میں رواں سال اپنے 14اپریل اور 26مئی کے کالمز میں ٹرمپ کی تجارتی جنگ کے بارے میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ یکم اگست سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 69مختلف ممالک پر امریکہ ایکسپورٹ کی جانیوالی اشیاء پر 10فیصد سے 41 فیصد تک نئے ٹیرف کا اعلان کیا، پاکستان پر عائد 29 فیصد ٹیرف کو کم کرکے 19فیصد کردیا گیا جبکہ ہمارے ٹیکسٹائل کے حریف ممالک بھارت پر 50 فیصد، بنگلہ دیش پر 20فیصد اور ویت نام پر بھی 20فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے، اس طرح ہمیں امریکی ایکسپورٹ پر کچھ برتری حاصل ہوئی ہے جس پر میں نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور سیکریٹری تجارت جواد پائول کو مبارکباد دی ہے۔ یکم اگست سے ٹیرف معاہدے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات نے اہم کردار ادا کیا جس پر وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر خارجہ مارکو روبیو کا شکریہ ادا کیا۔ کراچی چیمبر کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ہماری پیداواری لاگت مقابلاتی حریف ممالک سے تقریباً 10فیصد زیادہ ہے لہٰذا مجموعی طور پر ان ممالک کی اشیاء اب بھی ہم سے سستی ایکسپورٹ کی جاسکیں گی۔ حکومت کو چاہئے کہ ہماری پیداواری لاگت میں کمی کیلئے بجلی، گیس کے نرخوں، بینکوں کے شرح سود اور صنعت پر ٹیکسوں کے بھاری بوجھ میں کمی لائے تاکہ ہم نئے امریکی ٹیرف رجیم سے فائدہ اٹھاسکیں۔ وائٹ ہائوس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور فلپائن پر 19 فیصد، قازقستان اور مالدوا پر 25فیصد، جنوبی افریقہ، الجزائر اور لیبیا پر 30فیصد، کینیڈا کا ٹیرف 25فیصد سے بڑھاکر 35فیصد، میانمار اور لائوس پر 40فیصد، شام پر 41فیصد جبکہ اسرائیل جیسے قریبی اتحادی پر 15فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ اسی طرح برکس کے اہم ممالک بھارت اور برازیل پر 50 فیصد جبکہ دیگر برکس ممالک پر بھی 25سے 50فیصد تک نیا امریکی ٹیرف عائد کیا گیا ہے جو امریکہ کے تیزی سے ابھرتے ہوئے معاشی اور سفارتی بلاک برکس سے عدم تحفظ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
قارئین! برکس (BRICS) دنیا کے 5 بڑے ممالک برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل ہے اور توقع ہے کہ مصر، سعودی عرب، یو اے ای اور ایران بھی اس بلاک میں شامل ہو جائینگے۔ برکس ممالک کی آبادی دنیا کی آبادی کا 47فیصد اور گلوبل جی ڈی پی کا 36فیصد حصہ رکھتی ہے۔ ان ممالک کو قدرت نے تیل، گیس، گیہوں اور اہم معدنیات سے نوازا ہے۔ برکس ممالک میں چین، بھارت اور روس ڈیجیٹل کرنسیوں، سیمی کنڈکٹرز، لیتھیم بیٹری، فائیوجی اسپیکٹرم، آرٹیفیشل انٹلیجنس اور پیٹرولیم مصنوعات جیسے اہم شعبوں میں امریکی اور مغرب کی اجارہ داری کو کم کرکے گلوبل سپلائی چین میں ایک اہم رول ادا کرنا چاہتے ہیں۔ برکس دنیا میں امریکہ کی فنانشل، تجارتی اور معاشی اجارہ داری اور ڈالر پر مبنی فنانشل نظام کیخلاف ہے۔ برکس ممالک دنیا میں اپنی مقامی کرنسیوں بالخصوص چینی کرنسی یوآن اور روسی کرنسی روبل میں گلوبل ٹرانزیکشن کرنا چاہتے ہیں جسکا انہوں نے حال ہی میں عملی مظاہرہ بھی کیا ہے۔ برکس کا چینی کرنسی میں ادائیگیوں کا نظام نہایت تیز اور سستا ترین ہے جس کی وجہ سے دنیا کے دیگر ممالک تیزی سے اس سسٹم میں شمولیت اختیار کررہے ہیں اور امریکی گلوبل فنانشل ادائیگیوں کے نظام کے مقابلے میں چینی کرنسی یوآن اور روسی کرنسی روبل میں تیل کی ادائیگیوں کا نظام CIPS امریکی نظام SWIFT کے مقابلے میں تیزی سے فروغ پارہا ہے اور سعودی عرب اور چین، چینی کرنسی یوآن میں تیل کی ادائیگیوں کی طرف پیشرفت کررہے ہیں۔ اسی طرح مرکزی بینکوں میں ڈالر میں زرمبادلہ کے ذخائر رکھنے کے بجائے دیگر کرنسیوں میں زرمبادلہ کے ذخائر رکھنے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، برکس ممالک ورلڈ بینک کی طرح NDB بینک انفراسٹرکچر پروجیکٹس کیلئے بھی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ برکس ممالک آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں جن پر امریکہ کا زیادہ اثرو رسوخ ہے، کی جگہ متبادل CRA بینک متعارف کرارہے ہیں جو برکس ممالک کو مالی مشکلات میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرح قرضے دیگا جس سے عالمی فنانشل نظام میں امریکہ کی اجارہ داری کمزور ہوجائیگی۔ ڈالر عالمی سطح پر کمزور ہورہا ہے جس کی وجہ سے امریکہ عدم تحفظ کا شکار ہے۔ حال ہی میں امریکہ نے بھارت پر روس اور ایران سے تیل خریدنے اور تجارت کرنے پر جرمانے عائد کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن امریکہ کے اضافی ٹیرف اور ٹیکسز سے ایک امریکی خاندان کو سالانہ 2400ڈالر اضافی خرچ کرنا پڑیگا جو امریکہ میں افراط زر یعنی مہنگائی میں اضافے کا سبب بنے گا۔
پاکستان اور امریکہ کا تجارتی خسارہ 3.4ارب ڈالر ہے جس میں کمی کیلئے ہم نے امریکہ سے وعدہ کیا ہے کہ ہم 2 ارب ڈالر کا خام کاٹن، سویا بین، مشینری اور پیٹرولیم مصنوعات اضافی امپورٹ کریں تو پاکستان اور امریکہ کا تجارتی خسارہ کم ہوکر صرف 1.4ارب ڈالر رہ جائیگا جو امریکہ کو قابل قبول ہوگا۔ اسکے علاوہ ہمیں امریکی مصنوعات کی امپورٹ پر عائد نان ٹیرف بیریئرز بھی ختم کرنے پڑینگے کیونکہ پاکستان کسی صورت میں بھی امریکی مارکیٹ کا شیئر کھونے کا متحمل نہیں ہوسکتا بلکہ ہمیں چین، بھارت، بنگلہ دیش، ویت نام اور کمبوڈیا جن پر امریکی جوابی ٹیرف ہم سے زیادہ ہیں، کا مارکیٹ شیئر حاصل کرنا چاہئے۔ اسکے علاوہ چین پاکستان میں جوائنٹ وینچر کرکے پاکستان سے کم ٹیرف پر اپنی مصنوعات امریکہ ایکسپورٹ کرسکتا ہے۔ SIFC سے درخواست ہے کہ ایسے جوائنٹ وینچرز کیلئے خصوصی پالیسی کا اعلان کیا جائے۔