تحریر: عاصمہ عمران
مہمان: کرن
عبایا، اسکارفس اور اہتمام: قواریر فیشن/ مومنات/ میرمن
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لےآؤٹ: نوید رشید
’’حجاب‘‘، صرف پردہ نہیں، یہ عورت کی حیا و پاکیزگی، وقار وعزت کی علامت، اُس کی ایک منفرد پہچان اور شناخت ہے، جو اُسے اُس کے فطری حُسن اورخُود اعتمادی کے ساتھ جگمگائے رکھتا ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں 4 ستمبر کا دن ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اِمسال، اِس دن کا خصوصی تھیم ’’تحفّظ: عورت کا حق‘‘ مقرر کیا گیا ہے اور یہ خُوب صُورت تھیم ہمیں یہ یاد دلا رہا ہے کہ حجاب، محض ایک گز، ڈیڑھ گز کپڑے کا ٹکڑا یا صرف ایک رسم، رواج نہیں، بلکہ یہ ہر مسلمان عورت کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی دینی، تہذیبی اور شخصی شناخت کو اپنی مرضی و منشا، اختیار و ذمّے داری اور پورے وقار و احترام کے ساتھ اپنائے۔
حجاب کا تعلق صرف فرد سے نہیں، معاشرے کے کردار و اخلاق، تعلیم و تربیت، محافظت و پرداخت، تہذیب و تمدّن، اور حیا و پاکیزگی سے بھی ہے اور یہی خواص کسی بھی معاشرے کو مضبوط و مستحکم کرتے، اُس کی اقدار و روایات کو زندہ و پائندہ رکھتے ہیں۔ حجاب کو متنازع بنانے کی منظّم کوششوں کے باوجود، ہربرس اِس یوم کی بھرپور پذیرائی ثابت کرتی ہے کہ جب اور جہاں عورت کے فطری، حقیقی حقوق کا احترام اور حفاظت کی جاتی ہے، معاشرہ ترقی و امن کی راہ پر گام زن ہوتا ہے۔
1890ء کی دہائی سے لے کر آج تک، مغربی ممالک میں مسلمان خواتین پرحجاب کے حوالے سے طرح طرح کی پابندیاں لگائی جارہی ہیں، لیکن لاکھوں مسلم خواتین نے اپنے اِس حق کی حفاظت کے ضمن میں کوئی تامل نہیں برتا۔ امام یوسف القرضاوی جیسے بزرگ علماء کی قیادت میں آغاز ہونے والی جدوجہد تاحال پورے زور و شور سے جاری و ساری ہے، خصوصاً شہیدۃ الحجاب، مروہ الشربینی کی دل خراش شہادت کے واقعے کے نقوش تو اتنے گہرے ہیں کہ آج بھی ہر مسلمان خاتون کے دل و دماغ میں ثبت ہیں۔
حق و صداقت، اور صحیح معنوں میں حقوقِ نسواں کے لیے جان دے کر شہیدہ نے پوری دنیا کو باور کروایا کہ ایک مسلمان عورت جان تو دے سکتی ہے لیکن اپنی عزت و عصمت کی حفاظت پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتی۔ اِسی طرح آج فلسطین، کشمیر اور دیگر مشکل حالات سے دوچار خطّوں کی مسلمان خواتین بھی اپنے اس حق کی حفاظت کی جدوجہد میں کوشاں و سرگرداں ہیں۔ اور… ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ اِن سب کی آواز کو عالمی سطح تک بلند کرنے اور پورے ایمان وایقان سے اِس عزم، سبق کو دہرانے کا دن ہے کہ
؎ مَیں حُکمِ رب پہ نازاں ہوں، مجھے مسرور رہنے دو…رَدا ہے یہ تحفّظ کی مجھے مستور رہنے دو…مثالِ سیپ میں موتی، مجھے رَب قیمتی سمجھے…مجھے اپنی قدرافزائی پہ مغرور رہنے دو…زمانے کی نظر گہنا نہ دے پاکیزگی میری…حیا کے لعل و گہر سے مجھے پُرنور رہنے دو…زمانہ خلق ہے، مَیں ذریعۂ تخلیق ٹھہری ہوں…مجھے اس منصبِ تخلیق پہ معمور رہنے دو…نہیں محتاج میری ذات مصنوعی سہاروں کی…حیا کی پاس داری سے، مثالِ حُور رہنے دو…مِرے سر پر جو چادر ہے، مِرے ایماں کا سایہ…اِسی سائے کی ٹھنڈک سے ہرغم دُور رہنے دو۔
عورت کا چہرہ، پاکیزگی کے ہالے میں ہو، تو اِس بات کا آئینہ دار ہوجاتا ہے کہ شرم و حیا اور تقدّس و پاکیزگی، فیشن کے ساتھ بھی بخوبی ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔ جدّت کے تقاضوں کے مطابق، لیکن دینِ اسلام کے بنیادی اصولوں کی پاس داری کے ساتھ بھی ساتر لباس تیار کیا جا سکتا ہے، جو نہ صرف عورت کے حقِ حجاب کو تحفّظ دیتا ہے بلکہ اُس کے دورِ حاضر کے ساتھ چلنے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں آنے دیتا۔
اور ہماری آج کی یہ پُرنور محفل اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ جدید فیشن کی چاشنی کے ساتھ بھی حجاب وحیا کا پورا پورا خیال رکھا جا سکتا ہے بلکہ دورِ جدید کے فیشن رجحانات نے تو عبایا، اسکارفس کو ایک نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ متعارف کروایا ہے کہ ایک طرف اِن کی تیاری میں، ایک سے بڑھ کر ایک فیبرک کا استعمال ہو رہا ہے (کہ جو صرف تن ڈھانپنے، سترپوشی ہی کا فریضہ انجام نہ دے، ہر موسم و ماحول کی مناسبت سے جسم و جاں کے لیے باعث راحت وسُکون بھی ہو) تو دوسری طرف رنگوں کی وسیع رینج کے ساتھ، حسین ترین اندازِ بناوٹ، خُوب صُورت کٹس، دل کش ونفیس ایمبرائڈریز، لیسز، موٹفس کی آرائش اور رنگا رنگ عبایا کے ساتھ نت نئے انداز کے اسکارفس کے جلووں کی بہار بھی گویا پورے جوبن پر ہے۔
اِس ضمن میں آئے روز مختلف و منفرد عبایا کی تیاری کے ساتھ حجاب کے جدید ترین اسٹائلز بھی سامنے آتے رہتے ہیں، جیسا کہ روایتی سوتی جلباب کے ساتھ اب نرم ریشمی اسکارفس فیشن میں خاصے اِن ہیں۔ پھر جب سے ماحول دوست ملبوسات کے استعمال کا رجحان بڑھا ہے، عبایا، اسکارفس بھی نامیاتی کاٹن اور بانس کی ریشم وغیرہ سے تیار کیے جانے لگے ہیں، جب کہ رنگوں میں نیلے کے خاندان کے ہر رنگ، سُرمئی مائل سیاہ، ہلکے خاکی اور دودھیا سفید سے لے کر چمک دار سونے اور چاندی جیسے رنگوں کے حجاب، عبایا ہر عورت کو اپنی شخصیت کے اظہار کا پورا موقع فراہم کررہے ہیں۔
نیز، ہاتھ کی کڑھت کے ساتھ مشینی ایمبرائڈری، موتیوں کی سجاوٹ اورجدید ٹیکسچر نے تو جیسے ہر پیس کو ایک فن پارے کی شکل دے دی ہے۔ یوں نئے دور کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی، حجاب سے محبّت رکھنے والی خواتین اپنے حقِ تحفّظ کو بہت منفرد و باوقار انداز سے اپنائے ہوئے ہیں۔
جیسا کہ ہماری آج کی بزم سلک، جارجٹ اور کرنکل جارجٹ فیبرکس میں کڑھت، لیس ورک سے مزّین گلابی، کاسنی، اسکائی بلیو، سیاہ و سفید اور الیکٹرک بلیو جیسے حسین و دل نشین رنگوں کے، جدید تر اندازِبناوٹ سے آراستہ عبایا کے ساتھ ایک سے بڑھ کر ایک اسکارف کا جلوہ لیے ہوئے ہے، خصوصاً غزہ کی شیردل خواتین کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طور پر مخصوص فلسطینی اسکارفس کے انتخاب نے تو’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کی اہمیت و افادیت پر جیسےمہر ثبت کر دی ہے۔