• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی دفعہ لاہور سے باہر دوستوں کے ساتھ سیر کرنے کے لیے ہم نویں جماعت میں تشریف لے گئے تھے، ہم دوستوں کو گھروں سے اجازت آسانی سے نہیں ملی تھی مگر مل گئی تھی، آج کل کے ملکی حالات میں اس عمر کے بچوں کو شاید ہی کوئی ذمہ دار والدین ایک ہفتے کے لیے مری جانے کی اجازت دیں، سال تھا 1976، ہم چار دوست تھے، توصیف احمد بٹ، طارق یوسف، شیخ سہیل اشفاق اور میں۔

سہیل اشفاق کو امریکا منتقل ہوئے بہت سال بیت چکے ہیں، وہ ریاست نارتھ کیرولائنا میں رہتے ہیں۔ جب کچھ دن پہلے میرا امریکا آنے کا ارادہ بنا تو سہیل نے مجھ سے رابطہ کیا اور ایک ایسی پیش کش کی جسے ہوسِ سیر و تماشا رکھنے والا کوئی شخص رد نہیں کر سکتا۔ کہنے لگے کہ ہم پچاس سال پہلے اکٹھے سیر کرنے مری گئے تھے، اب اس کی گولڈن جوبلی مناتے ہیں، ایک ہفتے کے لیے کہیں چلتے ہیں۔ ہم نے صاد کیا، ان سے پوچھا جائیں گے کہاں؟ فرمانے لگے یہ گاڑی میں بیٹھ کر سوچیں گے۔ اور پھر یوں ہی ہوا، سہیل نارتھ کیرولائنا سے آئے مجھے واشنگٹن سے گاڑی میں بٹھایا اور ہم سفر کے دوران سوچنے لگے کہ ہمیں کدھر کا رُخ کرنا چاہیے۔ کچھ ہی دیر میں طے پایا کہ امریکا کے ’’ناران کاغان‘‘ کی سیر کی جائے گی، یعنی نیو انگلینڈ کی، ایک تو میں نے یہ علاقے دیکھے نہیں ہوئے تھے، پھر وہاں کا موسم امریکا میں جاری ہیٹ ویو سے بھی نجات فراہم کرے گا۔ ہم نے نہ تو گوگل کھولا، نہ کوئی ہوٹل بکنگ، نہ یہ طے کیا کہ رات پڑاؤ کہاں کرنا ہے۔ بس شمال کی طرف چل پڑے۔ بہت دنوں بعد لگی بندھی، منصوبہ بندیوں میں جکڑی ہوئی زندگی سے رہائی کے احساس نے ایک بے فکری کی فضا پیدا کر دی۔ ہزاروں گاڑیوں کے درمیان سفر کرتے ہوئے سہیل کہنے لگے کہ ان تمام گاڑیوں کے مسافروں کو پتا ہے یہ کہاں جا رہے ہیں، کتنے دن کے لیے جا رہے ہیں اور کہاں کہاں قیام کریں گے، جب کہ ہم ان شکنجوں سے آزاد ہیں۔ گاڑی میں رفیع صاحب کا گانا سنتے ہوئے سہیل کہنے لگے کہ لڑکپن میں انہیں کشور کمار پسند تھے، لیکن جب زندگی کی ٹھوکریں لگیں تو رفیع صاحب اچھے لگنے لگے۔ ہم اس بلیغ جملے پر دیر تک ہنستے رہے۔

مری جانے والے ہم چار دوستوں میں سے طارق جوانی میں فوت ہو گیا تھا، جتنی بے ترتیب اور بے دریغ زندگی وہ گزارتا تھا وہ بڑی حدتک اتنا ہی جی سکتا تھا، توصیف صاحب بہ وجوہ (جن کے ہم اب تک قائل نہیں) ہمارے ہم سفر نہیں ہو سکے، بہ ہر حال اگلا پورا ہفتہ وہ صبح شام وڈیو کال پر ہمارے ساتھ ہی رہے۔ ریاست کنیٹی کٹ میں نیو ہیون سے گزرتے ہوئے کہیں Yale یونی ورسٹی کا سائن نظر آیا تو ہم اُس طرف چل پڑے، سبحان اللہ، کیا کیمپس ہے، تقریباً تمام آئی وی لیگ اسکولوں کی طرح Yale کی ابتدا بھی ایک مذہبی ادارے کے طور پر ہوئی تھی، اس کے گوتھک طرزِ تعمیر میں بھی وہ وفور اور جزیات نظر آتی ہیں جو اس عہد کی نمائندہ مذہبی عمارتوں کا خاصہ ہوا کرتی تھیں۔ اب خواہش ہوئی کہ لگے ہاتھوں ہاورڈ یونی ورسٹی بھی دیکھی جائے، سو بوسٹن کی طرف چل پڑے، تھکن ہوئی تو ایک ایگزٹ لیا اور ایک خوابیدہ سی بستی کلنٹن ٹاؤن میں رات گزاری، اگلی صبح صحافت کی اپنی ایک پرانی ساتھی بینا سرور کو میسج کیا کہ آپ کے ادارے کی طرف بڑھ رہے ہیں، ان کا افسردہ سا جواب آیا کہ وہ پاکستان گئی ہوئی ہیں۔ ہارورڈ یونی ورسٹی کی فضا میں چار سو سال کا تعلیمی رچاؤ محسوس کیا جا سکتا ہے، مرکزی ہال کے سامنے ہارورڈ یارڈ میں جون ہارورڈ کا مجسمہ نصب ہے جسے ’’مجسمہ سہ دروغ‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں کالج کے قیام کا سال 1638 لکھا ہے جب کہ دراصل اس کادو سال پہلے آغاز ہوا تھا، جون ہارورڈ کو ادارے کا بانی بتایا گیا ہے جب کہ وہ مرکزی عطیہ دینے والا تھا، اور یہ مجسمہ بھی جون ہارورڈ کا نہیں ہے بلکہ مجسمہ ساز نے ایک طالبِ علم کو ماڈل کے طور پر استعمال کیا تھا۔ رسم ہے کہ اس مجسمے کا بائیاں پاؤں چھو کر آشیرباد لی جاتی ہے، سو لی گئی۔ بڑی یونی ورسٹی یہاں جس شہر میں ہوتی ہے، پورے شہر پر اس کی چھاپ ہوتی ہے، کیمپس کے علاوہ شہر بھر میں ان کی زمین اور عمارتیں پھیلی ہوتی ہیں، ہارورڈ اور Yale دونوں کا یہی معاملہ ہے۔شام کو ہم نیو ہیمپشائر کے شہر نیشوا روانہ ہو گئے جہاں سہیل کے ایک لڑکپن کے دوست عامر شیخ صاحب کے گھر قیام کا فوری منصوبہ ترتیب دیا گیا تھا۔ عامر صاحب دل چسپ آدمی تھے جن کا حرم آباد کرنے میں دو سپر پاورز نے کردار ادا کیا تھا، ان کی پہلی بیگم امریکن اور حالیہ رشین تھیں۔ اس ضمن میں ہم نے چِین کی حق تلفی کی شکایت کی تو انہوں نے امید افزا جواب دیا۔اگلے چار دن ریاست نیو ہیمپشائر اور روڈ آئی لینڈ کی سیاحت کی گئی۔ یہاں سمندر، پہاڑ، جنگل اور جھیلیں دست در دست ہیں، جمال پرور مناظر، ہر طرف گورے ہی گورے اور وہ بھی اشرافیہ، شائستگی میں ملفوف نخوت کا مظہر، گردن کے زاویے ’’مالک مکانوں‘‘ والے, اپنے شجرے پہ نازاں۔ باقی امریکا میں یہ مخلوق آپ کو صرف پرائیویٹ کلبوں میں ہی نظر آتی ہے، یوں ہر طرف سڑکوں اور ساحلوں پر نہیں۔ ہمیں یہاں دور دور تک کوئی پاکستانی نظر نہیں آیا۔ یہ امریکا کا سب سے وائٹ ریجن ہے۔

ایک رات نیند نہیں آ رہی تھی، بے خیالی میں جنگ کی ویب سائٹ کھول لی، ’’تازہ‘‘ خبریں کچھ یوں تھیں کہ ’’بارشوں میں لوگ مر گئے، اتنے خوارج مار دیے، دو محبت کرنے والے مار دیے، سینٹ الیکشن میں پیسہ چل گیا، تاجروں کے ٹیکس پر تحفظات، بلاسفیمی گینگ آشکار۔۔۔‘‘ میں نے جھٹ سے ویب سائٹ بند کر دی۔

تازہ ترین