• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2025ءپاکستان میں نئی اور پرانی صدیوں میں گھمسان کی جنگ جاری ہے۔سوشل میڈیا طاقتور ہے لیکن اسے بھی پرانی تاریخ صدیوں کا بہاؤ روکنے میں بہت مشکلات پیش آ رہی ہیں۔21 ویں صدی تو شور مچاتی ہے کہ’’ اب فیصلہ عدالت میں ہوگا‘‘۔لیکن پاکستان کے ریگزاروں، میدانوں، بستیوں، بلوچستان، سندھ، پنجاب، خیبر پختون خوا کے اکثر علاقوں میں فیصلہ سردار ہی کر رہے ہیں کہیں مزاروں کے گدی نشینوں کے فیصلے حرف آخر ہیں ۔سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے مؤدب رجسٹراروں نے ۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن۔ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن۔ سٹی بار ایسوسی ایشنوں نے بھی بلوچستان میں ایک قتل کی ویڈیو دیکھی ہوگی یہ اداکاری نہیں کسی چینل کا ڈرامہ سیٹ نہیں،حقیقی منظر ہے۔ایک بیٹی کے الفاظ بھی سب نے سنے ہوں گے ’صرف گولی چلانے کی اجازت ہے‘اور گولی چلی بھی ۔مائوزے تنگ یاد آتے ہیں power grows through the barrel of gun پاکستان کی تاریخی سچائی بھی یہی ہے۔طاقت کا سرچشمہ عوام یا آئین نہیں ہیں بندوق کی نالی اور گولی ہی رہی ہے۔16اکتوبر 1951ءسے گولی ہی چل رہی ہے نعرے ضرور لگے ہیں’ لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی‘ مگر سات دہائیوں میں یہی سرکاریں چلی ہیں۔ 21ویں صدی ہے۔ ملک میں قدرت کی عنایت ہے کہ سارے آئینی ادارے موجود ہیں ۔ایوان صدر ،قومی اسمبلی، سینٹ ،صوبائی اسمبلیاں 21ویں صدی کا میڈیا بھی ہے، الیکٹرانک میڈیا ،نیوز چینلز، اخبارات، سوشل میڈیا، واٹس ایپ، ای میل، گوگل، انسٹاگرام، ایکس ،ویب سائٹیں ،ٹک ٹاک، سب کچھ لیکن غلبہ گیارہویں ،بارھویں، تیرہویں صدیوں کا ہی ہے۔ رسمیں نسل در نسل منتقل ہو رہی ہیں ۔سرداریاں گدیاں اور مافیا کمشنروں انسپکٹر جنرلوں سے زیادہ طاقتور ہیں بلکہ یہ اعلیٰ عہدے دار کلیدی افسر ان کی پسند پر ہی مقرر کئے جاتے ہیں ۔منتخب ایوان بے اثر ہیں۔ ملک میں سماج بدلنے دنیا کے ساتھ چلنے کیلئے قراردادیں منظور نہیں ہوتیں کیونکہ ان ایوانوں میں بھی قبائلی سردار، گدی نشین جاگیردار، شہری مافیا اکثریت میں ہیں ۔یہ کس فارم کے ذریعے آئے ہیں۔ اس تحقیق کا کوئی فائدہ نہیں۔ جب زیادہ قوتیں اور ادارے ہمیں تاریک صدیوں میں ہی رکھنا پسند کرتے ہیں تو سماج آگے کیسے بڑھے گا۔پاکستان کے 78سال میں اور خاص کر 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کے بعد تو جنرل ضیا ان کی حامی سیاسی مذہبی جماعتوں ان کی تخلیق مسلم لیگ نے رجعت پسندی کو مستحکم کیا ہے ۔مارکس ازم کے تضادات کی کامل تشریح پاکستان کے دیہی سماج میں مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔ غیر جماعتی انتخابات کا تجربہ بہت نتیجہ خیز اور پائیدار رہا ہے۔ سرداری ،جاگیرداری، برادریوں اور مافیاز کو قانونی اور آئینی طاقت میسر آگئی ہے۔ سوشل میڈیا پاکستان میں اپنی طاقت دکھا رہا ہے لیکن کہیں کہیں کیونکہ وہاں کار فرما اکثریت کا ہدف ڈالرز ہیں۔ بہت کم کا مقصود حقائق کی بے نقابی ہے۔اسلئے سوشل میڈیا پاکستان میں اس طرح کارگر نہیں ہوا۔ جیسے دنیا کے دوسرے ترقی پذیر ممالک میں افریقہ تک کے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں یہ بیداری لے آیا ہے مگر جنوبی ایشیا میں جہاں دنیا کی سب سے زیادہ گنجان آبادیاں ہیں۔وہاں اس کو بہت سخت روایتی قدامت پسندی اور مزاحمت کا سامنا ہے۔

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

بے نقابی ہو رہی ہے۔ لیکن لاقانونیت اور شخصی حکمرانیوں کو ایک شان و شوکت بھی مل رہی ہے ۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں انسانیت دشمن رسموں کی مدافعت کی جاتی ہے۔ قومی سیاسی جماعتوں کی سربراہی بھی یہی تاریک سماجی روایات کے علمبردار کر رہے ہیں ۔انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی منقار زیر پر ہیں۔ این جی اوز سول سوسائٹی سب تھک چکی ہیں۔ اپنے بدن سہلا رہی ہیں ۔حبیب جالب یاد آتے ہیں عاصمہ جہانگیر، میجر اسحاق، شیخ ایاز، جام ساقی ،کامریڈ جمال الدین بخاری، فارغ بخاری، حسن ناصر اور بہت سے دیوانے جو ہر روز ہی میدان میں نکلتے تھے۔ وہ بیٹیاں جو اپنے آنچلوں کو پرچم بنا لیتی تھیں ۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے پی پی پی کا سیاسی زور توڑنے کے لیے ملک کو غیر سیاسی کیا تھا ۔غیر جماعتی انتخابات کروائے غیر منتخب مجلس شوری قائم کی۔ اب وہی مظلوم پاکستان پیپلز پارٹی سینٹ میں اکثریتی پارٹی بن گئی ہے ۔ایوان صدر اس کے پاس ہے۔ قومی اسمبلی میں واضح وجود ہے۔ دو صوبوں میں گورنرز ہیں سندھ اس کا ہے۔ بلوچستان اس کاہے۔ کیا وہ 1977 کے بعد کی پی پی پی اور عوام دشمن ریاستی کوششوں سے پیدا ہونے والے سماجی بگاڑ کو سدھارنے کا بیڑا اٹھائے گی یا وہ بھی ’’ہر کہ در کان نمک رفت نمک شد‘‘کی مثال ہو چکی ہے ۔

…………

کراچی کی ایک تقریب میں ہمیں کچھ کچھ 21ویں صدی نظر آئی۔ احیائے علوم کی باتیں ہوئیں ۔ماہر نفسیات ڈاکٹر طارق سہیل کی تعلیمی ثقافتی طبی خدمات کے سلسلے میں انہیں لائف اچیومنٹ ایوارڈ تفویض کیا گیا ۔سہیل یونیورسٹی کے ذکی حسن آڈیٹوریم میں اکثر وہ انقلابی موجود تھے جنہوں نے 60 اور 70 کی دہائیوں میں مشعلیں اٹھائی تھیں۔ ڈاکٹر طارق سہیل کا چہرہ اپنے خوابوں کی تعبیر ملنےاور تکمیل کی بشارت سے تمتما رہا تھا میڈی کیئراہسپتال ،جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، سہیل یونیورسٹی اور انسٹیٹیوٹ اف ہسٹوریکل اینڈ سوشل ریسرچ ۔جہاں بہت سوں کو روزگار ملا ہے۔ ریسرچ ہو رہی ہے ۔علاج کی جدید ترین سہولتیں ہیں یہ ان کے خوابوں کی تعبیریں ہیں ۔کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں ان کی زندگی میں ہی ان کی تمناؤں کی تکمیل میسر آ جاتی ہے۔

…………

ان دنوں بہت سے احباب دنیا سے اٹھ گئے فرید پبلشرز کے فرید حسین اچانک چلے گئے۔ صحافی شاعر راشد نور کراچی ،لاہور، اسلام آباد میں محفلوں کا مرکز بنے رہے ،شکاگو پہنچ کر انہوں نے اطلاع دی الحمدللہ شکاگو واپس پہنچ گیا ہوں۔ لیکن اگلی صبح ہی وہ دنیا چھوڑ گئے ۔بے حد نفیس متین شخصیت سینئر خاتون صحافی زبیدہ مصطفیٰ بھی داغ مفارقت دے گئیں۔ ان سے پہلے اخبار جہاں میں ہماری رفیق کار سلمی رضا کی رحلت کی خبر بھی ہم سب وابستگان جنگ کو اداس کر گئی تھی۔اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے ۔

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی

تازہ ترین