ملک کے ایک بڑے حصے میں کئی ماہ سے شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جس نے سیلابی شکل اختیار کرلی ہے ۔ اس کی تباہ کاریوں سے بہت بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہیں جبکہ اس سال کے ابتدائی دنوں میںطویل مدت سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت کا مسئلہ پریشان کن ہوتا جارہا تھا اور ڈیموں میں موجود پانی کے ذخائر ختم ہونے کے قریب پہنچ رہے تھے۔ ما ہ رواں میں بارشوں کا نیا اور نہایت منہ زور سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور اس کے نتیجے میں تباہ کاری کا دائرہ بھی پھیلتا چلا جارہا ہے۔ موسمی پیشین گوئیوں کے مطابق یہ رجحان ابھی مزید برقرار رہے گا۔ تادم تحریر دستیاب اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بارشوں ، بادل پھٹنے، سیلاب اور آسمانی بجلی کے گرنے کے واقعات میں تقریباً تین سوافراد جاں بحق اور سیکڑوں لاپتہ ہوگئے۔باجوڑ میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف خیبرپختونخوا حکومت کا ہیلی کاپٹرحادثے کا شکارہوکر تباہ ہوگیا اور دو پائلٹوں سمیت پانچ افراد شہید ہوگئے۔درجنوں مکانات کے منہدم ہونے کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبہ، بچے اور خواتین بھی سیلابی ریلوں کی نذر ہوگئے۔کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے اوررابطہ پل اور سڑکیں تباہ ہوگئیں۔ محکمہ موسمیات نے خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں مزید بارشوں کاانتباہ جاری کردیا ہے۔ صورت حال کی سنگینی کے سبب وزیراعظم نے ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ کو خیبرپختونخوا میں بھرپور امدادی کارروائیاں جاری رکھنے کی ہدایت کردی ہے۔ خیبرپختونخوا میں اموات کی تعداد 214 سے تجاوز کرگئی ہے۔صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق سب سے زیادہ نقصان ضلع بونیر میں ہوا، بونیر کے 12 سے زیادہ دیہات کلاؤڈ برسٹ سے شدید متاثر ہوئے، جہاں اموات کی تعداد 213 تک پہنچ گئی ہے ۔گلگت بلتستان میں بھی سیلابی ریلوں سے مختلف وادیوں میں تباہی پھیل گئی ہے۔ چلاس میں فصلیں، مکانات، باغات، رابطہ پل اورواٹر چینل تباہ ہوگئے ہیں۔آزاد کشمیر کی وادی نیلم میں سیلابی ریلے دریا پر بنے چھ رابطہ پل بہا لے گئے، مختلف حادثات میں گیارہ افراد جاں بحق ہوگئے،سیلاب سے متاثرہ سوات اور باجوڑ میں پاک فوج کا فلڈ ریلیف آپریشن جاری ہے۔پاک فوج کی ٹیمیں متاثرہ اضلاع میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور سیلاب زدہ علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔مقامی افراد، ریسکیو اہلکار، ریونیو عملہ اور الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار بھی ریسکیو آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے اپنی ایک دن کی تنخواہ بھی امدادی سرگرمیوں اور متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے وقف کرنے کا لائق ستائش اور تمام اہل وطن کے لائق تقلید فیصلہ کیا ہے۔تاہم عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے سنگین اثرات سے دوچار سرفہرست ملکوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ضروری ہے کہ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے مقامی اور بین الاقوامی ماہرین کے تعاون سے مختصر اور طویل مدتی بنیادوں پر مؤثر منصوبہ بندی کی جائے۔ پورے ملک خصوصاً بارشوں اور سیلاب کے حوالے سے پُر خطر علاقوں میں نوجوانوں کو شہری دفاع کی مکمل تربیت دی جائے اور تعلیمی اداروں میں اسے لازمی کیا جائے ۔ دریاؤں اور برساتی نالوں کے قریب رہائشی اور کاروباری تعمیرات پر قطعی پابندی لگائی جائے۔ موسمی تغیرات کے زیر اثر علاقوں میں ہرفردکیلئے لائف جیکٹ کی دستیابی یقینی بنائی جائے۔پانی کے گھروں میں داخل ہوجانے کا خطرہ ہو تو بجلی کے مین سوئچ بند کردیے جائیں تاکہ کرنٹ لگنے سے بچا جاسکے۔ علاوہ ازیں بین الاقوامی سطح پر ترقی یافتہ ملکوں کو ماحولیاتی چیلنج سے نبردآزما تمام ترقی پذیر ملکوں کیلئے خصوصی منصوبے تشکیل دینے اور قرار واقعی مالی تعاون پر آمادہ کیا جائے۔