• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھلے مانس کا چلن جاننا ہو یا کسی نگر کا منش معلوم کرنا ہو، کتابوں میں آیا ہے کہ کوچہ و بازار میں خلقت کی بولی پر کان دھرو۔ خوش نصیب ہیں وہ بستیاں جہاں کے باسی لفظ کی پرکھ رکھتے ہیں اور بول کا برتائو? جانتے ہیں۔ بے شک وہ دیس بے نشاں ہوئے، جہاں لفظ معنی کھو بیٹھے، آوازیں شور میں بدل گئیں اور عقل کی کتاب غبار آلود ہوئی۔ ان دنوں ہماری زمین اسی عذاب سے دوچار ہے۔ ہماری بستی کی تاریخ پرانے وقتوں سے کسی درویش کی صدائے دردناک کے نیزے پر ٹنگی ہے۔ جنتا اور رکھشا میں دھرتی پر دعوے کا جھگڑا ایسی پرپیچ گھاٹیوں سے گزرا ہے کہ لڑائی کی صفیں بے ترتیب ہو گئی ہیں۔ سپاہ اور مخبر میں فرق مٹ گیا ہے۔ بھگتی اور لوٹ مار کی لکیریں صحرا کی آندھیوں میں زیر و زبر ہو چکیں۔ حویلی کے مکیں تو قرنوں پہلے کھیت رہے۔ وارث انکے رائیگانی کی دھوپ تلے لاحاصل کی فصل کاٹتے ہیں۔ کچھ برس قبل ایک مرکھنے سانڈ کو جس نے سرلشکر بہادر کے راتب پر قد نکالا تھا، خانہ زادوں کا ایک لشکر اسکی دیکھ ریکھ پر مامور تھا، درباری پرچہ نویسوں کے ایک ہجوم نے کندھوں پر اٹھا کر بڑے مندر میں لا بٹھایا۔ طفلان گلی کوچہ کا ایک ہجوم شریک جلوس ہوا۔ یہ ان گھڑ چوبی پتلا خود کو سمراٹ سمجھ بیٹھا۔ وہی سیتا پور کے سید محمد اشرف کی کہانی ’نمبردار کا نیلا‘ کی تمثیل تھی۔ اب مشکل یہ ہے کہ پرانے لشکروں کے تھکے ماندے بوڑھے سپاہی سامری کے بچھڑے کو ڈنڈوت کرنے سے انکاری ہیں۔ نوجوان تلنگے جدھر منہ اٹھاتے ہیں، گالیوں کا جھاڑ باندھ دیتے ہیں۔ انکی تاریخ 30اکتوبر 2011ء سے شروع ہوئی۔ 2014ء کے دھرنے سے گزرتی ہوئی 25 جولائی 2018 ءکو شاہی محل کے دیوان خاص تک پہنچی۔ اس دوران ملک کی اقتصاد تباہ ہوئی۔ کاروبار مملکت کی بنیادیں بیٹھ گئیں۔ قومی وقار خاک میں مل گیا۔ سیاست پہلے تماشا بنی اور پھر سازش کے گرد باد میں الجھ کر 10اپریل 2022 ءکو محل سرا کی دہلیز پر اوندھے منہ گری۔ گزشتہ نازبرداری کے زعم میں اٹھ کر 9مئی 2023ءکو شہر پناہ پر ٹکر دے ماری۔ اب ’سامری کا بچھڑا‘ ملٹن کی ’بہشت گمشدہ‘ کے راندہ درگاہ باغیوں کی طرح چٹیل میدان میں جہاں تہاں بکھرا ہے اور اس لڑائی کے پرانے شکستہ بدن اور خستہ خواب سپاہیوں پر حرف طعن دراز کرتا ہے۔ کسی کو فسطائی کہتا ہے اور کسی پر درباری کی تہمت دھرتا ہے۔ خود تخت کی دہلیز سے لپٹے اذن رسائی کی بھیک مانگتے ہیں لیکن عشروں سے مورچہ نشین نہتے لشکریوں پر کبھی درباری ہونے کا بہتان دھرتے ہیں تو کبھی فسطائیت کی تہمت لگاتے ہیں۔ دربار کے قصے تو دربار سے خارج ہونے والے جانیں۔ فسطائیت کی علامات ہم سے پوچھیں جنہوں نے پون صدی یہ عذاب دیکھا ہے۔ فسطائیت نعروں، ترانوں اور بصری علامتوں کے ذریعے قوم پرستی کو بے بصری میں تبدیل کر دیتی ہے۔ فسطائیت انسانی حقوق اور عدل کے اصولوں کو پامال کرتی ہے۔ فسطائیت مجمع بکھرنے کے خوف سے کبھی کوئی خیالی دشمن گھڑتی ہے اور کبھی کچھ کمزور گروہوں کے گلے میں غداری اور وطن دشمنی کے طوق لٹکا دیتی ہے۔ فسطائیت عوام کیلئے دو وقت کی روٹی کی بجائے تیر و تفنگ پر وسائل خرچ کرتی ہے۔ سپاہ کو خوشنما وردیاں پہنا کر چمک دار تمغے عطا کیے جاتے ہیں اور عوام میں خوشحالی کے خواب بانٹے جاتے ہیں۔ فسطائیت مردانہ بالادستی کو فروغ دیتی ہے۔ یہ صنفی امتیاز کے علاوہ طاقت کے اصول کو منوانے کا ایک حربہ بھی ہے۔ فسطائیت میں ذرائع ابلاغ پر کڑی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں تاکہ اجتماعی بندوبست میں خرابیوں کی نشان دہی نہ ہو سکے۔ فسطائیت میں عوام کی فلاح پر قومی سلامتی کو بنیادی ترجیح قرار دیا جاتا ہے۔ فسطائیت مذہبی پیشوائیت کے ساتھ ناگزیر طور پر گٹھ جوڑ کرتی ہے تاکہ رائے عامہ کو عقیدت اور پارسائی کی آڑ میں مفلوج رکھا جا سکے۔ فسطائیت سرمایہ دار گروہوں کو ہر ممکن فائدہ پہنچاتی ہے۔ اشرافیہ کا سرمایہ اور ریاست کی قوت مل کر عوام کو نان جویں سے محروم کرتے ہیں۔ فسطائیت میں پیداواری عمل اور محنت کش کو درجہ تحقیر دیا جاتا ہے تاکہ معیشت کی بنیادوں میں اپنا پسینہ خرچ کرنے والے سر اٹھا کر نہ چل سکیں۔ فسطائیت میں دانشوروں کو بنظر حقارت دیکھا جاتا ہے اور فنون عالیہ کی تذلیل کی جاتی ہے۔ فسطائیت میں امن کی بجائے جرم پر توجہ دی جاتی ہے اور سخت سزائو?ں کے خوف سے بالادستی قائم کی جاتی ہے۔ فسطائیت میں خوشامدی اور بدعنوان عناصر کو خاص احترام دیا جاتا ہے۔ فسطائیت میں فیصلہ سازوں کے انتخاب میں دھاندلی اور مداخلت ناگزیر ہوتی ہے۔ اس عمل میں نظام عدل کو بھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ وسائل کی تقسیم پر اجارہ برقرار رکھا جا سکے۔ پاکستان کے نوزائیدہ انقلابیوں کو گالی دشنام کے شغل سے مہلت ملے تو اپنے گریبان میں جھانک کر حساب لگائیں کہ انکے جریدہ سیاست پر کون سی علامات ثبت ہیں۔

عجب تماشا ہے کہ کاروبار مملکت کے بلند چبوترے پر درشن دینے والے دو گروہوں میں سے ایک کا خیال ہے کہ ملک کی کشتی ترقی اور خوشحالی کے نیلگوں پانیوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اور دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ملک کیساتھ کھلواڑ ہو رہی ہے ۔ ایسے میں خط غربت سے نیچے تپتی زمین پر کھڑے 25کروڑ کی آنکھوں میں کچھ اور ہی سوال مچل رہے ہیں۔ ملک کے اندر موجود چینی برآمد کیوں کی گئی اور اب پھر سے چینی منگوانے میں کس کی تجوری میں ہریالی بڑھے گی۔ جسے مکان کا کرایہ دینا ہے وہ بجلی کا بل کیسے ادا کریگا۔ جسے بچوں کو تعلیم دلانا ہے وہ سواری کیلئے ایندھن کے اخراجات کہاں سے لائے گا۔ جسے دو وقت کی روٹی کی ضمانت نہیں وہ بیمار ہونے کی صورت میں علاج معالجے کا بندوبست کیسے کرے گا۔ ابھی ملک میں سیلاب کی صورتحال نہیں محض بارشوں کا پانی سینکڑوں جانیں لے چکا لیکن ہر تین مرنے والوں میں سے دو دیواریں گرنے اور چھتیں منہدم ہونے سے موت کا شکار ہوئے ہیں۔ کوئی تو ہے جس نے ہمارا خستہ مکان گرنے پر ہمارےکچے صحن میں راستے بنا لیے ہیں۔

تازہ ترین