• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور ، سڈنی دو مختلف براعظموں کے دو بڑے اور ثقافتی طور پر جڑے معروف شہر ہیں، دونوں شہروں کے درمیان ایک ان دیکھے رشتے نے پاکستانی کمیونٹی، تعلیم، زراعت، تجارت، معدنیات، ٹیکنالوجی اور امیگریشن جیسے شعبوں میں تعاون کی مضبوط بنیاد رکھ دی ہے ، جو وقت کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتی جائے گی۔ سڈنی کا یہ سفر اپنے صحافتی سفر کے اگلے مرحلہ کا آغاز ہے۔ لاہور سے جڑی یادیں اور تعلیم و تربیت کے مراحل اور عملی صحافت کے آغاز کی داستان 1980ءسے شروع ہوتی ہے۔ جس کے بعد ستمبر 1981ء میں جنگ لاہور کا آغاز کرنے والی پہلی ٹیم کا حصہ بننے کا آغاز 45سال سے قائم چلا آرہا ہے، صحافت کے اسی سفر میں کھٹے میٹھے سب مراحل آئے لیکن ہر لمحہ اپنے پروفیشن سے لگائو بڑھتا چلا گیا۔ اسی دوران نوائے وقت میں بھی بطور چیف رپورٹر کام کرنے کا موقع ملا، پھر جیوٹی وی کی ابتدائی ٹیم کا حصہ رہا اور آخر کار جنگ گروپ کے شعبہ ادارت کا حصہ بنا۔ جنگ میرے نزدیک تحقیقی صحافت کی ایک نرسری ہوا کرتی تھی۔ وقت کیساتھ ساتھ معاملات کمرشل سائیڈ پر زیادہ ملتے گئے۔ اب خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ پچھلے ہفتے باضابطہ طور پر سڈنی اپنی فیملی کے پاس آگیا ہوں، جن کا اصرار تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اب آپ سے لاہور سے نہیں سڈنی سے رابطہ رہے گا۔ سڈنی کا روایتی رہن سہن انگریزی سسٹم اور زیادہ تر اردو میڈیم ہے۔ پاکستانی فیملیز ، انڈین اور بنگالی خاندان بھی یہاں بستے ہیں۔ سب ایک دوسرے سے ملتے ہیں، پاکستانی فیملیز کا اپنا ہی ماحول ہے۔ سڈنی میں تعینات قونصلیٹ جنرل قمر زمان بڑے متحرک اور فعال شخصیت ہیں، وہ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان سماجی اور کاروباری رشتوں کو مضبوط بنانے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ اسی طرح سماجی شعبہ میں سب سے متحرک ڈاکٹر خرم کیانی ہر محفل کی جان جانے جاتے ہیں۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ایک وہ پاکستان میں آئی ٹی سیکٹر کی بنیاد، فائیکون، انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھنا، اس طرح حکم بنگیش، امیگریشن اور دیگر شعبوں میں متحرک نظر آتے ہیں۔ جبکہ طارق مرزا صاحب اقبالیات اور اردو کی اہمیت منوانے میں ادبی محفلوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں، محمد علی سکھیرا صاحب قانون اور امیگریشن کے شعبے میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ 2024ء کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباََ ایک لاکھ دس ہزار کے قریب پاکستانی یہاں آسٹریلیا میں مقیم ہیں زیادہ تر افراد پنجاب اور خاص کر لاہور ، کراچی ، KPKاور بلوچستان کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں، پاکستان کے زیادہ تر افراد اور خاندان سڈنی ، ملبورن، برسینیا اور پرتھ وغیرہ میں مقیم ہیں۔ جو آسٹریلیا کی کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال سمیت تمام کھیلوں میں بھر پور حصہ لیتے ہیں آسٹریلیا کے مقبول کورسز IT، بزنس ، انجینئرنگ، نرسنگ اور تعلیم فن تعلیم کے ہیں۔ یہاں پچھلے سالوں سے مہنگائی کےبہت چیلنج بھی ہیں ۔ اس طرح آج پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک کے اسٹوڈنٹس کی امیگریشن کے چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں۔ البتہ TAFEکے ، فنی تربیت کے مختلف کورسز کی ضرورت اور مانگ بڑھ رہی ہے۔ جس کوپاکستان کے متعلقہ اداروں کو سنجیدگی سے حل کرنا ہو گا اگر وہ پاکستان کی افرادی قوت کی برآمد یہاں بڑھانا چاہتے ہیں ۔ آسٹریلیا میں پاکستانی خاندانوں کے کئی ثقافتی چیلنجز ہیں جس میں بڑی عمر کے خاندانوں کے سماجی رشتوں میں عدم توازن ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ یہاں مختلف اسلامی سنٹرز اور مسلم اسکولز اور مساجد ہیں تربیتی پروگرام میں نوجوانوں کی دلچسپی قابل تعریف ہے دونوں ممالک کے درمیان 2023/24میں تجارتی حجم 2.6ارب آسٹریلوی ڈالر ہے۔ جس میں پاکستان نے ٹیکسٹائل ، چمڑے کی مصنوعات ، کھیلوں اور سرجیکل کا سامان، ITاور نرسنگ کی کوئی سروسز شامل ہیں۔ اسٹریلیا کی پاکستان کیلئے قابل ذکر برآمدات (پاکستان کی درآمدات کنندہ دالیں ، پائوڈر دودھ، تعلیمی مواد اور انٹرنیشنل ٹیکنالوجی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آسٹریلیا کی کل آبادی دو کروڑ 60لاکھ کے قریب ہے۔ جبکہ اس کا رقبہ بہت بڑا ہے۔ یہاں سب سے بڑا چیلنج پاکستان سمیت سب ممالک کیلئے اسکلز لسٹ کافائدہ اٹھانا ہے۔ اس کیلئے TAFEاور اسکل آسٹریلیا قابل ذکر ہیں۔اس باب میں پاکستان کے NAVTTC(نیوٹیک) اور نیوٹا جیسے اداروں کو بہتر اور فعال بنانا ہو گا ۔ آسٹریلیا میں TVETسنٹر کی سالانہ مارکیٹ ویلیو 7.2ارب آسٹریلوی ڈالر سے زیادہ ہے۔ اسی طرح دو طرفہ سیاحت کے شعبےسے دونوں ممالک خاصا زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔ پاکستان کی حکومتی پالیسیوں میں بہتری لا کر زراعت، زرعی مشینری ، SEED، ٹیکنالوجی میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کیلئے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام دور کرنے کیساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی اور ملکی غیر ملکی سرمایہ کاروں کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات کرنا ضروری ہیں۔ لاہور سے سڈنی کا سفر ایک ہجرت کی داستان نہیں بلکہ دو قوموں کے درمیان مسلسل بڑھتے ہوئے تعلق کا عملی ثبوت ہے۔ پاکستان کے نوجوان طلباء طالبات ، کاروباری افراد، خواتین اور خاندان آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ملک میں اپنے لیے بہتر مستقبل تلاش کر رہے ہیں لیکن ان کی راہ میں کئی چیلنجز ہیں۔ دونوں ممالک مل کر ان چیلنجز کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔

تازہ ترین