• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسمیاتی تبدیلی اور پنجاب میں طوفانی بارشیں

جولائی 2025ءکے آخری ایّام میں پنجاب کے مختلف شہروں میں ہونے والی طوفانی بارشوں نے جو تباہی مچائی، اس نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان، خاص طور پر صوبہ پنجاب، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ملتان اور سرگودھا جیسے بڑے شہروں میں صرف تین دنوں کی بارش نے درجنوں افراد کی جانیں لے لیں۔ کئی مقامات پر چھتیں گرنے سے خاندان کے خاندان لقمۂ اجل بنے، بجلی کے کرنٹ سے بچے اور نوجوان جاں بحق ہوئے، اور متعدد بیمار افراد وقت پر اسپتال نہ پہنچنے کے باعث راستے میں ہی دم توڑ گئے۔یہ صرف اتفاقیہ حادثات نہیں تھے، بلکہ یہ اجتماعی غفلت، ناقص منصوبہ بندی اور ماحولیاتی خطرات کو سنجیدگی سے نہ لینے کا نتیجہ تھے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں قدرتی آفات کو ’قدرت کا عذاب‘ کہہ کر نظر انداز کرنے کی روش چھوڑنی ہو گی اور اپنی اجتماعی ذمہ داری کو قبول کرنا ہو گا۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جنہیں اقوامِ متحدہ کے ادارے سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک قرار دے چکے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہماری قومی اور صوبائی سطح کی پالیسیوں میں ماحولیاتی تحفظ اور تبدیلیوں سے نبردآزما ہونے کیلئے سنجیدگی کہیں نظر نہیں آتی۔شہری علاقوں میں نکاسی آب کا نظام مکمل طور پر ناکارہ ہو چکا ہے۔ لاہور جیسے شہر میں جہاں کروڑوں روپے کے منصوبے بنائےجاتے ہیں، وہاں چند گھنٹوں کی بارش میں سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ نالوں کی صفائی کا عمل صرف کاغذوں پر موجود ہوتا ہے اور بلدیاتی ادارے بارشوں سے قبل احتیاطی اقدامات کے بجائے بارش کے بعد ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال مون سون کے آغاز کے ساتھ ہی لوگ خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے محلے، بازار اور گھر پانی میں ڈوب جائیں گے، اور حکومت ایک بار پھر غافل ہو گی۔

پنجاب میں ہونے والی حالیہ اموات صرف قدرتی آفات کی وجہ سے نہیں ہوئیں، بلکہ یہ ریاستی نااہلی، ناقص شہری منصوبہ بندی، اور ماحولیاتی بے حسی کا نتیجہ تھیں۔ ہم نے اپنے قدرتی نالوں پر تجاوزات قائم کیں، درخت کاٹ کر عمارتیں بنائیں، کھلی زمینوں کو سیمنٹ اور تارکول میں بدل دیا، اور بارش کے پانی کے قدرتی بہاؤ کو بند کر دیا۔ جب پانی کا راستہ بند ہوتا ہےتو وہ اپنا راستہ خود بناتا ہے، اور پھر اس کی راہ میں جو بھی آئے، وہ تباہی کی زد میں آ جاتا ہے۔اس المیے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ حکومتوں نے عوام کو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی خطرات کے بارے میں شعور دینے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ نہ تو اسکولوں میں اس حوالے سے تعلیم دی جا رہی ہے، نہ میڈیا اس موضوع پر مسلسل گفتگو کر رہا ہے، اور نہ ہی مقامی حکومتیں عوام کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ لوگ بارش کی شدت، نالوں کی صفائی، بجلی کے کھمبوں سے دوری، اور محفوظ پناہ گاہوں کے بارے میں لاعلم رہتے ہیں، اور پھر جب حادثہ ہوتا ہے تو سب ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کیلئے ایک جامع، مربوط اور دیرپا حکمت عملی ترتیب دیں۔ سب سے پہلے تو حکومت کو صوبائی اور قومی سطح پر ’کلائمیٹ ایمرجنسی‘ کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ تمام ادارے موسمیاتی تبدیلی کو ایک ہنگامی مسئلہ سمجھ کر اس پر کام کریں۔ ہر شہر، تحصیل اور ضلع کیلئے مخصوص ماحولیاتی خطرات کی نشاندہی کر کے وہاں کے مطابق حفاظتی اقدامات کیے جائیں۔دوسرا قدم بلدیاتی اداروں کو جدید ٹیکنالوجی اور اختیارات فراہم کرنا ہے تاکہ وہ نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنائیں، نالوں کی باقاعدہ صفائی یقینی بنائیںاور ہنگامی صورتحال میں فوری رسپانس دے سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، شہری منصوبہ بندی میں ’گرین انفراسٹرکچر‘کو فروغ دینا ہو گا، یعنی ایسے پارک، باغات، درخت، اور کھلی زمینیں جن سے بارش کا پانی جذب ہو سکے اور ماحولیاتی توازن قائم رہے۔ تیسری اہم ضرورت ہے عوام میں شعور اجاگر کرنے کی۔ حکومت اور میڈیا کو مشترکہ طور پر مہم چلانی چاہیے تاکہ لوگ بارش کے دوران احتیاطی تدابیر اختیار کریں، بجلی کے آلات سے دور رہیں، چھتوں کی مرمت بروقت کریں، اور پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ مقامی سطح پر رضاکارانہ کمیٹیاں بنائی جا سکتی ہیں جو بارش کے دنوں میں گھروں، محلوں اور گلیوں میں عوام کی رہنمائی کریں۔چوتھی بات یہ کہ وفاقی حکومت کو اقوامِ متحدہ، عالمی ماحولیاتی اداروں، اور دوست ممالک سے مالی و تکنیکی مدد حاصل کرنی چاہیے تاکہ پاکستان میں موسمیاتی خطرات کے خلاف جدید انفراسٹرکچر بنایا جا سکے۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں جس طرح سیلاب، ہیٹ ویوز، خشک سالی اور دیگر آفات کا سامنا کیا ہے، اس کے بعد عالمی برادری بھی ہماری مدد کیلئے تیار ہے، بس ہمیں خود سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔آخری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کو ایک سیاسی مسئلہ نہ بنایا جائے بلکہ اسے ایک قومی ترجیح کے طور پر لیا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر اہم مسائل سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں اصل کام پسِ پشت چلا جاتا ہے۔ پارلیمان کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی پر باقاعدہ قانون سازی کرے، صوبائی اسمبلیاں اس کی توثیق کریں، اور ہر سطح پر اس پر عملدرآمد کی نگرانی کی جائے۔جولائی 2025ءکی بارشیں گزر جائیں گی، مگر ان کے زخم ہمیشہ تازہ رہیں گے۔ جو خاندان اپنے پیاروں کو کھو بیٹھے، انہیں یہ حادثے کبھی نہیں بھولیں گے۔ لیکن اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں، تو اگلے سال، اگلے مون سون میں، یہ کہانی پھر دہرائی جائے گی — شاید زیادہ شدت کے ساتھ، شاید زیادہ اموات کے ساتھ۔ہمیں خود کو بدلنا ہو گا۔ ہمیں اپنے شہروں کو، اپنی پالیسیوں اور سوچ کو بدلنا ہو گا۔ ورنہ قدرت اپنا فیصلہ سناتی رہے گی، اور ہم صرف ماتم کرتے رہ جائیں گے۔

تازہ ترین