• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو درویشوں کا قصّہ ہے، یہ ان نابغوں کی کہانی ہے جو قوموں کی زندگی میں آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں مگر ہوتے ضرور ہیں۔ اگر ایسے لوگ جنم نہ لیں تو معاشرے بانجھ اور ملک بے توقیر ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ زندہ رہ جانے والے کردار ہیں جنہوں نے اپنی دنیا آپ پیدا کی۔ ایک کا نام ڈاکٹر یونس جاوید اور دوسرے حسین احمد شیرازی ہیں۔ بت پرستی کے اس عہد میں زندہ لوگوں پر لکھنے کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے مگر ہم نے ہمیشہ روایت شکنی کی سو آج بھی اپنا چلن نہیں بدلا۔
سید ضمیر جعفری کے بارے میں آغا شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ ’’سید ضمیر جعفری اگر شاعر نہ ہوتے تو فقیر ہوتے‘‘۔جناب یونس جاوید بھی اگر کہانی کار نہ ہوتے تو مجذوب ہوتے مگر جذب و کیف اب بھی ان کی شخصیت میں فراواں ہے۔ یونس جاوید فلم نگار، کہانی کار اور ڈرامہ نگار بھی ہیں، وہ افسانے کے افق پر اس وقت طلوع ہوئے جب پاکستان میں تجریدی اور علامت نگاری کا وفور ماند پڑ چکا تھا۔ ان کا ناول ’’کنجری کا پل‘‘ جو لاہور کے تناظر میں دنیا کے قدیم ترین پیشے کے وہ زاویئے سامنے لاتا ہے جس سے ہمارا ادبی ورثہ اٹا پڑا ہے۔
یونس جاوید کے اس ارتقائے فن کی اگلی منزل پر انہوں نے ’’ستونت سنگھ کا کالا دن‘‘ لکھا۔ یونس جاوید ایک خاموش مجاہد ہیں، وہ بہت کم بولتے ہیں، ان کی شخصیت میں ٹھہرائو ہے۔ وہ لاہوریوں جیسا کھڑکا اور ہا ہو نہیں کرتے۔ جائزہ لیتے ہیں ایک نقاد کی طرح، چیزوں کی سرجری نہیں کرتے بلکہ اپنی شگفتہ مزاجی کی طرح مشاہدے کو کاغذ پر اتار دیتے ہیں۔ ایک رات تھوڑی دیر کیلئے کسی کام سے تھانے گئے، وہاں نیند میں ایس ایچ او کو بڑبڑاتے دیکھا تو ٹی وی کے لئے پوری سیریل لکھ دی، جس کا نام تھا ’’اندھیرا اجالا‘‘۔ اس میں جعفر حسین نے اسی تھانیدار کا کردار کیا تھا۔ جناب یونس جاوید حقیقت نگاری کے اسلوب میں کردار نگاری کرتے ہیں۔ یونس جاوید نے جب ڈرامہ لکھا ان دنوں اشفاق احمد، بانو قدسیہ، منو بھائی، انور مقصود، حسینہ معین اور امجد اسلام امجد اس میدان میں موجود تھے مگر یونس جاوید نے ان سب کا حصار توڑتے ہوئے طویل دورانئے کا ڈرامہ ’’کانچ کا پل‘‘ لکھا اور ڈرامہ نگاروں میں اپنی جگہ بنا لی۔ الیکٹرانک میڈیا کی تاریخ کا یہ پہلا طویل ترین ڈرامہ تھا جس نے ڈرامہ 81ء، 82ء، 83ء اور ڈرامہ 88ء کی بنیاد رکھی۔ دھوپ دیوار، ساون روپ، وادیٔ پرخار، پھولوں والا راستہ اور ’’رگوں میں اندھیرا‘‘ ہر چند کہ زادہ راہ، اسٹیٹس، صبح جمال، عشق سے تیرا وجود، دیار عشق اور عہد وفا یادگار ڈرامے ہیں مگر ’’کانچ کا پل‘‘ چین میں بیجنگ یونیورسٹی کے نصاب میں ابھی تک شامل ہے۔ یونس جاوید کی کہانیاں، ڈرامے، افسانے اور کئی ناول چھپ چکے ہیں جن میں آخر شب، تیز ہوا کا شور، آوازیں، میں ایک زندہ عورت ہوں، ربا سچیا رب قدیر، ایک چہرہ یہ بھی ہے، کلیات ناسخ، اقبالیات کی مختلف جہتیں صحیفۂ اقبال، احمد بشیر کے خاکے، بہائو الدین زکریا (تصوّف)، رنجش اور دل کا دروازہ کھلا ہے۔ یونس جاوید ایک ایسے شفیق دوست ہیں جن سے نہ ملیں تو روح بے چین رہتی ہے اور ملیں تو بچھڑنے کا قلق۔ حال ہی میں یونس جاوید صاحب کو صدارتی تمغہ پرائڈ آف پرفارمنس ملا۔ اس سے پہلے نیشنل فلم ایوارڈ، تین پی ٹی وی ایوارڈ، گریجویٹ ایوارڈ اور پی ٹی وی سلور جوبلی ایوارڈ، کئی گولڈ میڈل ملے۔ یونس جاوید 23؍اکتوبر 1947ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر آف فلاسفی ہیں اور حافظ قرآن بھی۔ تین فلمیں لکھیں جن میں ’’ڈائریکٹ حوالدار‘‘ اور ’’بے نظیر قربانی‘‘ شامل ہیں۔
سید حسین احمد شیرازی نفیس، نستعلیق اور وعدے نبھانے والے ایک ایسے دریا دل انسان ہیں جنہوں نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام مکمل کرنے میں بطور کسٹم آفیسر ایک سچّے اور کھرے پاکستانی کا کردار نبھایا۔ حسین احمد شیرازی کو قلم کار برادری اردو ادب میں مزاح نگار کے طور سے جانتی ہے اور ان کی ضخیم تصنیف ’’بابو نگر‘‘ کے تذکرے ہرسو ہیں۔ 1983ء میں ’’آل پاکستان طنز و مزاح کانفرنس‘‘ میں جب ممتاز مزاح نگار جنرل شفیق الرحمن نے حسین احمد شیرازی کا ہاتھ نیرنگ خیال کے ایڈیٹر سلطان رشک کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آئندہ اپنے رسالے میں شائع کرنے کے لئے مضمون کے تقاضے کا فون مجھے کرنے کے بجائے حسین شیرازی صاحب کو کرنا‘‘ مانا کہ یہ بہت بڑا خراج تحسین ہے اور ’’بابو نگر‘‘ کے بارے میں حسین احمد شیرازی خود بھی رقم طراز ہیں کہ انہوں نے اپنی دھرتی کی مٹی کے قرض کا کچھ حصّہ ادا کرنے کی نیت سے لکھا ہے‘‘ لیکن میرے خیال میں سید حسین احمد شیرازی کی تخلیق ’’بابو نگر‘‘ شگفتہ تحریروں میں ماسٹر پیس ہونے کے باوجود بابو نگر ان کے تعارف کا حوالہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کتاب کے علاوہ کسٹم ایکسائز اور سیلز ٹیکس پر حسین شیرازی صاحب کی سات کتابیں ہیں جنہیں فیڈرل بورڈ آف ریونیو اسلام آباد اور مقتدرہ قومی زبان نے شائع کیا جن پر وفاقی حکومت نے انہیں آٹھ لاکھ روپے کا کیش ایوارڈ بھی دیا۔ سید حسین احمد شیرازی بنیادی طور سے دیانتدار انسان ہیں۔ دیانت انسان کو دلیر بنا دیتی ہے اور دلیر انسان قدرے بھولا اور سادہ ہوتا ہے۔ سادگی بھی دلیری کی ہی ذیلی شاخ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سید حسین احمد شیرازی ’’بابونگر‘‘ کی شہرت پر ہی قناعت کر بیٹھے حالانکہ Customs case- Law of Pakistan-1998 ان کی شاہکار کاوش ہے۔ یہ سات جلدوں پر مشتمل بڑے سائز کے دس ہزار دو سو باسٹھ (10,262) صفحات پر محیط ہے۔ پوسٹ مین جب گزشتہ دنوں کتاب لے کر آیا تو یہ کہہ کر اندر لائبریری تک چھوڑ گیا کہ آپ سے نہیں اٹھائی جائے گی۔ شیرازی صاحب کی ایک اور کتاب Sales tax case, law of Pakistan-2001 ہے۔ یہ اتنے بڑے کام ہیں کہ باقی کام چھوٹے چھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔ شیرازی صاحب کالم نگار بھی ہیں اور وکیل بھی، وہ سرکاری ملازمت میں جانے سے پہلے بھی وکالت کرتے تھے اور آج کل بھی لاہور ہائی کورٹ میں وکالت کرتے ہیں۔ وہ 2006ء میں ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے لارج ٹیکس پیئرز یونٹ فیڈرل بورڈ آف ریونیو لاہور سے ریٹائر ہوئے۔ وہ 1975ء میں جب محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تو ان دنوں شیرازی صاحب چکلالہ ایئرپورٹ پر اسسٹنٹ کسٹم کلکٹر تھے۔ کہوٹہ ایٹمی پروجیکٹ کا ضروری سامان دنیا بھر سے ان کی موجودگی میں آتا رہا۔ وہ اس بہت بڑے قومی اثاثے کے رازداں ہیں اور انہوں نے ہمیشہ اس حوالے سے خاموشی اختیار کئے رکھی مگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے ایک تقریب میں انکشاف کر کے حسین شیرازی کو قوم کی نظروں میں بہت بلند کر دیا ہے۔ سچّی بات ہے ایسے لوگ گھروں کے کمروں میں بنی کارنس کے پیالوں میں رکھ کے بھول جانے کیلئے نہیں ہوتے، انہیں آنکھوں میں بھر لینا چاہئے۔
تازہ ترین