• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو کوئی اچھا لگتا ہے توآپ اسے بے باک اور بہادر کہتے ہیں وگرنہ اسے منہ پھٹ اور بدلحاظ کہہ دیتے ہیں۔ میری دو بہت عزیز شاگرد ہیں جو کچھ برس پہلے ریٹائر ہوئیں، ایک یونیورسٹی کی پروفیسر ایمریطس ہیں انہوں نے شوہر کو پالنے اور سنبھالنے کا جھنجھٹ ہی نہیں پالا، دوسری بھی ملتان میں پلی بڑھیں اور تعلیم بھی یہیں پائی مگر روزگار انہیں بہاولپور لے گیا وہ وہاں صدر شعبہ ہوئیں ریٹائر ہوئیں اور زراعت سے وابستہ ایک ناقدر شناس نے اپنے گھر ایک نئی کونپل کو جگہ دی اور ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کی ماں سے کہا کہ ’’شرع‘‘ مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں نئے کنبے کیساتھ زندگی گزاروں۔ ہماری اس شاگرد کے دل سے شاہ یوسف گردیز کا محلہ نہیں نکلا اور نہ اپنے اباجی کی بتائی یہ بات کہ جس نے اپنا کوچہ چھوڑا، وہ کہیں کا نہ رہا ، سو کچھ لوگ ابدالی روڈ پر آئے عجیب وضع کے گھر بنائے پھر انہی گھروں کو بینکوں اور پلازوں کو دیا اپنے باغ فروخت کئے اور پھر امریکہ چلے گئے وہاں سے بزرگوں کے شجروں پر نوحہ کرتی کتابیں لکھیں۔ بہرطور ہماری ان شاگردوں نے سوچا کہ ملتان سے گرمی سے بھاگ کر کوہ مری کے آس پاس کے علاقے دیکھیں میں نے ان سے کہا کہ ہمارے بچپن میں سارے پریمی یا دکھی پریم نگری کھانستے کھانستے کسی کی بے وفائی پر بلغم پھینکتے اور ساملی سینی ٹوریم کو جا آباد کرتے۔ یہ اپنی نوعیت کے برصغیر میں دو ہی سینی ٹوریم تھے۔ وہاں جائو تو حوری اور زیبی بہنوں کی ارواح کو سلام کہنا جو یہاں آخر وقت تک کسی بے وفا کا انتظار کرتی رہیں۔ تحقیق سے انکی دلچسپی کی وجہ سے انکے ذمے یہ بھی لگایا کہ میں نے سنا ہے کہ بنوں کا کوئی دل والا تھا جو پڑھنے کیلئے اسکاچ مشن اسکول میں آگیا وہاں علامہ اقبال انکے کلاس فیلو اور دوست ہوئے کہ بہت سے کام انہی کے مشورے سے کئے۔ ڈاکٹر بن کریا والد گرامی کے بحالیات کے محکمے سے وابستگی سے خوش حال ہوتے گئے کئی سو ایکڑ زمین اس سینی ٹوریم کو عطیہ کی، یہی نہیں لاہور میں کینال کے کنارے مسلم ٹائون بنایا اور وہاں گھر بنا کے کن افراد کو دیئے نامور مصور استاد اللہ بخش کو، مولانا غلام رسول مہر کو، مولانا عبدالمجید سالک کو مگر ان بزرگوں پر پی ایچ ڈی کرنیوالے انکے محسن کا ذکر کرنے سے شرماتے ہیں، اگر ساملی جائو تو ذرا واپس آ کے بتانا کہ کیا اس ہسپتال کے اندر باہر کہیں بنوں، سیالکوٹ اور لاہور میں تعلیم پانیوالے اس ڈاکٹر کے نام کا کوئی کتبہ، کوئی بورڈ بھی لگا ہے۔ ہماری دونوں شاگردوں نے پلٹ کے بتایا کہ محترمہ مریم نواز نے پورا ٹنٹا ہی ختم کر دیا ہے ساملی ہسپتال کا نام میاں محمد نواز شریف اسپتال رکھ دیا ہے۔

٭٭٭٭

میری بدقسمتی یا خوش قسمتی ہے کہ میں نے اپنے کیریئر کے آغاز میں پروفیسر خلیل صدیقی اور پروفیسر کرار حسین کو ان منصبوں پر رہ کر سیدھا اور کھرا سچ بولتے دیکھا ہے انکے سامنے، جو دنیاوی اعتبار سے بنانے اور بگاڑنے کے اختیار کے فریب میں مبتلا تھے، نواب آف کالاباغ کے بعد پورے مغربی پاکستان کے گورنر ہوئے جنرل محمد موسی خان وہ نماز عید اپنے گھر یعنی کوئٹہ میں ادا کرتے تھے پروٹوکول کیساتھ، سونماز پڑھانے والے امام کو کمشنر نے سمجھا دیا تھا کہ جب تک گورنر صاحب عید گاہ میں پہنچ کر پہلی صف میں بیٹھ نہ جائیں تب تک ’’دینی‘‘ معاملات پر گفتگو کرتے رہیں مگروہ امام صاحب یا تو سادہ دل پٹھان تھے یا کرارحسین صاحب نے انگریزی ادبیات کے استاد کے طور پر بھانپا کہ کہنے والے کے پاس تکرار کے سوا کچھ نہیں تب وہ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل تھے انہوں نے ایک دو باغی قسم کے شاگردوں سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے انہوں نے کہا ’’لاٹ صاحب کا انتظار ہو رہا ہے‘‘ چنانچہ پروفیسر صاحب نے کہا نماز پڑھائیے امام صاحب خدا کے گھر میں آنے میں دیر کرنیوالا کا انتظار نہیں کیا جاتا، سو نماز عید تو ادا ہو گئی پروفیسر صاحب کو ریٹائر کر دیا گیا۔ پھر جب بلوچستان یونیورسٹی بنی تو گورنر غوث بخش بزنجو انہیں کراچی سے لیکر آئے اور انہوں نے مشکل دنوں میں بہت مشکل حالات میں اس ادارے کی بنیاد رکھی جو لگتا تھا کہ اپنوں نے ہی اسے ویران نہ کیا تو یہ پورے بلوچستان میں روشنی کا مینار بنے گی۔ یہی عالم پروفیسر خلیل صدیقی کا تھا وہ ہمارے پاس ملتان میں آئے تو اساتذہ کے ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’اگر چاہتے ہیں کہ استاد کی عزت معاشرے میں رہے تو لالچی،خوشامدی اور خوشامد پسند کسی اور پیشے میں جائیں بے شک،یہاں تو وہ آئیں جو تیاگی ہوں،دولت ،آرام،اکڑ فوں اور تام جھام تیاگ سکتے ہوں۔‘‘ اب ہمارے دائیں بائیں کئی وائس چانسلر ہیں جو سارا دن اپنے فضائل بیان کرتے ہیں، انکے درباری سارا دن سر ہلاتے ہیں ،مگر سٹیج ڈرامے کی ایک تکنیک ’’ایسائیڈ‘‘ سے کام لیکر ایسی خود کلامی کرتے ہیں کہ ڈرامے کے سبھی حاضرین اور ناظرین تو سن لیتے ہیں مگر فرض کیا جاتا ہے کہ کرسی نشیں نے نہیں سنا اور اگر سنا ہے تو ریٹائر منٹ کے بعد ’’مال پانی‘‘ لیکر بیرون ملک جانے تک انکی سمجھ میں نہیں آئے گا۔

٭٭٭٭

کچھ جج اور کتابیں ہمارے دل سے اتر جاتی ہیں،ایک چیف جسٹس منیرمحمد تھے وہی جنہوں نے نظریہ ضرورت کے تحت سندھ کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم کر دیا جو مولوی تمیزالدین کی اسمبلی کو بحال کر سکتا تھا پھر جنرل ضیا الحق کو تو ویسے ہی جدہ کے جادوگر شریف الدین پیرزادہ مل گئے کہ آئین موجود رہ کر بھی غائب ہو سکتا ہے،مجھے سید جعفر احمد کی کتاب ’’فرام جناح ٹو ایوب‘‘ ملی تو جسٹس منیر محمد کی کتاب ’’فرام جناح ٹو ضیا‘‘ یادآئی اس کتاب کے چوتھے باب کا عنوان ہے ’’آئیڈیالوجی آف پاکستان‘‘ پھر پانچویں کا عنوان ہے آئیڈیالوجی میں تبدیلی اور پھر آٹھویں کے عنوان میں تو حد ہی مکا دی گئی ’’ آئیڈیالوجی میں مزیدتبدیلی‘‘۔

تازہ ترین