”قصور میں گھر کے باہر کھیلتی بچی کے ساتھ نازیبا حرکت کرنے والا ملزم اپنے انجام کو پہنچ گیا“۔”حافظ آباد میں میاں بیوی کے ساتھ اسلحہ کے زور پر زیادتی کے ملزمان عبرت کا نشان بن گئے“۔یہ وہ چند خبریں ہیں جو پنجاب کے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ یعنی سی سی ڈی کی کارکردگی کا مظہر ہیں۔ آج کل سی سی ڈی کے طریقہ کار پر طرح طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی بچی کی عزت‘ کسی عورت کا زیور‘ کسی مرد کا موبائل اور موٹر سائیکل سمیت شہر اور سڑکیں اس ادارے کے ”خوف“ کی وجہ سے محفوظ ہو گئے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے؟ یہاں مجھے سنگاپور کے ایک سابق سفارتکار اور جیو پولیٹکل کنسلٹنٹ ”کشور محبوبانی“ کی مشہور کتاب ”20 Years of Can Asians Think?“ یاد آ رہی ہے جس میں وہ سنگاپور کی ترقی کی بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سنگاپور کی ترقی کا فارمولا ”MPH“ ہے۔ Meritocracy (میرٹ کی بالادستی) ، Pragmatism (عملیت پسندی) اور Honesty (ایمانداری)۔ میرٹ کی بالادستی اور ایمانداری کی بابت سب جانتے ہیں، ان پر زیادہ بات کیا کرنی مگر یہ جو عملیت پسندی ہے، یہ فارمولا ہمارے ہاں اپنانے کا کبھی سوچا بھی نہیں گیا۔ سنگاپور کی کایاکلپ کرنے والے مشہور لیڈر لی کوآن یو کہا کرتے تھے کہ بلی کا رنگ سیاہ ہے یا سفید، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اگر وہ چوہے پکڑ رہی ہے تو وہ ایک اچھی بلی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ پالیسیاں ہمیشہ عملی اور نتائج پر مبنی ہونی چاہئیں۔ یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ پالیسیوں کے پیچھے آئیڈیالوجی کس کی ہے، انہیں شروع کس نے کیا۔ اگر کوئی کلیہ کام کر رہا ہے، نتائج دے رہا ہے تو معاشرے کی بھلائی اسی میں ہے کہ اسے استعمال کیا جائے۔ خود سنگاپور نے کچھ پالیسیاں کیپٹل ازم اور کچھ سوشلزم سے لیں اور پھر اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک منفرد ماڈل تشکیل دیا، جسکی کامیابی کا عملی ثبوت آج کا ترقی یافتہ سنگاپور ہے۔ مغرب میں جسمانی سزاؤں یا سزائے موت کو برا سمجھا جاتا ہے مگر مغربی ممالک سے اچھے تعلقات کے باوجود لی کوآن یو نے بعض جرائم میں ایسی سزائیں نافذ کیں۔ مختصراً یہ کہ کتابی باتوں اور تھیوری سے زیادہ نظر عملی نتائج پر ہونی چاہیے۔اگر اپنے ہاں کی بات کریں تو پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال پنجاب میں 2023ءکے مقابلے میں تقریباً 30 ہزار زیادہ کیس رپورٹ ہوئے۔ 2023ءمیں رپورٹ ہونے والے کیسوں کی تعداد11 لاکھ 10 ہزار 525 تھی جبکہ 2024ءمیں 11لاکھ 42ہزار 664کرائم کیس رپورٹ ہوئے۔ اسی طرح مختلف کیسوں میں ملزمان کے بری ہونے کی شرح بھی سزا پانے والوں سے زیادہ رہی۔ ایک لاکھ آٹھ ہزار 903افراد کو سزا ہوئی جبکہ ایک لاکھ 77 ہزار 267افراد بری ہوئے۔ کیا یہ تمام ملزم بے قصور اور بے گناہ تھے یا انکی بریت کی وجہ نظام انصاف کا فرسودہ ڈھانچہ ہے، یہ وہ کھلا راز ہے جس پر زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں۔اگر سنگین جرائم کی بات کریں تو ریپ، اجتماعی زیادتی، قتل اور اغوا جیسے جرائم میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ 2023ءکے مقابلے میں 2024ءمیں اغوا کے تقریباً چھ ہزار زیادہ کیس رپورٹ ہوئے۔ اسی طرح قتل کے پانچ ہزار 121، ریپ کے 4257 اور اجتماعی زیادتی کے 1007کیس رپورٹ ہوئے۔ جی ہاں۔ یہ سب صرف سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ اس موقع پر صاحبانِ اختیار و اقتدار کے پاس صرف دو راستے بچتے ہیں یا تو وہ پورے نظام کو اول تا آخر تبدیل کریں، پولیس کا نظام تبدیل کریں، پراسیکیوشن کو تبدیل کریں، عدالتی نظام تبدیل کریں، مقدمے کی کارروائی کو تیز کرنے کیلئے اقدام کریں اور کیسوں کو فاسٹ ٹریک کرنے کیلئے ایک نیا نظام متعارف کرائیں۔ اس کیلئے صوبائی سطح کے علاوہ ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا میں بھی دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہو گی کیونکہ بہت سے معاملات وفاق کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ اس سب میں کتنا وقت درکار ہو گا اور اس دوران کیسوں کا بوجھ مزید کتنا بڑھ جائے گا، یہ بالکل الگ معاملہ ہے۔ حیرانی تو اس وقت ہوتی ہے جب اپنی دکان، گھر وغیرہ میں چوری کرنے والے کو مار مار کر ادھ موا کر دینے والے بھی یہ باتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات کی حمایت اس بات کا اشارہ ہے کہ ہمیں اپنے نظام عدل اور پولیس پر یقین نہیں رہا۔ بات یقین کی نہیں بلکہ فوری انصاف کی ہے۔ کبھی عدالتی ڈیٹا پر بھی ایک نظر ڈال لیں کہ ایک ملزم پر فردِ جرم عائد ہونے، اسے سزا سنائے جانے اور پھر قرار واقعی سزا ملنے تک عمومی طور پر کتنا عرصہ درکار ہوتا ہے اور اس پر ریاست کے کتنے وسائل خرچ ہوتے ہیں۔ یہاں تو سب کے سامنے ہونے والے قتل کا مقدمہ بھی کئی کئی سال تک چلتا رہتا ہے۔کرائم کنٹرول کرنے کا دوسرا طریقہ بڑا سادہ ہے۔ یہ عملیت پسندی پر مبنی ہے۔ سی سی ڈی جیسے ادارےبنائیں اور انہیں مکمل اختیار دیں، اس شرط کے ساتھ کہ کرائم ریٹ نیچے آنا چاہیے۔ اب یہ فیصلہ خود عوام کو کرنا چاہیے کہ انہیں کون سا طریقہ زیادہ پسند ہے۔ پھٹہ لگا کر عدالتوں کے باہر بیٹھے چند ٹک ٹاکروں کے پیچھے لگ کر اپنے محافظ ادارے کے خلاف محاذ آرائی کرنی ہے یا کرائم ریٹ کو فوری نیچے لانے والے اقدامات کی حمایت کرنی ہے۔عوام کی جان و مال اور امن و امان کی حفاظت کیلئے مریم نواز کی قیادت میں پنجاب حکومت جو اقدامات کررہی ہے وہ قابل ستائش ہیں ۔امید ہے کہ مریم نواز کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود کے کام جاری رہیں گے۔