• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور بھارت کے مابین خطے میں چین اور بھارت جیسی معاشی قوتوں کے سامنے پاکستان کی ’’پولیٹکل اکانومی‘‘کسی ڈگر سے عاری ، غیر مستحکم اور غیر یقینی سے دوچار ہونے کے باعث ہمیشہ ناقابلِ ذکر رہی لیکن چین جیسی ابھرتی عالمی معاشی قوت کے ساتھ دیرینہ تعلقات ، جدید ترین ٹیکنالوجی میں تعاون ، سفارتی و تکنیکی معاونت اورباہمی اشتراک کےباعث پاکستان کی مسلمہ اہمیت کسی نہ کسی صورت برقرار رہی ہے۔ خطے کے ممالک کے درمیان تجارتی ،سفارتی، معاشی اور ثقافتی ہم آہنگی قائم کرنےکیلئے وجود میں آنے والی تنظیم سارک کو بے عمل کرنے میں بھارت کے خود سر رویے کا بڑا عمل دخل تھا۔بھارت نے چین کی معاشی برتری کو ہمیشہ نظر انداز کر کے اپنی انا کو تسکین پہنچانے کی ناکام کوشش کی۔2014میں نیپال میں منعقدہ سارک اجلاس میں نیپال، سری لنکا اور پاکستان نے سارک کے مبصر رکن چین کو مستقل رکنیت دینے کی تجویز پیش کی تو بھارت نے اسکی شدید مخالفت کرتے ہوئے اُڑی حملوں کو جواز بنا کر خود کو سارک سے الگ کر لیا اور 2014ءمیں بحر الکاہل کے 14جزیروں پر مشتمل ممالک کے ساتھ تجارتی ،ثقافتی، معاشی اور اقتصادی روابط کو فروغ دینے کیلئے انڈو آئس لینڈ کو آپریشن تنظیم( فِپکFIPIC) قائم کر لی۔بحرِ ہند میں اپنی بالا دستی قائم کرنےکیلئے بنائی گئی اس تنظیم کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل رہی۔چین کی سالانہ 3ٹریلین ڈالرز سے زائد کی تجارت بحرِ ہند کے ذریعے ہوتی ہے۔امریکہ خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے اور چین کی معاشی برتری کو روکنے کیلئے فِپک کا پشت پناہ بن گیا، جس نے بھارت کیساتھ چار دفاعی معاہدوں پر دستخط کر کے چین کے مقابل بھارت کو ہر طرح کی امداد بہم پہنچانے کا عندیہ بھی دیدیا۔یہ امریکہ کی ’’انڈو پیسفک اسٹرٹیجی‘‘ کا حصہ تھا۔

یک قطبی دنیا میں امریکہ بزورِ قوت عالمی غلبے کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ۔مختلف ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور اپنے نظریات کے حامی من چاہے افراد کو مسلط کرنے کی روش اختیار کرتا رہا۔ جنوبی ایشیا میں امریکہ چین کے مقابل بھارت کو فوجی اور معاشی قوت کے طور پر دیکھنا چاہتا تھا لیکن چین کا طرزِ عمل اور موقف امریکہ سے یکسر مختلف رہا ۔ چین نے باہمی تعاون، اشتراکِ عمل ، باہمی احترام ، باہمی ترقی اور ہم خیال ممالک کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت سے احتراز کی پالیسی اپنا کر دیگر ممالک کو اپنا گرویدہ بنالیا۔چین نے 2013ءمیں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اعلان کیا تو سری لنکا ، مالدیپ ، پاکستان ، بنگلہ دیش ، نیپال اور افغانستان نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ بی آر آئی انفراسٹرکچرل ڈویلپمنٹ اور نئی تجارتی منڈیوں کی دریافت کے ذریعے باہمی اقتصادی و تجارتی ترقی کا ایک شاندار ماڈل تھا جس میں دنیا بھر کے اہم ممالک شامل ہوتے چلے گئے۔

2022ء میںامریکہ کی انڈو پیسفک اسٹرٹیجی کے مقابل چین نے چائنہ انڈین اوشین فورم میں خطے کے 19ممالک کو شامل کر کے ایک نئے اتحاد کا اعلان کر دیا۔ خطے کے چار ممالک پاکستان مالدیپ بنگلہ دیش اور سری لنکا سمندری حدود سے منسلک ہیں جنہیں گلوبل کامنز کہا جاتا ہے۔ نیپال اگرچہ لینڈ لاکڈ ہے لیکن سلی کوڑی کوریڈور کی بدولت یہ بھی بنگلہ دیش سے منسلک ہو جاتا ہے۔ پاکستان اور چین اس اتحاد میں سب سے نمایاں ہیں۔مغربی بحرِہند میں جبوتی چین کی اہم ترین لاجسٹک اسپیس اور ملٹری بیس ہے جبکہ ادھر کراچی اور گوادر اسکے اہم ترین پوائنٹس ہیں۔چین بحرِ ہند فورم کے پہلے اجلاس میں مغربی بحرِ ہند میں بہتر مواصلاتی سہولیات کی فراہمی کیلئے بحرِ ہند فورم نے سب میرین کیبل بچھانے کا اعلان کیا جو چائنہ انڈین اوشین فورم خصوصاً پاکستان کو مشرقی افریقہ اور یورپ سے منسلک کرے گی۔ کراچی اور گوادر سے بچھائی جانے والی یہ سب میرین کیبل مشرقی افریقہ کی ساحلی پٹی کو جوڑتی ہوئی یورپ تک پھیلائی جا ئیگی۔چین بحرِ ہند فورم خوشحالی ، اقتصادی و تجارتی ترقی اور باہمی مفادات کے تحفظ کا ایک شاندار ماڈل ہے۔چین نے 2021ءمیں عالمی ترقیاتی اقدام،2022ءمیں عالمی سلامتی اقدام اور 2023ءمیں عالمی تہذیبی اقدام (Global Civilazation Initiative) متعارف کروا کر پوری دنیا کی توجہ اور اہمیت حاصل کر لی۔ عالمی ترقیاتی اقدام دراصل بی آر آئی سے مختلف پروگرام ہے جس میں شامل ممالک کے لوگوں کی غربت کا خاتمہ ، بہترین اور جدید تعلیمی سہولیات کی فراہمی اور صحت و علاج معالجہ کی اعلیٰ ترین سہولیات یقینی بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ عالمی سلامتی منصوبہ میں شامل تمام ممالک کی بندرگاہوں کو تجارتی و دفاعی نقطہِ نظر سے محفوظ ترین بنانے کے اقدامات کیے گئے ہیںجو اس منصوبے میں شامل تمام ممالک کو کسی بیرونی جارحیت کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کا پابند بناتے ہیں۔ عالمی تہذیبی اقدام کے ذریعے چین تمام رکن ممالک کے تہذیبی و ثقافتی ورثے کے احترام اسکے تحفظ اور فروغ کیلئےباہمی کاوشوں کو فروغ دینے کی بات کرتا ہے۔

جنوبی ایشیا عالمی سیاست میں اہم ترین کردار کا حامل بن چکا ہے ۔ اس وقت پاکستان خوش قسمتی سے زیرِ نگوں اور ابھرتی عالمی قوتوں دونوں کیلئے یکساں اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ بھارت کے ساتھ حالیہ جھڑپ نے نہ صرف پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو اجاگر کیا ہے بلکہ چین اور پاکستان کی مشترکہ تکنیکی، فضائی ، فوجی اور دفاعی صلاحیت و اہمیت کو بھی دنیا بھر پر عیا ں کر دیا ہے۔ چین کا عالمی ترقی ،باہمی اقتصادی تعاون اور محفوظ تجارتی مواقع کی فراہمی کا ماڈل تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔پاکستان چین کا دیرینہ ساتھی اور اہم ترین اسٹرٹیجک پارٹنر ہونے کے ناطے عالمی توجہ کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مستقبل کا بھی حامل ہونے والا ہے۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین