• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چھ سالوں میں پاکستان نے شدید نقصانات کا سامنا کیا ہے۔ جو جمہوریت اس ملک میں موجود ہے وہ کچھ اور نہیں محض دھوکہ ہے۔ایک گھنائونہ کاروبار ہے جہاں اکثر داغدار کردار کے مالک لوگ لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری سے منتخب ہوتے ہیں تاکہ بعد میں کروڑوں روپے کماسکیں۔ سب سے بدترین بدعنوانی 2008 سے 2013 میں دیکھنے میں آئی جس نے ملک کو دیوالیہ کر دیا اور عوام کا اربوں روپیہ لوٹ مار کرکے بیرونِ ممالک بینکوں میں جمع کرادیا گیا ایمنسٹی انٹرنیشنل کے شمار کے مطابق بدعنوانی کا تخمینہ گزشتہ حکومت کے اقتدار کے پہلے چار سال 2008 تا 2011 میں تقریباً 8,500 ارب روپے (اور تقریباً 11,000 ارب روپے پانچ سال میں) لگایا گیا ہے جس نے ملک کے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ روپے کی قیمت ڈالر کے مقابے میں 62 روپے سے گر کر 100 روپے تک پہنچ گئیrental powers project نے تو جیسے صنعتوں کی بربادی کے راستے کھول دیئے۔ غربت اس خطرناک حد تک بڑھ گئی کہ لوگ مجرمانہ زندگیاں گزارنے پر مجبور ہوگئے اور بہت سوں نے خودکشی کر لی۔ افسوس کہ قائداعظم کا خواب اب ایک ڈرائونے خواب کا روپ دھار چکا ہے۔
پاکستان میں صوبائی اسمبلیاں اور وفاقی پارلیمنٹ جاگیرداروں و زمینداروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیاں۔ جنہوں نے انتخابات کو ایک گھنائونہ کاروبار بنارکھا ہے۔ان میں سے بیشتر نااہل اور بدعنوان ارکان پارلیمنٹ پیسوں سے اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہوتے ہیں جس کا عوام تصّور بھی نہیں کر سکتے۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں 249 اراکینِ پارلیمنٹ جن میں اراکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹر بھی شامل ہیں جو جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پر منتخب ہوئے۔ حتیٰ کہ شرمناک حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ حکومت میں وفاقی وزیر برائے تعلیم کی بھی اسناد و ڈگریاں جعلی تھیں۔ پہلے تو وہ پاکستان مسلم لیگ(ق) کے رکن تھے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اقتدار میں آتے ہی بڑی چالاکی سے اپنی پارٹی تبدیل کرلی۔ حکمران جماعت کو خود ایسے لوگوں کے بارے میں سوچنا چاہئے تھا کہ ان کی موجودگی پارٹی کی ایمانداری کے معیار پر برا اثر ڈال سکتی ہے۔
پاکستان میں برطانوی پارلیمانی نظامِ جمہوریت باربار ناکام ہو چکاہے جبکہ کڑوی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں فوجی حکومت اور زمانہ آمریت میں زیادہ GDP کی پیداوار اور زیادہ ترقیاں دیکھنے میں آئی ہیں بہ نسبت اس "feudocracy" (جاگیردارانہ جمہوریت) کے جسے بڑی نادانی سے اس ملک میں پنپنے دیا گیا ہے۔گزشتہ 66 سال کی GDP پیداوار کا موازنہ کیا جائے تو یہ صاف صاف آشکار ہو جاتا ہے کہ سب سے بہتر دورِ جمہوریت کی GDP کی پیداوار سب سے برے دورِ آمریت سے کہیں زیادہ کم ہے ۔جو لوگ اس موجودہ نظام کے دوام کے حامی ہیں وہ یہ کہیں گے کہ یہ سب اس لئے ہوا کہ جمہوریت کو کبھی پنپنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ اگر گزشتہ حکومت کے عہدیداران کو قومی خزانے کی بربادی ولوٹ مار کی سزا آنے والی نئی حکومت دیتی تو کچھ امید کا دیا جل سکتا تھا لیکن افسوس کہ ایک سال کا عرصہ بیت گیا نہ تو گزشتہ حکومت کا کوئی بدعنوان لیڈر مجرم ٹھہرایا گیا نہ ہی ملک کے خلاف جرائم کی پاداش میں جیل بھیجا گیا۔دوستانہ حزبِ اختلاف بدعنوانوں ہی کے مفاد میں ہے جو ملک کی تباہی کے ذمّہ دار ہیں۔
تو اب آگے کیا کرنا چاہئے؟ اس نظامِ جمہوریت میں کچھ بنیادی ردّو بدل کے لئے میں اپنی کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
1۔ سب سے پہلے تو صدارتی نظامِ جمہوریت متعارف کرانا ہوگا تاکہ صرف صدر عام اظہارِ رائے سے منتخب ہو اور پھر وہی صدر انتظامیہ (Chief Executive) ہو۔ وزیرِاعظم کا عہدہ ختم کر دینا چاہئے۔
2 ۔ انتظامی امور کی بہتری کے لئے اضافی صوبے قائم کئے جائیں اور ملکی مفاد میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ صدر کاانتخاب مختلف صوبوں سے ہو۔ کوئی ایک صوبہ کنٹرول نہ کرے ورنہ مشرقی پاکستان جیسا حشر ہو گا۔
3۔ صدر خود اپنے وزراء کی ٹیم مقرر کرنے کا اختیار رکھتا ہو جو کہ صرف اور صرف قابلیت اور دیانت کے بل بوتے پر اس عہدے کے اہل ہوں۔ یہ وزراء اپنے شعبوں میں ماہر ہوں اور بین الاقوامی شہرت رکھتے ہوں۔ان میں سے ہر وزارت کے ساتھ اس شعبے سے متعلق بہترین ماہرین کی مضبوط محفلِ فکر (think tank ) قائم ہو جس کی حمایت و مدد سے وزارتیں اپنا اپنا کام انجام دیں۔
4۔ اراکینِ پارلیمنٹ کا کام محض قانون سازی اور ملکی معاملات کی دیکھ بھال تک محدود ہوگا اور وہ وفاقی اور صوبائی وزراء کی حیثیت سے مقرر ہونے کے اہل نہیں ہوں گے۔ اس طرح ایک ہی وار میں طاقت کے بھوکے بدعنوان لوگوں کا صفایا ہو جائے گا جو سیاست میں آتے ہی اس لئے ہیں کہ عوام کا پیسہ لوٹیں نہ کہ اس لئے کہ ملک کی خدمت کریں ۔
5۔صدارتی امیدواران، وزراء، گورنران اور دیگر اعلیٰ حکومتی افسران کی تقرری سے پہلے ان کے کاغذاتِ نامزدگی و اسناد کی ان کے شعبوں میں ماہر افراد پر مبنی ’عدالتی معائنہ کمیٹی ‘سے خوب اچھی طرح سے جانچ پڑتال ہونا ضروری قرار دیا جائے۔
6۔ارکان پارلیمان کم از کم ماسٹرز ڈگری کے حامل ہوں جیسا کہ ہمارے پڑوسی ملک اسلامی جمہوریہ ایران میں ہے تاکہ وہ اپنی بنیادی ذمہ داری ، قانون سازی احسن طریقے سے نباہ سکیں۔ ایک ناخواندہ شخص کیسے قانوں سازی کر سکتا ہے؟ جیسا کہ موجودہ حالات میں ہو رہا ہے جو کہ بعید از فہم ہے !
7 ۔ انتخابی اصلاحات گہری سوچ بچار اور باریک بینی سے جائزے کے بعد تیار کئے جائیں۔ الیکشن کمیشن کے ارکان کسی بھی سیاسی پارٹی کی نامزدگی سے نہ رکھے جائیں جیسا کہ موجودہ حالات میں ہو رہا ہے جہاں پانچ میں سے چار انتخابی ارکان میں سے دو ارکان ایک پارٹی کی طرف سے نامزد کردہ ہیں اور دو دوسری پارٹی کی طرف سے ۔ان حالات میں یہ کیسے تصّور کیا جاسکتا ہے کہ صاف شفّاف انتخابات کرائے جاسکتے ہیں انتخابی ارکان مقرر کرنے کی ذمہ داری چیف جسٹس سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججوں پر مشتمل کمیٹی کی ہونی چاہئے جو بے داغ کردار کے مالک ہوں اور کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق نہ رکھتے ہوں۔
8۔ ناظمِ انتخابات (Returning Officers ) کی تقرری انتخابی اراکین کی ذمہ داری ہونی چاہئے تاکہ وہ انہیں کے دائرہ اختیار میں کام کر سکیں اور حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔
9۔انتحابات برقی رائے دہندگی (electronic voting) سے کئے جائیں جیساکہ بھارت میں کئے گئے۔
10۔انتخابات کے دوران ہر انتخابی کیمپ کے اندر عسکری عملہ تعینات کیا جائے تاکہ وہ رائے دہندگی کے عمل پر نظر رکھے اور کوئی بھی دھاندلی سے رائے دہندگی کے صندوق جعلی ووٹوں سے نہ بھر دے،جیسا کہ پچھلے انتخابات میں ہوا تھا۔
11 ۔ 11 مئی 2013 میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اپنی تقریر میں بڑی فصاحت سے یہ مشورہ دیا تھا کہ تمام مالی معاملات اور اختیارات صوبائی حکومتوں سے واپس لے کر ضلعی سطح کو دیئے جائیں، اس پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔
12۔پاکستان میں جمہوریت کے نفاذ کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ کثیر تعداد میں لوگوں کی ناخوانگی اور غیر معیاری تعلیم ہے۔ پاکستان کی آدھی آبادی تو ناخواندہ ہے اور باقی ماندہ آدھی آبادی میں سے بیشتر لوگ بمشکل دستخط ہی کر سکتے ہیں اور پارٹیوں کے منشور پڑھنے سے قاصر ہیں۔ ان حالات میں پارٹیاں اپنے منشور کے بل بوتے پر نہیں بلکہ اپنی جاگیر دارانہ مضبوطی کے بل بوتے پر جیتتی ہیں اور جیتنے واے ارباب اختیار تعلیم پر خرچ نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنی رعایا کو اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ پاکستان اپنی GDP کا صرف 1.8% حصّہ تعلیم پر خرچ کرتاہے جس سے اس کا شمار دنیا کے ان آٹھ ممالک میں ہوتا ہے جو دنیا میں تعلیم پر سب سے کم خرچ کرتے ہیں۔ قومی تعلیمی ہنگامی صورت حال کافوراً اعلان ہونا چاہئے اور تعلیم کے لئے GDP کا کم از کم 5% حصہ مختص کر دیناچاہئے جو اگلے پانچ سالوں میں بڑھا کر8% کر دیا جائے۔بنیادی اور ثانوی تعلیم لازمی ہونی چاہئے اور جو والدین اپنے بچّوں کو بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسکول نہ بھیجیں تو انہیں جیل میں ڈالا جانا چاہئے ۔
مساجد میں بھی اسکولوں کے لئے اضافی جگہ ہو سکتی ہیں۔فوج سے سبکدوش حضرات کو اسکول اساتذہ کی دستیابی کے لئے متحرک کیا جا سکتا ہے۔ ایک قومی تعلیمی خدمت (National Education Service) جس میں ڈگری کے سارے طلبہ کے لئے دو سال درس و تدریس کے لئے وقف کرنا لازمی قرار دیا جائے اس کو فوری طور پر لاگو ہونا چاہئے۔ ڈگری اسی صورت میں جاری کی جانی چاہئے جب ان کے پاس امتحان پاس کرنے کے علاوہ اس دو سالہ تدریسی خدمت کی سندموجود ہو۔
13 ۔ جمہوریت کی راہ میں ایک اور اہم رکاوٹ فوری اور مؤثرنفاذ انصاف، جوکہ ہمارے بدعنوان حکومتی طبقے کے لئے کافی موزوں ہے کیونکہ وہ کروڑوں روپے لوٹ کر بڑی آسانی سے بغیر سزا پائے بچ نکلتے ہیں ۔مختلف سیاسی پارٹیوں سے متعلق دہشت گرد آزادی سے کراچی میں پھر رہے ہوتے ہیں اور درجن کے قریب سیاسی قتل ہر دن کا شیوہ ہیں اور اس کے ذمّہ داروں کو نہ پکڑا جاتاہے نہ سزائیں ہوتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ہمارے نظامِ عدالت کو شدید ردّوبدل کی ضرورت ہے تمام مقدمات کو تین سے چھ ماہ میں ختم کیا جانا لازمی ہونا چاہئے اور پرانے مقدمات کے فیصلے بارہ ماہ میں کر دینے چاہئیں ۔ اس کے لئے پورے نظام کو ازسرِنو تشکیل دینا ہوگا۔ دہشت گردی کے مقدمات کے لئے فوجی عدالتیں قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سول جج دہشت گردوں کی دھمکیوں سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے ۔ ایک بہت بڑی تعداد میں کنٹریکٹ پر جج مقرر کئے جائیں اور جو جج وقت ِ مقررہ پر فیصلے دینے سے قاصر رہیں انہیں فارغ کردیا جائے۔
14۔مستند اصلاحات ِ اراضی (agricultural reforms)جاری کی جائیں اور محصو ل( tax) میں اضافے کے لئے زرعی محصول متعارف کرایا جائے ۔
15۔ وفاقی مجلسِ مال ( FBR )کی بھی مکمل اصلاحات کی جائیں کیونکہ سابق وزیرِ مال جناب شوکت ترین کے مطابق تقریباً 500 ارب روپیہ سالانہ FBR افسران کی بدعنوانی کی نظر ہو جاتاہے۔
16۔میری نگرانی میں علم پر مبنی معیشت (Knowledge Economy)میں منتقلی پر ایک جامع مسوّدہ ہزاروں سرکاری اور نیم سرکاری ماہرین حتیٰ کہ وزارتی افسران کے مشورے سے تیار کیا گیا تھا۔ یہ 320 صفحاتی مسودہ 30اگست 2007 میں کابینہ نے منظور کیا تھا۔اسے فوری طور پر لاگو کیا جائے تاکہ سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی ہمیں اس قرض کے انبار سے باہر نکلنے میں مدد دے اور ہم بھی دوسرے ممالک کی صف میں باوقار طریقے سے شامل ہو سکیں۔
یہ سب کیسے ہوگا؟ موجودہ ارکانِ پارلیمنٹ یقیناً ایسا نہیں چاہیں گے ۔ان اصلاحات کو رائج کرنے کے لئے فوج کو اپنا زورِ بازو استعمال کرنا ہوگا بلکہ اس تجویز کردہ جمہوری نظام میں فوج کا بھی باضابطہ کردار ہونا چاہئے تاکہ آئندہ آمریت (مارشل لاء)کے نفاذ سے بچا جاسکے جیسا کہ ترکی میں کیا گیا ہے۔
تازہ ترین