاکستان کی تباہ کن فضائی کارروائی کے بعد اچانک تبدیل ہوگئی اور واضح شواہد کے مطابق بھارت کی درخواست پر صدر ٹرمپ نے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو جنگ بندی پر تیار کیا لیکن بھارتی قیادت ان حقائق کواپنی رسوائی کا سبب سمجھ کر جھٹلانے کی ناکام کوشش کرتی چلی آرہی ہے جبکہ صدر ٹرمپ نے جنگ بندی میں اپنے کلیدی کردار کا بتکرار تذکرہ کرکے بھارتی حکمرانوں کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت اپنے متعدد جنگی طیاروں کی پاک فضائیہ کے ہاتھوں تباہی کے معاملے کو گول مول رکھنے کی جو کوشش کرتی چلی آرہی تھی، صدر ٹرمپ نے جمعے کو وائٹ ہاؤس میں ری پبلکن ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کے موقع پر،اس کا بھانڈا بھی یہ کہہ کر پھوڑ دیا کہ پاک بھارت جنگ میں پانچ جنگی طیارے مار گرائے گئے اور اگر میں جنگ نہ رکواتا تو ایٹمی طاقتوں کی جنگ بہت زیادہ نقصان کا سبب بن سکتی تھی ۔ انہوں نے اگرچہ یہ نہیں کہا کہ کس ملک کے طیارے گرائے گئے لیکن حقیقت اتنی واضح ہے کہ بھارت کی

اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ٹرمپ کے بقول انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ میں پانچ جیٹ طیارے مار گرائے گئے، اس کے ساتھ انھوں نے 24ویں بار کہا کہ میں نے تجارت کی دھمکی دے کر پاکستان انڈیا جنگ رکوائی۔ ٹرمپ مسلسل یہ بات دہرا رہے ہیں اور نریندر مودی خاموش ہیں۔ نریندر مودی نے کاروبار کیلئے ملک کی عزت پر سمجھوتہ کیوں کیا؟‘‘کانگریس رہنما راہول گاندھی نے بھی ایک مختصر ٹویٹ میں ٹرمپ کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’مودی جی پانچ طیاروں کے بارے میں سچ کیا ہے؟ ملک کو یہ جاننے کا حق ہے۔‘‘ صدر ٹرمپ کے بیانات مودی حکومت کیلئے یقینا مشکل کا سبب بن رہے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کیلئے وقتی جنگ بندی کسی طور کافی نہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ بھارتی قیادت کے جنگی جنون کو مستقل بنیادوں پر لگام دی جائے ، پاکستان کے خلاف جارحیت کی خاطرپہلگام جیسے ڈراموں کی صورت میں بہانے تراشنے کی روش ترک کرنے پر مجبور کیا جائے ، پاکستان سمیت دنیا بھر میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی سرپرستی سے نئی دہلی کو روکا جائے اور کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق شفاف رائے شماری کے ذریعے سے حل کرایا جائے۔ تاہم امریکہ نے پہلگام پر حال ہی میں جس مؤقف کا اظہار کیا ہے، اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ بھارت کے اس بلاثبوت اور بے بنیاد دعوے سے کسی نہ کسی حد تک متفق ہے کہ اس کارروائی میں پاکستانی عناصر شریک تھے جبکہ خود بھارت میں مودی حکومت کے اس دعوے پر گہرے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں ۔ نیز واقعے کے فوراً بعد پاکستانی قیادت نے پہلگام واقعے کی کسی بھی غیرجانبدارانہ تحقیقات میں شرکت کی کھلی پیشکش کرکے ساری دنیا پر واضح کردیا ہے کہ اس کارروائی کا پاکستان پر الزام سراسر بے بنیاد ہے ۔ صدر ٹرمپ ان حقائق کو ملحوظ رکھتے ہوئے جنوبی ایشیا میں قیام امن کیلئے کردار ادا کریں تب ہی مثبت نتائج حاصل ہوں گے بصورت دیگر یہ خطہ علاقائی و عالمی امن کیلئے ایسا آتش فشاں ہی بنا رہے گا جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہو۔

تازہ ترین