• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت: مذہبی ادارے کے سابق ملازم کا تقریباً 100 لاشیں دفن کرنے کا انکشاف

کولاج فوٹو: سوشل میڈیا
کولاج فوٹو: سوشل میڈیا

بھارت کی ریاست کرناٹک کے علاقے دھرم استھل میں ایک مذہبی ادارے کے سابق ملازم نے تقریباً 100 لاشوں کو مختلف مقامات پر دفن کرنے کا انکشاف کیا ہے، جن میں وہ خواتین بھی شامل تھیں جن کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا گیا تھا۔ ان انکشافات نے بھارت میں نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔ 

برطانوی میڈیا کے مطابق دھرم استھل کے ایک مشہور مذہبی ادارے کے سابق ملازم (شکایت کنندہ) نے انڈین سول ڈیفنس کوڈ (بی این ایس ایس) کی دفعہ 183 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان درج کروایا۔

درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ کئی خواتین کی لاشوں کو برہنہ دیکھا جن پر جنسی تشدد اور حملے کے واضح نشانات تھے، جب انہوں نے پولیس کو اس بارے میں بتانے کی بات کی تو ان کے سپروائزر نے انہیں منع کردیا۔ 

شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ کبھی کبھی مجھے ان لاشوں پر ڈیزل ڈالنے کی ہدایت دی جاتی تھی، پھر حکم آیا کہ لاشوں کو جلا دیا جائے تاکہ کوئی ثبوت باقی نہ رہے، اسی طرح سیکڑوں لاشوں کو مسخ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 2010ء کا ایک واقعہ مجھے اب بھی پریشان کرتا ہے، جب گارڈ مجھے کلیری کے ایک پیٹرول پمپ سے تقریباً 500 میٹر دور ایک جگہ پر لے گیا، وہاں میں نے ایک نوجوان لڑکی کی لاش دیکھی، جس کی عمر 12 سے 15 سال کے درمیان تھی، جس کے جسم پر بہت کم کپڑے تھے اور جنسی تشدد کے واضح نشانات تھے جبکہ اس کی گردن پر گلا گھونٹنے کے نشانات تھے، مجھے ایک گڑھا کھودنے اور اسے اور اس کے اسکول بیگ کو دفن کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ 

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ میں اتنے سال تک خاموش رہا کیونکہ اس وقت میرے اعلیٰ حکام نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔ مجھے کہا گیا تھا کہ ’ہم تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے، تمہارا جسم باقی لوگوں کی طرح دفن ہو جائے گا اور ہم تمہارے پورے خاندان کو قتل کر دیں گے‘۔

شکایت کنندہ نے کہا کہ میں اب مزید ’ذہنی دباؤ‘ برداشت نہیں کر سکتا اور اپنے خاندان کے ساتھ ریاست سے باہر منتقل ہوگیا ہوں۔

برطانوی میڈیا کے مطابق ایف آئی آر میں شکایت کنندہ نے جن لوگوں کے بارے میں تحریر کروایا ان میں مندر انتظامیہ اور دیگر عملے کے لوگ ہیں، تاہم شکایت کنندہ نے ابھی ان کے نام ظاہر نہیں کیے کیونکہ اسکا موقف ہے کہ یہ افراد بہت بااثر ہیں، جیسے ہی اسے اور اسکے خاندان کو قانون کا تحفظ حاصل ہوگا تو وہ ان ناموں کو ظاہر کردے گا۔ 

ثبوت پیش کرنے کے لیے صفائی کرنے والے ملازم نے خود ایک قبر کھودی اور مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرتے ہوئے تصاویر اور ثبوت پیش کیے۔شکایت درج کروانے والے ملازم کی شناخت سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کی گئی۔ مجسٹریٹ کے سامنے شکایت کنندہ کو سر سے پاؤں تک کالے کپڑے سے مکمل طور پر ڈھانپ دیا گیا تھا۔

دوسری جانب اس دعوے کی وجہ سے ایک ایسی خاتون بھی سامنے آئی ہے جن کی بیٹی دو دہائی قبل لاپتہ ہو گئی تھی۔ انہوں نے پولیس سے اپیل کی کہ اگر لاشوں کی شناخت ہو جائے تو وہ ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے تیار ہیں۔

اس حوالے سے کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدھارمیا کا کہنا تھا کہ حکومت کسی دباؤ میں کام نہیں کرے گی، ہم قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید