• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آجکل حافظ نعیم الرحمٰن جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر ہیں جو ایک متحرک اور بالغ نظر شخصیت کے حامل ہیں۔ اِس سے پہلے وہ جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر تھے۔ اُنہوں نے شہریوں کے سیاسی حقوق کی جنگ بڑی جاںفشانی اور کمال استقامت سے لڑی اور کراچی میں جماعتِ اسلامی کے احیا کا معرکہ سَر کیا تھا۔ غالباً اِسی کامیابی کی بنیاد پر ارکانِ جماعت نے اُنہیں اپنا امیر منتخب کیا اور اَب وہ علمی اور عملی میدان میں پوری طرح سرگرم ہیں۔ پچھلے دنوں اُن کا کالم نظر سے گزرا جو پاکستان کے سب سے بڑے اخبار ’جنگ‘ میں شائع ہوا تھا۔ وہ کمال بصیرت سے معمور تھا۔ اُس کا عنوان تھا ’’بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھیں‘‘۔ اُنہوں نے تقریباً ایک ہزار اَلفاظ میں پاکستان کے سب سے نازک اور حساس مسئلے کی نوعیت واضح کرنے کیساتھ ساتھ اُس کا قابلِ عمل حل بھی تجویز کیا ہے۔ اِس کالم کے ذریعے اپنی جماعت کا تعارف اِن الفاظ میں کرایا کہ ’’جماعتِ اسلامی نہ صرف ایک قومی جماعت ہے بلکہ اُمتِ مسلمہ اور اِنسانیت کے اعلیٰ اُصولوں سے جڑی ہوئی تحریک ہے، جو ہر قسم کی تقسیم سے بالاتر ہے۔‘‘

ہمارا خاندان نومبر۱۹۴۷ء میں سرسہ ضلع حصار سے ہجرت کر کے لاہور آیا۔ میری غالباً ۲۷دسمبر کی شام رحمٰن پورہ کی مسجد میں سیّد ابوالاعلیٰ مودودی سے درسِ قرآن کے موقع پر ملاقات ہوئی اور اُن سے ایک ایسا تعلق پیدا ہوا جو الحمدللہ آج تک قائم ہے۔ اُن دِنوں لاکھوں کی تعداد میں لُٹےپٹے مہاجر لاہور آ رہے تھے اور اُن کا پہلا پڑاؤ والٹن کیمپ میں تھا۔ اِس ہولناک افراتفری میں جماعتِ اسلامی سے وابستہ ہزاروں نوجوان مہاجروں کی خدمت بجا لا رہے تھے۔ اُن کی اِس جذبۂ خیرخواہی سے عوام بہت متاثر تھے۔ اگلے سال دریائے راوی میں بلاخیز سیلاب آیا جس میں لاہور اَور شیخوپورہ کے بہت سارے دیہات ڈوب گئے۔ اِس موقع پر بھی جماعتِ اسلامی لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کیلئے سرگرم ہو گئی۔ میرے بڑے بھائی اعجاز حسن قریشی جو جماعتِ اسلامی کے رکن تھے، وہ نوجوانوں کی ٹیم کے ساتھ مہینوں سیلاب زدگان کی خدمت پر مامور رَہے۔ جماعتِ اسلامی ہر نوع کی تفریق سے بالاتر ہو کر مصیبت زدگان کے زخموں پر مرہم رکھ رہی تھی اور یہی صفت اُس کے مزاج کا ایک حصّہ بن گئی۔

قیامِ پاکستان کی سیاسی اور آئینی جدوجہد میں آل انڈیا مسلم لیگ پیش پیش تھی جسکی قیادت قائدِاعظم محمد علی جناح کر رہے تھے۔ اِس جماعت کی سمت کا تعین حکیم الاُمت علامہ محمد اقبال نے اپنے خطبۂ الہ آباد میں کر دیا تھا جو اُنہوں نے دسمبر۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا۔ اُس میں یہ انقلابی نظریہ پیش کیا گیا تھا کہ برِصغیر میں مسلمان اقلیت کے بجائے ایک مکمل قوم کی حیثیت رکھتے ہیں، اِس لیے اُن کا اپنا وطن ہونا چاہیے۔ قائدِاعظم جو نیشنل کانگریس کی قیادت سے دلبرداشتہ ہو کر لندن منتقل ہو گئے تھے، وہ علامہ اقبال، نوابزادہ لیاقت علی خاں اور اُن کی اہلیہ رعنا لیاقت کے مسلسل اصرار پر۱۹۳۴ء میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں بھرپور دِلچسپی لینے لگے۔ وہ اُسی سال اِس جماعت کے صدر منتخب ہوئے اور خطبۂ الہ آباد میں جس سمت کا تعین ہوا تھا، تمام تر دشواریوں کے باوجود اُس کی طرف چل پڑے۔ انڈین نیشنل کانگریس مسلمانوں کو متحدہ قومیت کا سہانا خواب دکھا رہی تھی جبکہ آل انڈیا مسلم لیگ دو قومی نظریے کا پرچار کر رہی تھی۔ مسلمانوں کو ہندو مذہب اور تہذیب میں ضم ہو جانے سے بچانےکیلئے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے عام فہم اور اَذہان کو متاثر کرنے والا لٹریچر تیار کیا جس نے مسلمانوں میں اپنی جداگانہ حیثیت کا شعور گہرا کیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد جماعتِ اسلامی نے قوم کی اخلاقی، فکری اور سیاسی تربیت پر مسلسل کام کیا اور اِس امر کی کوشش کی کہ پاکستان کی سیاسی اور آئینی جنگ جس نظریے کی بنیاد پر لڑی گئی تھی، اُسے زندگی کے ہر شعبے میں بالادستی کا درجہ حاصل ہو۔ اُسی کی بنیاد پر دستورِ مملکت بنے، نظامِ حکومت قائم ہو، تعلیم و تربیت کی پوری عمارت کھڑی کی جائے جبکہ اُمتِ مسلمہ کے ساتھ گہرا رِشتہ استوار کیا جائے۔ جماعتِ اسلامی کے بانی سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلامی، جمہوری اور اَخلاقی اُصولوں پر اِس کی بنیاد رَکھی تھی۔ اِن اُصولوں پر چلنے کا یہ خوشگوار نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ صرف جماعتِ اسلامی وہ تنظیم ہے جس میں دوردور تک موروثیت کا کوئی شائبہ موجود نہیں اور اِس میں ہر چار سال بعد قیادت کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ جماعتِ اسلامی کی شاخیں پاکستان کے تمام صوبوں اور اَضلاع میں پھیلی ہوئی ہیں جو عوام کی فکری اور سیاسی خدمت کرتی اور قومی اور علاقائی مسائل کا حل بتاتی رہتی ہیں۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ جماعتِ اسلامی کے کارکن اخلاقی اعتبار سے ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔

امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنی انتہائی فکرانگیز تحریر میں بلوچستان کے بگڑے معاملات کو موضوعِ گفتگو بنایا ہے اور اُن اسباب و علل کا گہرا جائزہ پیش کیا ہے جو وہاں بدامنی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اُن کا مشورہ یہ ہے کہ زخموں پر مرہم رکھنے اور ماضی کی غلطیوں کا کفارہ اَدا کرنے کا عمل نظر آنا چاہیے، کیونکہ ماضی میں بلوچستان کے حقوق سلب کیے جاتے رہے ہیں اور اَفرادی وسائل کی ترقی پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ اُنہوں نے اِس امر پر بہت زور دِیا کہ عام فیصلہ سازی میں عوام کے نمائندوں کی شرکت ازبس ضروری ہے۔ اُن کی تحریر کی یہ خوبی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ اُس میں خرابیوں کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ مسائل پر قابو پانے کا ایک لائحہ عمل بھی دیا گیا ہے۔ جناب حافظ نعیم الرحمٰن نے یہ خوش خبری دی ہے کہ ہم قومی اور صوبائی قیادت سے رابطے میں ہیں تاکہ امن کا روڈ میپ طے کیا جائے۔ ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے کچھ عملی منصوبے بھی شروع کرینگے۔ اُن میں سے ایک '’’بنو قابل پروگرام‘‘ ہے جسے ہم بلوچستان میں توسیع دے رہے ہیں تاکہ نوجوانوں کو آئی ٹی کی مہارت دی جا سکے اور اُنہیں بہتر روزگار کے مواقع فراہم ہوں۔ دراصل یہ جماعتِ اسلامی کی مثبت اور صحت مند سوچ کا بڑا ہی دلآویز مرقع ہے۔

تازہ ترین